دلوں میں بسنے والی شہزادی ڈائنا

زاہدہ حنا  اتوار 8 ستمبر 2024
zahedahina@gmail.com

[email protected]

مجھے آج بھی یاد ہے جب اکتیس اگست  1997کو لیڈی ڈائنا کے انتقال کی خبر آئی تو مجھے لگا تھا کہ میر ے اندر دور تک بہت اداسی اتر گئی ہو، دل بہت اداس ہو گیا تھا،اس وقت ہمارے گھر میں ٹی وی نہیں تھا اور میں نے فوراً صرف اس لیے ٹی وی قسطوں پر خریدا تھا کہ میں اور سب گھر والے لیڈی ڈائنا کی آخری رسومات جو براہ راست دکھائی گئی تھی، ٹی وی پہ دیکھ سکیں، لیڈی ڈائنا نے لوگوں کے دلوں پہ اس وقت بھی راج کیا تھا اور اب اپنے انتقال کے ستائیس برس بعد بھی وہ لوگوں کے دلوں پہ حکمرانی کرتی ہے ۔

لوگوں نے ان کو پیپلز پرنسسز اور پرنسسز آف ہارٹز جیسے خطابات دیے، وہ واحد شخصیت ہیں جن کی تصاویر اور خبریں ان کی موت کے بعد بھی اتنی چھپیں کہ شاید کسی زندہ کی نہ چھپیں ہوں۔ لیڈی ڈائنا کی زندگی کسی پریوں کی کہانی کی مانند لگتی ہے مگر حقیقت میں ان کی زندگی میں تنہائی، درد اور اداسی شامل تھی، وہ ایک ایسی شہزادی تھی جو لوگوں کے دلوں میں تو زندہ رہی مگر اس کے شہزادے نے کبھی اس کو وہ مقام، محبت اور اپنایت نہیں دی جو اس کا حق تھا اور جس کی اسے تلاش تھی۔

ہم اپنی بیٹیوں کو پریوں اور شہزادیوں کی زندگی دینے کا خواب دیکھتے ہیں مگر ہم یہ نہیں جانتے کہ در حقیقت شہزادی ہونا کتنا مشکل ہے، ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے لوگوں کو ہاتھ ہلاتے ہوئے وہ اندر سے کتنی تنہا اور مایوس تھی ۔ڈائنا ایک بہت مضبوط عورت تھی، اپنی شادی کی ناکامی کے دکھ اور تکلیف کے ساتھ ساتھ اسے یہ احساس تھا کہ وہ دنیا بھر کے عوام کی ہر دل عزیز شہزادی ہے۔

اس نے اپنی آواز کو ہارے ہوئے لوگوں کے لیے استعمال کیا۔ وہ لوگوں کے دلوں پر راج کرتی تھی، ان لوگوں کے لیے کھڑی ہوئی جن کے بارے میں کسی نے نہیں سوچا تھا۔ اپنی زندگی میں وہ سو سے زائد چیریٹیز کے ساتھ منسلک رہی۔ انھوں نے اس وقت ایڈز اور کوڑہ کے مریضوں کے لیے آواز اٹھائی جب کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اس دور میں اخبارات اور رسائل ایڈز اور کوڑہ کے مریضوں کے ساتھ ان کی تصویریں شائع کیا کرتے تھے۔

کینسر کے مریضوں یا بچوں کا اسپتال، وہ ان سب کے ساتھ نہ صرف جڑی ہوئی تھی بلکہ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ ان سب کے لیے زیادہ سے زیادہ فنڈز اکھٹے کیا جا سکیں۔ لیڈی ڈائنا ایک انتہائی درد مند دل کی مالک تھی۔ عام لوگوں سے وہ ایسے گھل مل جاتی تھی جیسے وہ ان میں سے ایک ہو۔ ان کی اس ادا پہ لوگ ان کے دیوانے تھے۔

شاہی خاندان ان کی شہرت اور عوام میں ان کی مقبولیت سے خائف تھا۔ ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے لوگ گھنٹوں ان کا انتظار کرتے۔ الیکٹرونک میڈیا اور پرنٹ میڈیا لگتا تھا ان کا تعاقب کر رہا ہے۔ اس وقت کا میڈیا ان کا سایہ بنا رہتا تھا۔ ان کی ذاتی زندگی میں کوئی پرائیویسی نہیں تھی۔ اگر یہ خبر میڈیا کو مل جاتی کہ وہ کسی تقریب میں شرکت کرنے والی ہیں تو میڈیا رات سے وہاں موجود ہوتا۔ وہ میڈیا سے بڑی خوش دلی سے ملتی تھیں اور تصاویر بنواتی تھیں مگر ان کی ذاتی زندگی کے ہر پہلو کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے میڈیا جس طرح ان کا گھیراؤکرتا تھا وہ اس سے تنگ بھی آجاتی تھیں۔ ان کے لیے عام زندگی گزارنا مشکل ہوگیا تھا۔

وہ لاکھوں کے مجمعے میں بھی تنہا تھیں۔ لوگ اس کے ساتھ تصویر کھنچوانے، اس سے ہاتھ ملانے کے خواب دیکھتے اور وہ شاہی محل اور شاہی خاندان میں بالکل تنہا تھی۔اپنے بچوں کے لیے ڈائنا نے بہت سے شاہی اصولوں کو پس پشت ڈالا ، وہ اپنے دونوں بیٹوں کو اسکول چھوڑنے اور لینے جاتی۔ بیٹوں کے اسپورٹس ڈے پہ ریس میں حصہ لیتی اور اپنے بچوں کے ساتھ عام ماں کی طرح رہنا چاہتی تھی اور جتنا ممکن تھا رہتی بھی تھی۔ ان کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ وہ اپنے بیٹوں کو عام سی زندگی دے سکیں۔ لیڈی ڈائنا کی شخصیت اتنی سحر انگیز تھی کہ وہ انھیں دوسروں سے منفرد اور ممتاز بناتی تھی۔ ان کی شخصیت کی جاذبیت لوگوں کے دلوں میں گھر کرلیتی۔ وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے لوگوں کے کام آتی تھیں۔ دردمندی، محبت اور لوگوں کے کام آنا ڈائنا کی میراث ہے۔ جو انھوں نے اپنے بعد چھوڑی ہے۔ آج بھی ان کے نام پہ بہت سے خیراتی ادارے کام کر رہے ہیں۔

شہزادی ڈائنا بہادر اور خود مختار خاتون تھیں، وہ دنیا بھر میں محبت اور احترام کے ساتھ یاد کی جاتی ہیں۔ وہ ان لوگوں کے کام آئیں جو ٹھکرائے ہوئے تھے۔ ان کی انسان دوستی اور لوگوں کے کام آنے کی عادت نے انھیں عوام کے دلوں میں آج بھی زندہ رکھا ہوا ہے۔انھوں نے لوگوں میں دماغی صحت، جزام پہ آگاہی، بچوں کی فلاح و بہبود، لینڈ مانز کے خلاف عالمی مہم میں بھی اہم کردار ادا کیا۔وہ انتہائی سادہ، انسان دوست ہونے کے ساتھ شفیق اور محبت کرنے والی انسان تھیں۔ وہ عوام کے ساتھ اس طرح گھل مل جاتی تھیں کہ محسوس ہی نہیں ہونے دیتی تھیں کہ وہ ایک شہزادی ہیں اور ان کا تعلق شاہی خاندان سے ہے۔ ان کی شخصیت میں وہ سحر تھا جو لوگوں کے دلوں کو چھو لیتا تھا۔ آج اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی وہ لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔

ڈائنا ایک فیشن آئیکون تھیں، ان کا لباس اور انداز ہمیشہ لوگوں کی توجہ کا مرکز رہا۔ ان کے بالوں کا انداز اور ان کے ملبوسات خواتین میں بے پناہ مقبول تھے۔ خواتین لیڈی ڈائنا کٹ کروانے پالر جاتیں اور ان کے ملبوسات کی نقل کی جاتی۔ان کی شخصیت میں ایک خاص بات تھی جو انھیں دوسروں سے منفرد بناتی تھی اور وہ تھا ان کا دل کو چھو لینے والا انداز۔ ان کی شرمیلی مسکراہٹ جس کی دنیا دیوانی تھی، اس مسکراہٹ کے پیچھے کتنی اداسی تھی مگر اس اداسی کے باوجود ڈائنا نے لوگوں میں ہمیشہ خوشیاں بانٹیں۔

چارلس کے ساتھ ان کی شادی جو کسی خواب کی مانند نظر آتی تھی، اس کی حقیقت کچھ اور تھی۔ ازدواجی زندگی میں مسائل کے باوجود انھوں نے عوامی ذمے داریوں کو بخوبی نبھایا۔ ڈائنا نے ڈپریشن اور Bulimia پہ کھل کر بات کی جو یقیناً آسان نہیں تھا۔ وہ جانتی تھیں کہ پریس اس بات کو اچھالے گا مگر انھوں نے بڑی بہادری سے نہ صرف پریس کا سامنہ کیا بلکہ لوگوں میں یہ شعور پیدا کیا کہ ان مسائل پہ بات ہونی چاہیے۔ آج بھی لوگوں کی ڈائنا سے محبت ویسے ہی قائم ہے جیسے 27 برس پہلے تھی۔ وہ لوگوں کے دلوں میں راج کرتی رہے گی لوگ ڈائنا کے چلے جانے کے بعد بھی ڈائنا سے محبت کرتے ہیں اور یاد کرتے ہیں اس شہزادی کو جو خواب سی تھی اور خواب ہو گئی۔اس کی رخصت پر میں نے ایک کالم لکھا تھا جس کا عنوان تھا ’’تابوت اس پری کا تھا‘‘اور جس کی آخری سطریں تھیں کہ:

شامیانہ نیا ذری کا تھا

تابوت اس پری کا تھا

عود سوز آگے آگے روشن تھے

مر گے پر بھی لاکھ جوبن تھے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔