اسٹارٹ اِٹ ناؤ

جاوید چوہدری  اتوار 8 ستمبر 2024
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

ہماری کلاس میں 19 طالب علم تھے‘ ہم دنیا کے مختلف حصوں سے بنکاک میں اکٹھے ہوئے تھے‘ وہ سیلف ہیلپ اور مائینڈ سائنسز کی کلاس تھی‘ میں نے تین دن کا کورس لیا تھا‘ ان تین دنوں میں چھ ایکسپرٹس نے ہمیں موٹی ویٹ کرنا تھا‘ کورس کا نام تھا ’’اسٹارٹ اِٹ ناؤ‘‘ یعنی ’’اب شروع کرو‘‘ یہ دس سال پرانی بات ہے لیکن کورس کا دوسرا دن مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے‘ مسٹر اسٹارٹر ہمیں لیکچر دے رہا تھا‘ وہ ہانگ کانگ سے تعلق رکھتا تھا‘ بزنس گرو تھا‘ اسکی خصوصیت ’’اسٹارٹ اپ‘‘ تھی۔

وہ سست سے سست اور کنفیوژڈ سے کنفیوژڈ ٹیم سے بھی کام شروع کرا دیتا تھا‘ لوگ اس کی اس خوبی کی وجہ سے اسے مسٹر اسٹارٹر کہتے تھے‘ اس کا اصل نام بہت مشکل تھا‘ دوسرا اسے اپنا لقب زیادہ پسند تھا لہٰذا اس نے خود کو مسٹر اسٹارٹر تسلیم کرلیا تھا ‘ اس نے لیکچر کے شروع میں ہم سب سے ایک سوال کیا‘ اس کا کہنا تھا ’’دنیا کی مہنگی ترین جگہ کون سی ہے؟‘‘ وہ اس سوال کے بعد خاموش ہو گیا اور ہم نے بولنا شروع کر دیا‘ جم کا تعلق امریکا سے تھا۔

اس کا کہنا تھا نیویارک کا مین ہیٹن دنیا کا مہنگا ترین علاقہ ہے‘ ہیرو جاپان سے تھا‘ اس کا کہنا تھا ٹوکیو کی گینزا سٹریٹ دنیا کی مہنگی ترین لوکیلٹی ہے‘ فرنچ لیزا کا کہنا تھا پیرس کی شانزے لیزے‘ برطانوی ڈیوڈ کا دعویٰ تھا آکسفورڈ سٹریٹ لندن جب کہ سعودی طلال کا دعویٰ تھا مکہ کلاک ٹاور کے دائیں بائیں موجود جگہ انچوں کے حساب سے بکتی ہے‘ میں خاموشی سے سنتا رہا‘ اسٹارٹر تھوڑی تھوڑی دیر بعد میری طرف دیکھ رہا تھا‘ جب تمام لوگ بول چکے تو اس نے مجھ سے پوچھا ’’تم نے اپنی رائے نہیں دی‘‘۔

میں نے ہنس کر جواب دیا‘ پاکستان میں ابھی کوئی ایسی جگہ ڈویلپ نہیں ہوئی جو شانزے لیزے یا مین ہیٹن کا مقابلہ کر سکے‘‘ اس نے قہقہہ لگایا اور کہا تم ’’اپنے ملک کی مہنگی ترین جگہ کے بارے میں بتا دو‘‘ میں نے جواب دیا ’’اسلام آباد کا بلیو ایریا پاکستان کا مہنگا ترین علاقہ ہے‘‘ اس نے ہاں میں سر ہلایا اور اس کے بعد پوچھا ’’کیا سب اپنی اپنی رائے دے چکے ہیں؟‘‘ سب نے پورے جذبے سے جواب دیا ’’یس ‘‘ مسٹر اسٹارٹر نے یہ سنا‘ ہنسا اور کہا ’’دنیا میں ایک ایسی جگہ بھی ہے جو ان تمام جگہوں سے کہیں زیادہ مہنگی ہے بلکہ اگر میں یہ کہوں دنیا کی تمام قیمتی جگہیں مل کر بھی قیمت میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتیں تو یہ غلط نہیں ہو گا‘‘ ہم سب حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگے۔

وہ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد بولا ’’اور یہ قیمتی ترین جگہ دنیا کے ہر شہر‘ قصبے اور گاؤں میں موجود ہے اور اسے دیکھنے کے لیے لوگوں کو کہیں نہیں جانا پڑتا‘‘ ہماری حیرت میں اضافہ ہو گیا‘ وہ رکا اور پھر ہنس کر بولا ’’اور اس جگہ کا نام قبرستان ہے‘‘ وہ پھر خاموش ہو گیا‘ ہم اسے عجیب نظروں سے دیکھنے لگے‘ کیوں؟ کیوں کہ ہم سب کے ذہن کے کسی بھی کونے میں قبرستان کا نام نہیں تھا‘۔

اسٹارٹر نے کلاس کے گرد چکر لگایا اور اس کے بعد بولا ’’دنیا کے ہر قبرستان میں ایسے لاکھوں آئیڈیاز دفن ہیں جو زمین کے معمولی سے ٹکڑوں کو مین ہیٹن اور شانزے لیزے بنا سکتے تھے‘ ان میں دنیا کے بہترین دماغ‘ بہترین دانشور‘ بہترین سائنسدان‘ معجزاتی کھلاڑی‘ لازوال بزنس مین‘ تاریخ ساز لیڈر اور پوری نسل انسانیت کو بدلنے کی قوت سے مالا مال فلن تھراپسٹ موجود ہیں‘ قبرستان میں موجود ہر شخص بل گیٹس‘ وارن بفٹ‘ آئن سٹائن‘ نیلسن مینڈیلا‘ نیوٹن‘ برٹرینڈ رسل‘غالب‘ علامہ اقبال اور گرونانک بن سکتا تھا لیکن یہ لوگ اور ان کے آئیڈیاز اپنی شناخت بنائے بغیر دنیا سے رخصت ہو گئے ‘ لوگ ان کا نام اور شکل تک بھول گئے‘‘۔

مسٹر اسٹارٹر کا کہنا تھا ’’آئن سٹائن اور آپ کے محلے کے ٹام‘ ڈک اور ہنری میں کوئی فرق نہیں تھا‘ قدرت نے دونوں کو ایک ہی پراسیس کے ذریعے ایک ہی طرح کی صلاحیتیں دے کر پیدا کیا‘ دونوں ایک جیسے تھے اگر کوئی فرق تھا تو وہ صرف ’’اسٹارٹ اِٹ ناؤ‘‘ کا تھا‘ آئن سٹائن نے اپنے آئیڈیا پر کام شروع کر دیا تھا جب کہ باقی تمام آئن سٹائنوں نے اپنی زندگی ’’کروں یا نہ کرو‘ کل کروں گا‘ اگلے سال سے اسٹارٹ لوں گا‘ ریٹائرمنٹ کے بعد کر لوں گا‘ تھوڑی سی فرصت مل جائے تو اسٹارٹ کروں گا اورپہلے تھوڑے سے پہلے جمع کر لوں پھر کرتا ہوں‘‘ میں ضائع کر دی‘ یہ سوچتے اور پلان کرتے کرتے قبرستان پہنچ گئے۔

جب کہ اصلی آئن سٹائن‘ اصلی بل گیٹس‘ اصلی وارن بفٹ اور اصلی نیلسن مینڈیلا نے کل کا انتظار نہیں کیا‘ یہ اٹھے اور انھوں نے کام شروع کر دیا چنانچہ یہ لوگ بن گئے جب کہ باقی لوگ کچھ بھی کیے بغیر دنیا سے رخصت ہو گئے‘‘ مسٹر اسٹارٹر کا کہنا تھا’’ ہم اگر کوئی ایسی مشین ایجاد کر لیں جومٹی میں ملے ڈی این اے میں چھپا پوٹینشل اور پلاننگ ریڈ کر سکے تو ہم ہر قبر کی داستان پڑھ اور سن کر پریشان ہو جائیں گے‘ ہم یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے ان میں سے ہر شخص عظیم اور شان دار تھا اور وہ دنیا میں بہت کچھ کر سکتا تھا لیکن وہ صرف ایک قدم کی وجہ سے پیچھے رہ گیا‘ وہ ایک حماقت کی وجہ سے زندگی کی دوڑ سے باہر ہو گیا اور وہ حماقت اسٹارٹ نہ کرنا تھی‘ یہ بے چارہ سوچتا رہ گیا اور اسی سوچ کے دوران اس کا وقت پورا ہوگیا‘‘۔

مسٹر اسٹارٹر کا کہنا تھا’’ کام یاب اور ناکام‘ امیر اور غریب اور وِنر اور لوزر میں صرف ایک فرق ہوتا ہے اور اس فرق کو اسٹارٹ کہتے ہیں‘ وِنر‘ امیر اور کام یاب انسان آئیڈیا پر کام شروع کر دیتا ہے‘ یہ اسٹارٹ کر دیتا ہے جب کہ ناکام‘ غریب اور لوزر صرف سوچتا رہ جاتا ہے‘ یہ پلاننگ میں اپنی زندگی اور پوٹینشل ضایع کر دیتا ہے‘‘۔

مسٹر اسٹارٹر اس کے بعد پورے جذبے سے بولا ’’لہٰذا آپ جو بھی کرنا چاہتے ہیں بس وہ ابھی سے شروع کر دیں‘ آپ لیڈر بننا چاہتے ہیں‘اسٹارٹ ناؤ‘ آپ کوئی فون‘ کوئی آرٹ سیکھنا چاہتے ہیں‘ نوکری چھوڑ کر بزنس کرنا چاہتے ہیں‘ کسی غیر ملکی یونیورسٹی میں داخلہ لینا چاہتے ہیں‘ کسی خوب صورت لڑکی یا لڑکے کو پروپوز کرنا چاہتے ہیں‘ ایکسرسائز کرنا چاہتے ہیں‘ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ اداکاری‘ گلوکاری یا ڈانس کرنا چاہتے ہیں‘ کوئی دوا ایجاد کرنا چاہتے ہیں‘ امیر ہونا چاہتے ہیں‘دنیا دیکھنا چاہتے ہیں‘ مصوری کرنا چاہتے ہیں‘ ٹاکسک ریلیشن شپ سے جان چھڑانا چاہتے ہیں‘ کسی سے معافی مانگنا یا کسی کو معاف کرنا چاہتے ہیں‘ کسی سے ملنا چاہتے ہیں‘ کسی سے بھاگنا چاہتے ہیں‘ کسی کا دل جیتنا چاہتے ہیں۔

محمد علی کلے یا آرنلڈ شوارزنیگر بننا چاہتے ہیں‘ بالی ووڈ یا ہالی ووڈ میں کام کرنا چاہتے ہیں‘ چرچ جانا چاہتے ہیں‘ صوفی بننا چاہتے ہیں‘ بزنس ایمپائر کھڑی کرنا چاہتے ہیں‘ وزیراعظم یا صدر بننا چاہتے ہیں‘ اپنے غصے کی عادت ختم کرنا چاہتے ہیں‘ کوئی نئی زبان سیکھنا چاہتے ہیں‘ اپنی چال ڈھال اور نشست وبرخاست بدلنا چاہتے ہیں‘ کوئی چیریٹی اسکول‘ یتیم بچوں کے لیے کوئی پناہ گاہ بنانا چاہتے ہیں تو آج سے اسٹارٹ کریں بلکہ نہیں رکیے ابھی سے اسٹارٹ کریں‘ اسٹارٹ اِٹ ناؤ کیوں کہ اگر آپ نے آج یا ابھی اسٹارٹ نہ کیا تو ہرگزرنے والا لمحہ آپ کو آپ کی منزل سے دور لے جائے گا اور اگر آپ نے ابھی شروع کر دیا تو ہر دن‘ ہر گھنٹہ آپ کو آپ کی منزل‘ آپ کے مقصد کے قریب لے جائے گا‘‘ اسٹارٹر خاموش ہو گیا‘ ہال میں چند لمحے سناٹا رہا پھر ایک کونے سے تالی کی آواز آئی اور اس کے بعد ہم سب نے کھڑے ہو کر تالیاں بجانا شروع کر دیں‘ اسٹارٹر یہ دیکھ کر ہنسا اور اس کے بعد اسٹیج ایکٹر کی طرح جھک کر شکریہ ادا کرنے لگا۔

آج اس لیکچر اور اس دن کو دس سال گزر چکے ہیں لیکن آپ یقین کریں آج بھی جب میرے ذہن‘ میرے دل میں کوئی آئیڈیا آتا ہے اور مجھے اس میں جان محسوس ہوتی ہے تو میں وقت ضایع کیے بغیر فوری طور پر اس پر کام شروع کر دیتا ہوں اور آپ یقین کریںمسٹر اسٹارٹر کی طرح میں ہر دن کامیابی کے قریب ہوتا چلا جاتا ہوں‘ میرے پاس جب بھی کوئی شخص‘ کوئی نوجوان مشورے کے لیے آتا ہے تو میں اس سے صرف ایک سوال پوچھتا ہوں ’’تم کیا کرنا چاہتے ہو؟‘‘ وہ جو بھی جواب دیتا ہے میں اس سے کہتا ہوں تم پھر اس منصوبے پر کام شروع کیوں نہیں کرتے؟ اسٹارٹ اِٹ ناؤ‘ میرے پاس طالب علم آتے ہیں تو میں ان سے بھی یہ پوچھتا ہوں آپ تعلیم کے بعد کیا کریں گے؟۔

اگر کوئی جواب دے میں بزنس کرنا چاہتا ہوں تو میں کہتا ہوں تم پھر اسے آج سے شروع کیوں نہیں کرتے‘ تم اسے تعلیم کے بعد کیوں شروع کرنا چاہتے ہو؟ اس سے تمہارا بہت وقت ضایع ہو جائے گا‘ تم اٹھو اور کام شروع کرو‘ تم تعلیم مکمل ہونے تک اپنی منزل کے بہت قریب پہنچ چکے ہو گے‘ آپ یقین کریں ان میں سے جو بھی میری بات پر عمل کر لیتا ہے اس کی زندگی بدل جاتی ہے اور جو اچھے اور بہتر وقت کا انتظار کرتے رہتے ہیں وہ قبرستان کے نزدیک پہنچ جاتے ہیں اور پھر ایک دن دنیا کی قیمتی ترین جگہ (قبرستان) میں پناہ گزین ہو جاتے ہیں‘ میراآپ کو بھی یہی مشورہ ہے آپ جو بھی کرنا چاہتے ہیں جو بھی بننا چاہتے ہیں آپ فوری طور پر بسم اللہ کریں‘ اللہ تعالیٰ کرم کرے گا اور آپ جلد کام یاب ہو جائیں گے‘ یہ یاد رکھیں آئن سٹائن کے استاد اس سے زیادہ پڑھے لکھے اور ذہین تھے لیکن وہ گم نامی اور ناکامی میں مارے گئے جب کہ آئن سٹائن امر ہوگیا‘ کیوں؟ کیوں کہ آئن سٹائن کے استادوں نے اپنی زندگی پلاننگ اور سوچ میں ضایع کر دی تھی جب کہ آئن سٹائن نے کام شروع کر دیا تھا‘ آپ بھی بسم اللہ کریں اور اس کے بعد معجزے دیکھیں لہٰذا اسٹارٹ اِٹ ناؤ‘ بس شروع کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔