پاکستان میں غالب شناسی

رئیس فاطمہ  جمعـء 11 جولائی 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ کے قارئین اور بالخصوص مرزا غالب کے کلام، شخصیت اور افکار سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اس کتاب کا تعارف نہ کروانا، ان پر ایک بڑے ظلم کے مترادف ہوتا۔ زیرنظر کتاب ’’پاکستان میں غالب شناسی‘‘ دراصل راجن پور کے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج کے پرنسپل محترم ڈاکٹر شکیل پتافی کا پی ایچ ڈی کا مطبوعہ مقالہ ہے جو ہمیں اردو زبان اور شعر وادب کے اسکالر جناب راشد اشرف کے توسط سے موصول ہوا ہے۔ ’’کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے؟‘‘ کے زیر عنوان مصنف کی روداد آپ خود پڑھ لیجیے۔

لکھتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ کا لاکھ شکر ہے کہ اس نے مجھ ناچیز کو تحقیق کے دشت پرخار سے گزرنے کا حوصلہ عطا کیا۔ موضوع کی وسعت اور نوعیت سے ازخود اندازہ ہوسکے گا کہ میں نے اس دشت بے اماں میں کہاں کہاں کی خاک چھانی ہے۔ اس عرصے میں پاکستان کے طول و عرض کا سفر درپیش رہا مختلف کتاب خانوں کے چکرکاٹنے پڑے اور متعدد لوگوں سے ملنے کے لیے کئی کئی بار ان کے گھر جانا پڑا۔ تحقیق کے اس سفر میں کئی مقامات پر میری سانسیں اکھڑیں اور کئی بار میرے اعصاب مضمحل ہوئے لیکن جنون علم و ادب اور شوق آبلہ پائی نے میرا ساتھ دیا۔‘‘

پھر آگے چل کر لکھتے ہیں:’’غالب کے بارے میں سوچنا اورغالب پر لکھنا میرا ایک خواب تھا۔ میں نے جس محنت اور محبت سے کام کیا ہے اس سے غالب شناسی میں اور کچھ نہیں تو آٹے میں نمک برابر اضافہ ضرور ہوا ہوگا (یہ در حقیقت مصنف کی انکساری اور کسر نفسی ہے) میرا کام ایک پورے ملک کی غالبیاتی تاریخ کو یک جا کرنا تھا۔ قیام پاکستان سے لے کر 2005 تک غالب پر جو کچھ لکھا گیا اس کی درجہ بندی ضروری تھی۔ مصنف نے اس یقین کا اظہار بھی کیا ہے کہ ’’اس کام سے آیندہ ادوار میں غالب شناسی کی روش پر چلنے کے لیے صحیح راستے کا تعین کرنے میں مدد ملے گی۔‘‘

’’پاکستان میں غالب شناسی‘‘ چھ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں غالب کے عہد سے لے کر قیام پاکستان تک غالب شناسی کی روایت بیان کی گئی ہے۔

دوسرا باب ’’ترتیب و تدوین‘‘ کے زیرعنوان ہے۔ اس میں اردو، فارسی تصانیف غالب کی پاکستانی اشاعتوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ تاہم ان کتب کے ہندوستانی ایڈیشنوں کو حاشیے میں درج کرکے تحقیق کا دائرہ وسیع کردیا گیا ہے۔

تیسرے باب میں غالب پر لکھی گئی تحقیقی اور پھر تنقیدی کتب کا جائزہ لیا گیا ہے۔ دونوں حصوں میں پہلے اردو اور پھر دیگر زبانوں میں لکھی گئی کتابیں زیر بحث لائی گئی ہیں۔

چوتھا باب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ ’’ترجمے‘‘ کے زیرعنوان ہے جس میں تصانیف غالب کے جزوی اور کلی منظوم و منشور تراجم کا جائزہ لیا گیا ہے۔ دوسرے حصے میں اردو اور فارسی کلام غالب کی شرحوں کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔

اس کتاب کا پانچواں باب ’’متفرقات‘‘ کے نام سے ہے جو پندرہ مختلف حصوں پر مشتمل ہے۔ ابتدائی آٹھ حصے تضمین، ہم طرح، پیروڈی، مزاح، ناول، ڈرامے، لطائف اور نصابی رہنمائی کے زیرعنوان غالبیاتی سرمائے پر مبنی ہیں۔ نویں حصے میں غالب شناسوں پر کی گئی تحقیق اور دسویں حصے میں غالب کے نام سے قائم شدہ اداروں کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ گیارہویں حصے میں دس غالب شناسوں کے کام کا اجمالی جائزہ لیا گیا ہے۔ اسی طرح اس باب کے آخری چاروں حصے غالب پر لکھے گئے مضامین ومقالات کے اندراج پر مشتمل ہیں۔کتاب کا آخری ’’پاکستان میں غالب شناسی کا مستقبل‘‘ کے عنوان سے ہے۔

اس باب میں اردو زبان و ادب پر غالب کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے اور غالب شناسی کی روایت کو مضبوط تر بنانے کے لیے کچھ تجاویز دینے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں غالب شناسی کے امکانات کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مصنف کا بیان ہے کہ غالب کے حوالے سے لکھی گئی کوئی اہم اور نادر تصنیف ایسی نہیں جو اس کتاب میں درج نہ ہو۔ حتیٰ کہ میں نے بعض غیر مطبوعہ تصانیف تک بھی رسائی حاصل کی ہے۔

آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اس کتاب کے مصنف نے غالب شناسی کا حق کماحقہ ادا کیا ہے ۔ غالب شناسی پر اس سے قبل ایسی تفصیلی کتاب میری نظر سے تو گزری نہیں ۔

اب میں اس کتاب کے چند اقتباسات یہاں درج کرنا چاہوں گی جس سے ’’ایکسپریس‘‘ کے ایک عام قاری کو بھی اندازہ ہوجائے کہ تحقیق کسے کہتے ہیں۔ مصنف غالب شناسی کی روایت خاص باب میں رقم طراز ہیں:’’ایک روایت کے مطابق میر نے غالب کا کلام سن کر کہا تھا ’’اگر اس لڑکے کو کوئی کامل استاد مل گیا اور اس نے اس کو سیدھے راستے پر ڈال دیا تو لاجواب شاعر بن جائے گا ورنہ مہمل بکنے لگے گا‘‘ مصنف لکھتے ہیں کہ میر کے اس بیان سے غالب شناسی کا آغاز ہوجاتا ہے‘‘ مصنف نے مولانا الطاف حسین حالی کا یہ قول بھی نقل کیا ہے:’’مرزا کی شاعری اکتسابی نہ تھی بلکہ ان کی حالت پر غور کرنے سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ یہ ملکہ ان کی فطرت میں ودیعت کیا گیا تھا۔ انھوں نے (فقط) گیارہ برس کی عمر میں شعر کہنا شروع کردیا تھا۔ ‘‘

مصنف نے اپنی معرکۃالآرا کتاب میں یہ اطلاع بھی دی ہے کہ غالب کا اردو دیوان، پہلی بار سرسید احمد خان کے بڑے بھائی سید محمد خان کے قائم کردہ مطبع سید المطابع دہلی سے اکتوبر 1841 میں شایع ہوا تھا۔

مصنف لکھتے ہیں ’’ آثار الصنادیہ‘‘ سرسید احمد خان کی معروف کتاب ہے جو 1846 میں مکمل ہوئی اور اگلے سال 1847 میں مطبع سیدالاخبار سے شایع ہوکر منظر عام پر آئی۔ سرسید احمد خان نے اس کتاب میں غالب کے لیے جو صفحات مختص کیے ہیں وہ غالب شناسی کا نادر نمونہ ہیں یہ پہلا موقع ہے جب کلام غالب کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔

مصنف نے اس سلسلے میں مولانا ابوالکلام آزاد کے ایک مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے:’’مرزا غالب نے عمر بھر بہادرشاہ ظفر کی لاحاصل مداحی کی تھی اور وہ قصیدے جو عرفی اور نظیری کے قصائد کے مقابلے کا دم رکھتے ہیں ایک ایسے مخاطب کے سامنے ضایع کیے تھے جس کے سر پر جہانگیر و شاہ جہاں کا تاج تو ضرورت تھا پر نہ تو عرفی و نظیری کی قدر شنائی کا ہاتھ تھا اور نہ کلیم کو زرخالص سے تلوا کر بخشش کرنے والا خزانہ۔‘‘… غالب شناسی کے حوالے سے ڈاکٹر شکیل پتافی کی یہ تحقیق اور تنقیدی کتاب آٹھ سو چالیس صفحات پر مشتمل ہے۔

آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اتنی ضخیم کتاب سے ’’کالم کے محدودات کو دیکھتے ہوئے اقتباسات پیش نہیں کیے جاسکتے تاہم اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ بعض تحقیقی کتابیں اس لائق اور اس قابل ہوتی ہیں کہ انھیں نہ صرف اپنے ذخیرہ کتب کی زینت بنایا جائے بلکہ انھیں ایک ریفرنس بک یا حوالہ جاتی کتاب کا درجہ بھی دیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔