شتر مرغی رویہ

نصرت جاوید  جمعـء 11 جولائی 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

آپریشن ’’ضربِ عضب‘‘ جاری ہے اور فی الوقت ریاستِ پاکستان کا ایک بھی ذمے دار شخص پورے اعتماد سے ہمیں نہیں بتا سکتا کہ یہ کب ختم ہو گا۔ دفاعی معاملات کو ایک طرف رکھ دیں تو خوفناک حقیقت اس وقت یہ بھی ہے کہ 7 لاکھ سے زائد افراد شمالی وزیرستان سے اپنے گھر بار چھوڑ کر بنوں، لکی مروت اور ڈیرہ اسماعیل خان میں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ پاکستان کی حالیہ تاریخ میں یہ سوات آپریشن کے بعد اپنے حجم کے اعتبار سے دوسری بڑی نقل مکانی ہے۔

سوات آپریشن کے دوران ہونے والی نقل مکانی کے ایک ایک لمحے کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اس دوران دل دہلا دینے والے ایسے بے شمار واقعات دیکھنے کو ملے جنھیں اپنے دماغ سے اتنے برس گزر جانے کے باوجود میں ابھی تک نکال نہیں پایا۔ شاید ان ہی دنوں کے مناظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے میرے اندر ابھی تک بنوں جا کر شمالی وزیرستان سے آئے لوگوں سے ملنے کی ہمت پیدا نہیں ہو رہی۔ ٹیلی فون کے ذریعے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں سے مسلسل رابطہ پھر بھی برقرار رکھ رہا ہوں۔

فوری طور پر پیغام یہ مل رہا ہے کہ شمالی وزیرستان سے آنے والوں کو ریاست اور مخیئر حضرات کی طرف سے اس طرح کی والہانہ پذیرائی نہیں مل رہی جو ضلع مردان کے ہر کونے میں سوات سے آئے پناہ گزینوں کو نصیب ہوئی تھی۔ ریاست اور مخیئر حضرات کی تازہ ترین نقل مکانی کے بارے میں نسبتاً نااہلی اور لاتعلقی شمالی وزیرستان والوں کے دلوں میں کیا جذبات پیدا کر رہی ہو گی ان کے بارے میں سوچتے ہوئے بھی خوف آتا ہے۔

اسی دوران بنوں گئے کچھ صحافیوں نے غیر ملکی خبررساں اداروں کے لیے جو مواد اکٹھا کیا ہے وہ نام نہاد عالمی برادری کو پیغام دے رہا ہے تو صرف اتنا کہ پاکستانی ریاست کے لیے طالبان ابھی تک Good or Bad طالبان میں تقسیم ہیں۔ اسی مواد کی بنیاد پر امریکی جرائد اور تھنک ٹینکس کے لیے لکھنے والے چند مخصوص ’’ماہرین‘‘ نے Double Game والی کہانیاں از سر نو دہرانا شروع کر دی ہیں۔ مجھے ریاستی سطح پر پاکستان سے ایسی کہانیوں کا ردعمل تو دور کی بات ہے ادراک بھی محسوس نہیں ہو رہا۔برطانیہ اپنے عروج کے دنوں میں سامراجی Management کے حوالے سے بے مثال سمجھا جاتا تھا۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم بنیادی طور پر اس نے ان Foot Soldiers کے ذریعے لڑی تھی جنھیں اس وقت کے برٹش انڈیا کی نام نہاد Martial  Races سے جمع کیا گیا تھا۔

آج کے تناظر میں ایسے فوجیوں کی حیثیت ’’کرائے کے فوجیوں‘‘ والی تھی۔ پنجابی مسلمان جنھیں گورا PM کہا کرتا تھا ان کا بڑا نمایاں حصہ تھے۔ پہلی جنگ عظیم میں اس PM کی نفسیاتی الجھنوں کو سمجھنا ہو تو بس اتنا یاد کر لیجیے کہ ان دنوں ہمارے ہاں ’’تحریکِ خلافت‘‘ برپا تھی۔ علی برادران جیسے طاقتور اور مؤثر مقرر اور لکھاری اس کے نمایاں ترجمان تھے۔ گاندھی ’’مہاتما‘‘ ہوتے ہوئے بھی ان کے ہمنوا بن گیا۔ دارالحرب وغیرہ کی بحث چھڑ گئی اور لاہور جیسے شہر سے سیکڑوں کی تعداد میں پُر جوش نوجوان ’’کفر کی حکمرانی‘‘ سے نجات حاصل کرنے افغانستان چلے گئے۔ وہاں کے ’’مردِ کوہستانی‘‘ مسلمانوں نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا وہ اپنی جگہ ایک الگ داستان ہے۔

سچ تھا تو بس اتنا کہ ہندوستانی مسلمانوں کے ذہنوں میں ان دنوں بہت کنفیوژن تھا۔ برطانوی سامراج نے مگر اسے پروان نہ چڑھنے دیا۔ وجہ اس کی محض ریاستی جبر ہی نہ تھی۔ فیصلہ کن کردار فکری حوالوں سے اس بیانیے نے ادا کیا جو آج کے دور میں Counter Narrative کہلایا جاتا ہے۔ میں ’’طالبانی سوچ‘‘ سے کبھی بھی متاثر نہیں ہوا۔ مگر یہ سوچ ایک بہت ہی طاقتور بیانیے پر انحصار کرتی ہے جو عام پاکستانی مسلمانوں اور خاص کر افغانستان سے ملحقہ پاکستانی پختون علاقوں میں رہنے والوں کی اکثریت کو فطری طور پر Attract کرتا ہے۔ سوال میرا یہ ہے کہ ’’طالبانی سوچ‘‘ کی رد میں ہمارا Counter Narrativesکیا ہے؟

ماضی کے پُر جوش ’’کمیونسٹ انقلابیوں‘‘ اور تھک ہار کر اپنے بڑھاپے میں مغربی ممالک کی امداد سے بنائی NGOs کی مدد سے منعقد کردہ ہزاروں ورکشاپس کے ذریعے جو Communication Strategy کے نام پر رچائی جاتی ہیں اپنا ’’قبلہ درست‘‘ کرنے والے احباب یہ بیانیہ بنا ہی نہیں سکتے۔ ان کے پاس ویسے بھی اظہار کے لیے اب ٹویٹر اور فیس بک اکائونٹس رہ گئے ہیں۔ شمالی وزیرستان سے آئے مہاجرین کی بے پناہ اکثریت کے پاس Laptops نہیں۔ وہ اسمارٹ فونز کے مالک ہوں بھی تو اس زبان اور اصطلاحوں سے قطعی اجنبی ہیں جو انٹرنیٹ والے ’’ترقی پسند اور لبرل حضرات‘‘ اپنیPath Dependent عادت کی وجہ سے استعمال کرتے رہنے پر مجبور ہیں۔

یہ کالم لکھنے سے تھوڑی دیر قبل پانچ مختلف نوجوانوں نے مجھ سے فون پر رابطہ کیا۔ انھوں نے سوشل میڈیا پر پوسٹ ہوئی کچھ تصاویر دیکھی تھیں۔ ان تصاویر میں دکھایا یہ گیا تھا کہ بنوں شہر کی مختلف دیواروں پر ان دنوں وال چاکنگ کے ذریعے تکریت میں ’’داعش‘‘ کے نام سے خلافتِ اسلامیہ کے ’’احیاء‘‘ کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ ان خیر مقدمی کلمات کے ساتھ ہی ’’فقیر ایپی زندہ باد‘‘ کا نعرہ چسپاں ہوا ہے۔ مجھے فون کرنے والے نوجوان جاننا یہ چاہ رہے تھے کہ فقیر ایپی کون ہے۔ میں اپنے تئیں جتنا بھی جانتا تھا انھیں سمجھا دیا کہ فقیر ایپی ’’ہے‘‘ نہیں ’’تھا‘‘۔

بنوں میں ’’داعش‘‘ کے بارے میں خیر مقدمی وال چاکنگ مجھے اس وقت مزید اہم نظر آئی جب ایکسپریس ٹربیون کے ساتھ ملنے والے نیویارک ٹائمز کا پہلا صفحہ دیکھا۔ اس کے پہلے صفحے سے ایک کہانی شروع ہو کر چوتھے صفحے تک گئی تھی جس میں بیان یہ ہوا تھا کہ اُردن کے مختلف شہروں اور قصبات میں بہت سارے لوگ اپنے گھروں پر سیاہ جھنڈے لہرا کر ’’داعش‘‘ کے ذریعے خلافتِ اسلامیہ کے ’’احیاء‘‘ کا خیر مقدم کر رہے ہیں اور اُردن کی حکومت ان خیر مقدمی حرکتوں سے بہت خوفزدہ ہے۔ اُردن سے لے کر پاکستان کے بنوں تک کہہ لیجیے کہ ’’داعش‘‘ کے حوالے سے بہت سارے ذہنوں میں بڑی ہلچل مچی ہوئی ہے۔ اپنے ہاں کے میڈیا کا Dominating Discourse مگر کیا ہے؟

مجھے یہ بات آپ کو یاد دلاتے شرم آ رہی ہے کہ ہمارے ہاں سب سے زیادہ رونق ان دنوں ارسلان بنام عمران کے حوالے سے برپا ہے۔ سابق چیف جسٹس کے ہونہار بروا 62/63 کا عمران پر اطلاق کروانے الیکشن کمیشن گئے تو دوسرے روز تحریک انصاف والے مراد سعید اور علی صاحبان کے ذریعے نواز شریف کو نااہل کروانے چل پڑے۔ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری الگ سے اپنے ’’یومِ انقلاب‘‘ کی تاریخ طے کرنے میں مصروف ہیں اور پھر آنا ہے 14 اگست جب ملین مارچ کی سونامی نے اسلام آباد کو ہلا دینا ہے۔ Narrative اور Counter Narrative جیسی فضول اور بور باتوں میں وقت کیوں ضایع کریں۔ ’’ہنوز دلّی دور است‘‘ والا شتر مرغی رویہ ہم نے بحیثیتِ قوم اپنا لیا ہے مگر اپنی ہر مصیبت کا الزام ’’یہود و ہنود‘‘ کی سازشوں پر دھرنے سے اب بھی باز نہیں آ رہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔