فائرنگ کرکے 3 اسرائیلیوں کو ہلاک کرنے والا اردن کا شہری کون تھا ؟

ویب ڈیسک  پير 9 ستمبر 2024
صیہونی فوج کے 10 اہلکاروں نے 20 سے زائد گولیاں مار کر ماہر ذیاب حسین الحجازی کو شہید کیا

صیہونی فوج کے 10 اہلکاروں نے 20 سے زائد گولیاں مار کر ماہر ذیاب حسین الحجازی کو شہید کیا

اومان: گزشتہ روز اردن اور مغربی کنارے کے درمیان کنگ حسین راہداری پر 3 اسرائیلی گارڈز کو ہلاک کرنے والے ایک ٹرک ڈرائیور کو صیہونی فوج کے 10 اہلکاروں نے گھیر کر گولیوں سے چھنی کردیا تھا جس کی تفصیلات سامنے آگئیں۔

عرب میڈیا کے مطابق اردن کی وزارت داخلہ نے اسرائیلی اہلکاروں کو ہلاک کرنے والے اپنے شہری کی شناخت ماہر ذياب حسين الجازی کے نام سے کی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ ان کا ذاتی فعل تھا۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس حملے میں ماہر کے ساتھ کسی دوسرے شخص یا تنظیم کے شامل ہونے کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ نہ ہی کسی گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

یہ خبر پڑھیں : ایران برائی کا محور ہے؛ نیتن یاہو کی 3 اسرائیلی گارڈز کی ہلاکت کی مذمت

ماہر ذیاب حسین الجازی مال بردار ٹرک چلایا کرتے تھے جو امدادی سامان اور دیگر اشیا اردن سے مغربی کنارے پہنچاتے تھے تاکہ پناہ گزینوں کو ضروریات زندگی میسر ہوں۔

گزشتہ روز بھی وہ ٹرک لے کر اردن کے چیک پوسٹ پر تلاشی کی جگہ سے ہو کر اسرائیلی چوکی پہنچے۔ وہاں سامان جن میں منرل واٹر کی بوتلیں تھیں اتارا۔ یہ بوتلیں کرم ابو سالم گزرگاہ کے راستے غزہ جا رہی تھیں۔

واقعے کے وقت موجود ایک عینی شاہد نے عرب میڈیا کو بتایا کہ پہلے ٹرک ڈرائیور اور اسرائیلی گارڈز کے درمیان کسی بات پر تکرار ہوئی تھی۔

جس پر اردنی ڈرائیور نے فائرنگ کر دی۔ تینوں اسرائیلی موقع پر ہی ہلاک ہوگئے۔ وہاں سے کچھ میٹرز کی دوری پر اسرائیلی فوج کا  ایک اسنائپر بھی تھا جس نے جوابی فائرنگ کی۔

یہ خبر بھی پڑھیں : مغربی کنارے میں اردن کے شہری کی فائرنگ؛ 3 اسرائیلی گارڈز ہلاک

اردنی ٹرک ڈرائیور نے اسنائپر کا مقابلہ کیا اور دو طرفہ فائرنگ جاری رہی۔ الجازی کا ایک میگزین خالی ہوا تو اس نے دوسرا میگزین لگایا۔ ایک اور اسرائیلی اہلکار نے موقع دیکھ کر الجازی کے پاؤں پر گولی مار دی۔

الجازی پاؤں پر گولی لگنے سے وہیں گر گئے اور پھر وہاں موجود 10 سے زائد اہلکاروں نے انھیں گھیر کر 20 سے زائد گولیاں برسائیں جس سے ان کی موت واقع ہوگئی۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔