- ملکی سیاسی صورتحال: وزیراعظم نے آل پارٹیز کانفرنس طلب کرلی
- پی آئی اے کی ائرہوسٹس کروڑوں کے موبائل فون اسمگل کرتے ہوئے پکڑی گئی
- باپ کی اپنی بیٹی سے محبت کی انوکھی مثال
- بیٹی کی نازیبا ویڈیو لیک کرنے کی جھوٹی کال پر ماں شدت غم سے ہلاک
- برطانوی سیریز ’ڈاکٹر ہو‘ کی سب سے بڑی کلیکشن کا اعزاز امریکی باپ بیٹے کے نام
- بھارت: ایک کمرے اپارٹمنٹ کے کرائے نے صارفین کو چکرا دیا
- پاکستان ریلوے میں جعلی بھرتیاں، فرضی ڈیوٹی لگا کر لاکھوں روپے لوٹے گئے
- پی ٹی آئی کا احتجاج؛ برہان انٹرچینج اور ڈی چوک پر پولیس کی شیلنگ، متعدد کارکنان گرفتار
- امریکا: بچوں کا ویکسینشن پروگرام اہداف حاصل کرنے میں ناکام
- پی آئی اے میں 13 برس سے کوئی بھرتی نہیں ہوئی، جی ایم
- غار سے بچائے گئے 188 سالہ شخص کی ویڈیو وائرل، اصل حقیقت کیا؟
- شنگھائی تعاون تنظیم میں شرکت کیلیے بھارتی وزیر خارجہ پاکستان کا دورہ کریں گے
- اسرائیلی وزیراعظم نے میرے باتھ روم میں جاسوسی آلات لگائے تھے، بورس جانسن
- کم وقت میں اسٹرا سے جوس پینے کا نیا عالمی ریکارڈ قائم
- سابق صدر عارف علوی کا کلینک سیل کرنے کیخلاف درخواست فوری سماعت کیلیے منظور
- ملائیشین وزیراعظم کی حافظ نعیم سے ملاقات، اسرائیلی جارحیت کیخلاف احتجاج پر اتفاق
- انڈے کو بغیر ٹوٹے بلند ترین اونچائی سے گرانے کا نیا عالمی ریکارڈ
- 5 ہزار ٹپ نہ دینے پر نرس کی سفاکانہ غفلت؛ نومولود ہلاک
- ماہرین نے کافی اور تیز کولڈرنکس پینے کے نقصانات سے خبردار کردیا
- گوگل سرچ انجن میں نئے اے آئی فیچرز شامل
بلوچستان: مشتبہ دہشتگردوں کو 3 ماہ قید میں رکھنے کیلیے حراستی مراکز قائم کرنے کا فیصلہ
اسلام آباد: بلوچستان میں شورش کی بڑھتی ہوئی لہر پر قابو پانے کی غرض سے وفاقی حکومت نے مشتبہ دہشت گردوں کو کم از کم تین ماہ قید میں رکھنے کے لیے حراستی مراکز کے قیام کا فیصلہ کیا ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق صوبائی حکومت کے ذرائع نے بتایا ہے کہ بلوچستان میں 26 اگست کے دہشت گرد حملوں کے بعد وفاقی حکومت نے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ سیکیورٹی صورتحال اور جوابی کارروائی کا جائزہ لیا۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ حکومت نے فوج سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خصوصی اختیارات دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت مشتبہ دہشت گردوں کو 3 ماہ کیلیے بغیر ایف آئی آر یا عدالتی احکامات کے حراست میں رکھنا بھی شامل ہے۔
ذرائع کے مطابق یہی اختیارات 2014ء میں آرمی پبلک اسکول پشاور پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت خیبرپختونخوا میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دیے گئے تھے۔
ذرائع نے بتایا کہ ایسے مراکز کے نام مختلف ہوسکتے مگر یہ خیبرپختونخوا کی طرز پر ہی قائم ہوں گے، جن میں آپریشن کے دوران گرفتار مشتبہ افراد ر کھے جاتے تھے۔
قبل ازیں یہ حکمت عملی شمالی و جنوبی وزیرستان، سوات اور دیگر دہشت گردی سے متاثرہ قبائلی علاقوں میں استعمال کی گئی، نظر بندی کے سوا بیشتر مراکز بنیاد پرستی کے تدارک اور بحالی کے پروگراموں پر عمل درآمد کیلیے بھی استعمال کیے گئے، یہ پروگرام ہتھیار ڈالنے والے جنگجوؤں کو معاشرے میں دوبارہ ضم کرنے کیلیے تھے۔
ذرائع کے مطابق اس اقدام کا مقصد دہشت گردی کے واقعات کو وقوع پذیر ہونے سے پہلے ہی روکنا ہے تاہم ایسے مراکز کے منفی پہلوؤں میں ایک یہ بھی ہے کہ وہاں اکثر بغیر الزامات کے قیدی رکھے جاتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔