ناگہانی آفات فطرت سے چھیڑ چھاڑ کا نتیجہ

جاوید نذیر  منگل 10 ستمبر 2024
انسانوں نے قدرتی ماحول کو بری طرح خراب کیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

انسانوں نے قدرتی ماحول کو بری طرح خراب کیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان سمیت پوری دنیا میں ناگہانی آفات نے جو تباہی مچائی ہے اُس سے ایک بات تو واضح ہوچکی ہے کہ ناگہانی آفات ہر سال ہمارا مقدر بن چکی ہیں۔ چاہے وہ بارشوں کی صورت میں ہوں، سمندری طغیانی کی وجہ سے ہوں، سیلابوں کی صورت میں ہوں، آندھی و طوفان کی صورت میں ہوں، موسموں میں تبدیلی اور شدت کی وجہ سے ہوں یا مختلف قسم کی وباؤں کی وجہ سے ہوں، اس دھرتی پر بسنے والے انسان اس سے بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔

اس کا ذمے دار صرف اور صرف انسان خود ہی ہے لیکن انسان یہ بات ماننے کو تیار نہیں اور وہ یہ کہہ کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتا ہے کہ موسموں کی تبدیلی ہی اس بدلتی ہوئی صورتحال کی وجہ ہے۔ مطلب وہ یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ وہ خود اس کا ذمے دار ہے۔ اس کی اپنی کوتاہی، غفلت اور فطرت سے عدم محبت کی وجہ سے انسان نے فطرت کی چیزوں کو تباہ و برباد کرنا شروع کردیا۔

انسانوں نے اس ضمن میں زمین کو نقصان پہنچایا، جنگلات کو نقصان پہنچایا، سمندر اور اس میں رہنے والی آبی حیات کو نقصان پہنچایا۔ اس تمام صورتحال کا ذمے دار ایک ملک، ایک خطہ یا ایک براعظم نہیں بلکہ اس صورتحال کے ذمے دار اس دھرتی پر بسنے والے تمام انسان ہیں۔

ناگہانی آفات کی ایک وجہ گزشتہ صدی میں ہونے والی دو عالمی جنگوں میں ہونے والا اسلحہ و بارود اور موجودہ صدی میں ہونے والی جنگیں ہیں۔ جس کے اثرات نہ صرف زمین بلکہ فضا میں بھی مرتب ہورہے ہیں اور تابکاری کے اثرات کی وجہ سے فطرت کا حُسن ختم ہوتا جارہا ہے۔ آپ حیران ہوں گے جنگوں کے اس جنون نے انسانوں کو وحشی، جنونی اور پاگل بنا دیا ہے۔

ویسے تو کہا جاتا ہے کہ انسان پیدائشی ہی جھگڑالو، بدتمیز، دوسروں کا حق غصب کرنے والا، کمزور پر اپنی دھونس جمانے والا ہے۔ اُس کی فطرت میں ہی شامل ہے کہ وہ دوسروں کا استحصال کرتا ہے۔ آپ ملاحظہ کیجئے اسرائیل اور حماس کے درمیان حالیہ جنگ میں اسرائیل نے اسلحے کا جس قدر زیادہ استعمال کیا، کیا اس سے فطرت کو نقصان نہیں پہنچا؟ اس طرح یوکرین اور روس کے درمیان جنگ اور آرمینیا اور آذر بائجان کے درمیان جنگوں نے یقیناً فطرت کو نقصان پہنچایا ہے۔

ناگہانی آفات کی دوسری وجہ اس دھرتی سے جنگلات کا بُری طرح کاٹا جانا ہے۔ تمام سائنسدان اور فطرت کا علم رکھنے والے اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جب دنیا بنائی تو ہر چیز کو اس کے تناسب سے پیدا کیا۔ انھیں علم تھا کہ کتنے حصے پر جنگل اگانا ہے، کتنے حصے پر سمندر ہوگا اور کتنے فیصد حصے پر خشکی ہوگی۔ لیکن انسان جو لالچ سے بھرا ہوا ہے اُس نے اپنیے لالچ کی وجہ سے درختوں کو بے دریغ کاٹنا شروع کیا اور جنگلات ختم کرنے شروع کیے لیکن جب ناگہانی آفات کی زد میں آیا تو پھر اسے خیال آیا کہ درخت کاٹنے سے فطرت نے اُس سے کس قدر بھیانک انتقام لیا ہے، جو اُس پر اب ہر سال تقریباً واجب ہوچکا ہے۔

لہٰذا اب انسانوں نے دنیا بھر میں درخت لگانے شروع کردیے اور شجر کاری اب تقریباً دنیا بھر کے ملکوں کی اہم سرگرمی بن چکی ہے، جس میں چین پیش پیش ہے۔ ہمارے ہاں بھی ہر حکومت شجر کاری کا منصوبہ بناتی ہے۔ موجودہ حکومت نے بھی شجر کاری کا منصوبہ بنایا ہے اور دس لاکھ پودوں کو لگانے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ دیکھتے ہیں وہ اس میں کس قدر کامیاب ہوپاتے ہیں۔ پاک بحریہ کی جانب سے سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں لاکھوں کی تعداد میں مینگروز پودے لگائے گئے ہیں۔

ناگہانی آفات کی تیسری وجہ ہم نے زیر زمین پانی کو آلودہ کردیا۔ اس ضمن میں ہم صرف اپنے ملک کی ہی مثال لیں تو اس کا سب سے بڑا نقصان تو یہ ہوا کہ ملک بھر میں پینے کا پانی آلودہ ہوچکا ہے، خاص کر وہ شہر جو صنعتی شہر کہلاتے ہیں اُنہوں نے صنعتیں لگاتے ہوئے ایس او پیز پر عمل درآمد نہیں کیا اور ٹریٹمنٹ پلانٹ (جس کی مدد سے پانی اور فضا کو آلودہ نے سے بچایا جاتا ہے) نصب نہیں کیے، جس کی وجہ سے اُن شہروں میں پانی اس قدر آلودہ ہوچکا ہے کہ پہلے تو پینے کے پانی کےلیے شہریوں کو واٹر فلٹر پلانٹ سے پانی لینا پڑتا تھا لیکن اب لگتا ہے کہ دیگر ضروریات کےلیے بھی زمینی پانی شاید قابل استعمال نہ ہو۔

پانی کے ساتھ ہم نے فضا کو بھی آلودہ کردیا، گو کہ ہمارے ملک کا حصہ فضائی آلودگی میں کم ہے لیکن اس کا خمیازہ دوسرے ملکوں کے ساتھ ساتھ ہم بھی بھگت رہے ہیں۔ ترقیاتی ملکوں میں فوسل فیول (حیاتیاتی ایندھن) نے کاربن کے اخراج میں اضافے کی وجہ سے زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ کیا ہے۔ جس کی وجہ سے زمین پر پانی کی قلت ہوچکی ہے اور نتیجے میں زرعی پیداوار میں کمی آئی ہے۔ جنگلوں میں آگ لگنے کی وجہ بھی یہی ہے۔ اس سے گلیشیئر پگھلنے کی رفتار میں اضافہ ہوا ہے جو ایک اور لمحہ فکریہ ہے، جس کی وجہ سے دنیا بری طرح متاثر ہورہی ہے لیکن انسان اپنی روش سے نہ ہی ہٹ رہا اور نہ اسے تبدیل کررہا ہے۔

ناگہانی آفات کی ایک وجہ دنیا بھر میں ہمارا کھانا ضائع کرنے کا رویہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق انسانی غذا کا تقریباً ایک تہائی حصہ یعنی ون پوائنٹ تھری بلین ٹن خوراک ضایع کردی جاتی ہے، جو ماحولیاتی آلودگی کا باعث بن رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انسانوں کے اسی رویے کی وجہ سے زمین پر جانداروں کی 500 سے زائد اقسام اختتام کے دہانے پر کھڑی ہیں اور شاید 20 سال کے اندر ان کے ختم ہونے کا اندیشہ ہے جبکہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اتنی ہی اقسام گزشتہ صدی میں ختم ہوئی تھیں۔

ہماری دنیا نہ جانے کیوں پلاسٹک کی اس قدر عادی ہوچکی ہے، جس کے نتیجے میں ہر سال 300 ملین ٹن پلاسٹک کا فضلہ پیدا ہوتا ہے۔ سائنسی جریدے ’’نیچر‘‘ کے مطابق ہر سال تقریباً چودہ ملین ٹن پلاسٹک سمندروں میں پہنچتا ہے، جس سے جنگلی حیات کی رہائش گاہوں اور اس میں رہنے والی آبی حیات کو نقصان پہنچتا ہے ۔نیشنل جیوگرافک کے مطابق اب تک بنائے گئے پلاسٹک کا 91 فیصد ری سائیکل نہیں کیا گیا اور اس کو گلنے اور ختم ہونے کے لے صدیاں درکار ہوں گی۔‘‘

وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’پاکستان گزشتہ کچھ سال سے اسموگ کی آلودگی کا سامنا کررہا ہے اور ماہرین صحت کے مطابق اسموگ کی وجہ سے انسان کی عمر کم از کم سات سال تک کم ہوسکتی ہے۔ اسموگ شہریوں کےلیے دوسرا بڑا خطرہ ہے جو رواں سال بھی جاری رہے گا۔ اسموگ کے حوالے سے ہمارے پاس کوئی مستند ڈیٹا نہیں، اسی لیے پنجاب حکومت نے اس مسئلے پر انٹرنیشنل کنسلٹنٹس سے اسٹڈی کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انھوں نے غیر معیاری پٹرول اور ڈیزل فروخت کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا بھی فیصلہ کیا۔ اور سڑکوں سے مٹی کو بالکل صاف کرنے کے اقدامات کیے۔‘‘

موسمیاتی تبدیلیاں یقیناً زراعت پر بھی اثر انداز ہورہی ہیں، جس کی وجہ سے خوراک کی کمی کا خطرہ بڑھنے کا امکان ہے، کیونکہ فصلوں کےلیے ایک خاص درجہ حرات درکار ہوتا ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے فصلوں کو مل نہیں رہا۔ بہرحال جیسی بھی صورتحال ہو ہمیں زندہ رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہے۔

دنیا میں جو ممالک ناگہانی آفات کا سامنا کر رہے ہیں اُن میں ہمارا ملک بھی شامل ہے لیکن اس سے نمٹنے کےلیے شاید ہم اس طرح تیاری نہیں کررہے جس طرح باقی دنیا سنجیدگی کے ساتھ کر رہی ہے۔ اس ضمن میں عوام تو اس سے بالکل نابلد ہے اور آپ عوام کی بے حسی کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ راولپنڈی میں نالہ لئی پر فلڈ کی صورتحال کی پیشگی اطلاع کےلیے جاپان کی مدد سے (Early warning system) نصب کیا گیا تھا، جسے چور چرا کر لے گئے اور شاید پاکستان میں یہ پہلی چوری تھی جس کی تلاش میں پولیس کو کباڑیوں کی دوکانوں پر چھاپے مارنے پڑے۔ اب آپ خود فیصلہ کریں کہ جب جاپان کو پتا چلا گیا ہوگا کہ اُن کے دیے گئے سیلاب کی پیشگی اطلاع کے نظام کی چوری ہوگئی ہے تو جاپان میں ہمارے ملک کا امیج کیسا بنا ہو گا۔

ماحولیاتی اثرات کو زائل کرے کےلیے ضروری ہے کہ اس کے لیے ہم حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں۔ اس ضمن میں شجر کاری حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کی بھی پہلی بنیادی ترجیح ہونی چاہیے اور پودا لگانے سے لے کر اُس کو پروان چڑھانے تک عوام اپنی اہم ذمے داری سمجھے اور جس طرح اپنے بچوں کی نگہداشت کرتے ہیں اسی طرح اُن پودوں کو بھی پروان چڑھائیں۔ پلاسٹک اشیا کا ستعمال اگر بالکل ختم نہیں کرسکتے تو کم ضرور کر دیں۔ اپنی موٹر سائیکل، گاڑیوں میں بہتر کوالٹی کا پٹرول ڈلوائیں تاکہ کسی قسم کی آلودگی کا سبب نہ بنیں۔ اپنے ماحول کو صاف رکھنے کی پوری کوشش کریں تاکہ اسموگ کے اثرات سے محفوظ رہ سکیں۔

کھانا ضائع کرنے کا جو ہمارا رویہ ہے اس کو بالکل ترک کردیںا تاکہ بچے ہوئے کھانے سے جو آلودگی پھیلتی ہے کم از کم اُسے تو روکا جاسکے۔ پرندوں اور آبی حیات کو بچانے کےلیے ہر ممکن کوشش کریں خاص طور پر سمندروں، دریاؤں اور ندی نالوں کو صاف رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ ماحولیاتی آلودگی کی تمام اقسام کو ختم کرنے کےلیے ان تمام اقدامات پر سنجیدگی کے ساتھ عمل کرنا نہ صرف حکومت بلکہ بحیثیت شہری ہماری بھی اہم ذمے داری ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہم اپنی ذمے داریوں کو پورا کرکے ملک سے اپنی محبت کو کیسے ثابت کرسکتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔