جامعہ کراچی کی ترقی اور دیوانے

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  جمعـء 11 جولائی 2014
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

ایک حالیہ خبر کے مطابق کونسل آف سائنس و ٹیکنالوجی (PCST) کی تازہ ترین درجہ بندی میں جامعہ کراچی 13017 پوائنٹس حاصل کرکے پاکستانی جامعات میں سرفہرست ہے جب کہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد دوسرے اور قائد اعظم یونیورسٹی تیسرے نمبر پر ہے۔ اس سے قبل ٹائمز ہائر ایجوکیشن اور Quacquarelli Symonds (THE-QS) کی درجہ بندی میں دنیا کی تیس ہزار جامعات میں سے جامعہ کراچی سائنس، آرٹس، سوشل سائنسز کے شعبوں میں ایشیا کی400 بہترین جامعات میں شامل کی گئی تھی۔

بلاشبہ اس کا سہرا شیخ الجامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر محمد قیصر کے سر جاتا ہے کہ جن کی قیادت میں جامعہ کراچی اس وقت ترقی کے سفر پر گامزن ہے۔ موجودہ عہد میں کسی بھی جامعہ کی ترقی کا راز علمی وتحقیقی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ بیرون دنیا خصوصاً ترقی یافتہ ممالک کی اعلیٰ تعلیمی درسگاہوں سے روابط بھی ہوتے ہیں اور جامعہ کراچی، امریکا، ایران، ترکی، چین، ملائیشیا، اٹلی وغیرہ سمیت بہت سے ممالک کی جامعات کے ساتھ باقاعدہ تحریری معاہدوں کے ساتھ نہ صرف منسلک ہے بلکہ اس کے طالب علموں کا علمی و تحقیقی حوالوں سے وزٹ بھی شامل ہے اور بیشتر طلبہ اسکالر شپ مکمل کرکے اپنے ملک کا نام روشن بھی کر رہے ہیں۔

جامعہ کراچی کا بزنس اسکول چند برس قبل بیسٹ ایشیا ایوارڈ بھی حاصل کرچکا ہے اور اس کے اساتذہ پڑھانے کے ساتھ ساتھ خود بھی اپنے علم میں عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔ مثلاً سابق رجسٹرار جامعہ کراچی فارمیسی میں ڈی ایس سی کی ڈگری حاصل کی جب کہ حال ہی میں ڈاکٹر شکیل اوج رئیس کلیہ علوم معارف اسلامیہ نے ڈی لیٹ کی ڈگری حاصل کی وہ اپنے شعبے میں یہ ڈگری حاصل کرنے والے سندھ کے پہلے، پاکستان کے دوسرے اور برصغیر کے تیسرے ڈی لیٹ ہیں۔

ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سب کامیابیاں جامعہ کراچی اور اس کے اساتذہ کے حصے میں آئی ہیں تو کون سا بڑا کارنامہ ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو ایسا ہی ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔ بات یہ ہے کہ ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں ان میں واقعی یہ بڑا کارنامہ ہے۔

راقم کی نظر میں آج ہمارا بڑا المیہ ہی یہ ہے کہ ہم کو جو فرائض ادا کرنے چاہئیں ان سے ہم صرف نظر کیے ہوئے ہیں یوں ایک ایک کرکے اس ملک کے تمام اہم ادارے مالی نہیں اخلاقی دیوالیہ بھی ہوگئے ہیں اور عالمی سطح پر ہماری ساکھ خراب ہوگئی ہے جس کو بہتر بنانے کے لیے پہلی بنیادی شرط تو اپنے فرض کی ادائیگی ہی بنتی ہے۔

ہم آج اپنے معاشرے پہ نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ ایک سبزی والے سے لے کر پڑھے لکھے ڈاکٹر حضرات تک وہ کچھ کر رہے ہیں جس کا باشعور معاشروں میں تصور ہی نہیں ہے۔ ذرا سوچیے کہ جب ہمیں اپنی گاڑی ٹھیک کرانے کے لیے کسی مکینک کی ضرورت ہو یا اپنے کسی بچے کو ڈاکٹر کے پاس لے جانے کی ضرورت ہو تو ہم کس قدر پریشان ہوتے ہیں کہ کوئی ایماندار مکینک اور انسان دوست ڈاکٹر کہاں دستیاب ہوگا جو بلاوجہ لمبا چوڑا بل ہاتھ میں نہ تھمائے اور علاج بھی معیاری ہو۔

اس کے باوجود ہمارے معاشرے میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو کسی انعام و ستائش کے لیے نہیں بلکہ یہ جان کر کہ انھیں ایک نہ ایک دن اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دینا ہے، پوری تندہی سے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں اور یقینا ہمارے ادارے اور اس ملک کی رہی سہی کامیابی کے پس پشت بھی ایسے ہی لوگوں کا ہاتھ ہے یہ اور بات ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ ایسے فرض شناس افراد کو منہ پہ شریف اور پیٹ پیچھے ’’احمق‘‘ کہتے ہیں۔

میں جامعہ کراچی میں ایک ایسے صاحب سے بھی خوب واقف ہوں جو نچلے گریڈ کا ملازم ہے مگر انتہائی ایماندار، اس قدر کہ حال ہی میں ان کی بجلی کسی وجہ سے بند ہوگئی، پڑوسیوں نے کنڈے لگالیے اور انھیں بھی مشورہ دیا کہ KESC والے تو کئی دن بعد آئیں گے آپ ہماری طرح کنڈا لگا لیں۔ اس پر میرے اس دوست نے جواب دیا کہ بھائی! میری بیگم اور میں آدھی رات کو اٹھ کر روزے رکھ رہے ہیں، دن میں قران شریف کی تلاوت کر رہے ہیں، آپ چاہتے ہیں کہ محض ایک ’’کنڈا‘‘ لگا کر میں اپنی یہ ساری عبادت و محنت ضایع کردوں؟

میرے اس دوست کو بہت سے لوگ دیوانے بھی کہتے ہیں، جی ہاں! ایسے لوگ واقعی دیوانے ہوتے ہیں اور ایسے دیوانوں کے کردار سے ہی یہ ملک قائم و دائم ہے بلکہ یوں کہا جائے تو زیادہ غلط نہ ہوگا کہ یہ ملک تو قائم ہی ایسے دیوانوں کی قربانیوں سے ہوا تھا یہ اور بات ہے کہ اس وقت ایسے دیوانے ہی ہمارے لیڈر ہوا کرتے تھے اور عوام کی اکثریت بھی ایسے ہی دیوانوں پر مشتمل تھی ورنہ آج کل کے دور کے بعض نام نہاد ’’عقلمندوں‘‘ کی طرح لوگ اس وقت ہوتے تو یہی کہتے ’’بھائی! پاکستان بنانے کے لیے کیوں قربانی دے رہے ہو! وہ تمہارے صوبے یا ریاست میں نہیں کسی اور صوبوں میں بنے گا، تمہیں کیا ملے گا بھائی؟‘‘

بات اور حقیقت تو یہ ہے کہ ایسے دیوانے ہی اصل انسان ہوتے ہیں اور کسی قوم کا سرمایہ بھی، آج ہمیں ایسے ہی دیوانوں کی تعداد میں اضافہ کرنا ہے تاکہ یہ ملک اور معاشرہ پھر سے مثالی معاشرہ بن جائے اور وہ دور پھر سے آجائے کہ جہاں کسی دیہات میں نہیں کراچی جیسے شہر میں بھی لوگ دروازہ کھول کر سوتے تھے کچھ گرمی کے موسم میں باہر سڑک کنارے چارپائی ڈال کر سوتے تھے اور سرہانے پانی کی جگ اور گلاس بھی رکھا ہوتا تھا جو چوری بھی نہیں ہوتا تھا۔

آئیے! میں اور آپ کوشش کریں ایسے ’’دیوانے‘‘ بننے کی جو اور کچھ نہیں تو کم ازکم اپنے فرائض تو یہ سوچ کر انجام دیں کہ ’’اللہ دیکھ رہا ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔