الفاظ کا تقدس اور اوچھے ہتھکنڈے

جاوید قاضی  جمعـء 11 جولائی 2014
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

کبھی ہم بھی سرخے تھے۔ سرخ انقلابوں کی شاخوں پہ ڈولتے تھے تو نگر و دولائی تھے ۔ سرخ پرچم کے سائے تلے ’’دنیا کے مزدورو! ایک ہوجاؤ‘‘ کے بلند شگاف نعروں کی گونج میں جوانی گم کردی۔ انقلابوں کو پڑھا، سمجھا اور اس پر عمل بھی کیا، عمر کے اس دہانے مڑ کر جو پیچھے دیکھتا ہوں تو خود کو انقلابی کم اور انارکسٹ زیادہ پاتا ہوں (کہ اب کے بار انقلابوں کی ماہیت تبدیل ہوگئی) بس اک ہوا تھی جو دماغ میں بھر گئی تھی۔ لکیر کے فقیر تھے یا شاید جنوں تھا جس میں جتنی بھی گزری بے کار گزری۔ دہقانوں کے ساتھ فرش پر لیٹ کر راتیں بتائیں، کارخانے کے بھولے جیالوں کی کچی بستیوں میں بسیرا کیا۔

کوئی شکوہ نہ شکایت تھی زندگی سے ، بس ایک تمنا تھی کہ انقلاب آکر رہے گا۔ آج کل بھی انقلابات کی باتیں سننے کو جب ملتی ہیں تو میرے کان کھڑے ہوجاتے ہیں کہ کون ہے یہ تونگرو دولائی جس نے جان ہتھیلی پر رکھ لی ہے، تو سامنے جناب طاہر القادری ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ اب کہاں ارجنٹینا والے چی گوویرا اور کہاں قادری صاحب۔ بہت سے رنگ ہوتے ہیں انقلابات کے، سرخے انقلاب کے سوا، اورینج انقلاب، گلابی انقلاب، اسپرنگ انقلاب، قادری صاحب والے انقلاب کی وصفیں تو کہیں سے بھی انقلابی نہیں۔

ہر لفظ کی ایک روح ہوتی ہے، اس کے معنی و تاریخ ہوتی ہے اس کا کوئی تقدس ہوتا ہے۔ یہ بہتر ہوگا کہ اس کو اس کے پس منظر میں رہنے دیا جائے اور اگر اس طرح نہیں ہوا تو قومیں اپنی ڈگر سے ہٹ جاتی ہیں اور آیندہ کی نسلوں کو رہنمائی پھر نہیں ملتی۔ سقراط تو کہتے تھے کہ الفاظ کے غلط استعمال سے روح میں شیطان پیدا ہوتا ہے۔ کنفیوشیس الفاظ کے تقدس سے دانستہ کھیل کو بڑا جرم سمجھتے تھے۔ایک طرف سونامی ہے تو دوسری طرف صادق و امین کے حربے ہیں۔ جس طرح جو چاہے ’’انقلاب‘‘ کو گھر کی لونڈی بناسکتا ہے۔ اسی طرح کوئی بھی صادق و امین کے نام پر کسی کی پگڑی اچھال سکتا ہے۔

کچھ مہینے پہلے دستی صاحب پارلیمنٹ لاجز میں رہتے ممبران اسمبلیوں پر انگلیاں اٹھا بیٹھے مگر شواہد نہ دے سکے۔ اسی طرح آرٹیکل 63 میں ترمیم کے ذریعے ضیا الحق نے ’’امین و صادق‘‘ کی شقیں ڈال دیں۔ مگر اس پر پورا کوئی بھی نہیں اترتا۔ اور اس کا کوئی بھی ناپ تول کا نظام نہیں اور اگر نہیں تو پھر ایسے پیمانے پر پرکھنے والے کے اختیار بڑھ جاتے ہیں جو چاہیں، جسے چاہیں صادق و امین کہیں اور جو نہ چاہیں تو نہ کہیں۔ اسی لیے جب سے یہ شق آئی تمام ججوں میں اتفاق رہا کہ اس کو کم اچھالا جائے تو بہتر ہے یعنی کورٹ محتاط ہوگئی اور گھروں کی کھڑکیوں سے اندر جھانکنے کی حرکات کو پذیرائی نہ ملی ۔

سوئیکارنو کے خلاف اس وقت کے امریکی سامراج نے یہ ہتھکنڈے کچھ اس طرح استعمال کیے کہ ان کے کچھ فوٹو اور شواہدات کے ذریعے ان کے کچھ معاشقے خوبصورت دوشیزاؤں کے ساتھ منظر عام پر لائے۔ ہوا کیا ایسی حرکات سے انڈونیشیا کے عوام اور آگ بگولا ہوئے اور سوئیکارنو سے اور پیار کرنے لگے۔ بھٹو صاحب پر مولوی حضرات بہتان لگاتے رہے کہ وہ شراب پیتے ہیں کسی کا خون تو نہیں پیا، بالآخر تنگ آکر ایک بھرے جلسے میں انھوں نے کہہ ہی دیا کہ وہ کبھی کبھار پیتے ہیں، اس کا برا اثر لوگوں پر نہیں پڑا وہ غیر مقبول نہیں ہوئے ان کے ووٹ کم نہ ہوئے۔ہماری سیاست آج کل کچھ ایسے اوچھے ہتھکنڈوں کی نذر ہوگئی ہے۔ طاہر القادری کا انقلاب بھی اوچھا ہتھکنڈا ہے۔

عمران خان کا لانگ مارچ بھی، بیچ میں ارسلان افتخار بھی اوچھے ہتھکنڈے لے کر کود پڑے ہیں۔ یہ کام گلو بٹ کے ذریعے پہلے ہی ہو چکا ہے اور وہ کیا تھا کہ 2013 کے الیکشن میں عوامی نیشنل پارٹی یا پیپلز پارٹی وغیرہ جلسے کرے تو ان پر خودکش حملہ اور تحریک انصاف و مسلم لیگ (ن) وغیرہ کرے تو وہ خودکش حملوں سے مستثنیٰ۔ تو پھر وہ میموگیٹ اسکینڈل کیا اوچھے ہتھکنڈوں میں نہیں آتا۔ سیتا وائٹ اسکینڈل تو بہت پرانا ہوچکا۔ جب عمران خان کے بچوں کو یا اس کی سابقہ بیوی جمائما کو اعتراض نہیں تو آپ کو کیوں۔ یہ نجی زندگی کے معاملے نجی زندگی میں رہیں تو بہتر ہے۔ اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت!

شاہ بھٹائی کہتے ہیں ’’آج ان اوطاقوں میں طالب تو ہیں مگر جو طالب جی کو جگاتے تھے وہ طالب ہجرت کرگئے۔‘‘

خود طالب لفظ کا کیا بگاڑ ہوا، کتنا مسخ ہوا کہ ان دنوں میں شاہ بھٹائی کو خدشہ تھا کہ اس لفظ، اس کے معنی اور اس کی روح کے ساتھ بھی کچھ اچھا نہیں ہونے جا رہا۔ خود اقلیت لفظ کے ساتھ بھی اچھا نہیں ہوا۔ عام آدمی تو کیا بہت سے آئینی ماہرین اس لفظ کو برا سمجھتے ہیں کہ جیسے جو اقلیتوں کے ساتھ ہو رہا ہے وہ اس وقت ختم ہوجائے گا جب یہ لفظ آئین سے نکال دیا جائے گا۔ اس پارٹی نے تو ایسا عزم اپنے مینیفیسٹو میں کیا ہوا ہے۔ جب کہ اقلیت کی شناخت سے خود ایسے مذاہب و ثقافت کے لوگوں کو اور تحفظ ملتا ہے۔ ان کو ایوانوں میں دو طرح سے نمایندگی ملتی ہے۔ اقلیت کیا جو سلوک ہم نے سیکولر لفظ کے ساتھ کیا وہ تو کسی کے ساتھ نہیں کیا۔

خود بابائے اردو نے اس کے معنی ’’لادینیت‘‘ اردو کی لغت میں درج کردیے۔ جب کہ اس کے معنی بہت وسیع اور بہت اس کے برعکس ہیں۔ اس کے معنی ہیں کہ دین ہر ایک کا ذاتی عمل ہے اور وہ اس عمل میں آزاد ہے اور ریاست اس کے اس حق کو تسلیم کرتی ہے (جس طرح آئین کا آرٹیکل 20 کہتا ہے) اور یہ کہ ریاست کسی بھی مذہب کی طرف جھکاؤ نہیں رکھتی وہ سب کو ایک آنکھ سے دیکھتی ہے وغیرہ وغیرہ ۔ اور یہ بھی کہ بہت متقی و پرہیز گار بھی ساتھ ساتھ سیکولر ہوسکتا ہے، تو کوئی لبرل بھی۔ اس کے لیے شرط صرف یہ ہے کہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کے اعتقاد کے بیچ کوئی رخنا نہ ڈالا جائے۔دل کو نہ دکھایا جائے۔

اسامہ بن لادن صحیح تھے یا غلط لیکن وہ بھی دنیا میں انارکی پھیلا کر انقلاب لانا چاہتے تھے۔ آج کل ایسا انقلاب ابوبکر بغدادی لا بھی چکے۔ ملا عمر کی خلافت کے بعد یہ دوسرے ہیں جو یہ دعویٰ کرچکے ہیں اور وہ اس انقلاب کو پھیلانا چاہتے ہیں۔ عراق و افغانستان کے ایسے حالات ہوگئے تھے کہ ایسا ہونا ایک فطری عمل تھا۔ مگر لینن انقلاب کے ایسے فطری عمل کے لیے انقلابی قیادت کے پاس سائنسی سوچ کا ہونا بھی ایک ضروری نکتہ سمجھتے ہیں۔وہ تو شاید کارل مارکس و لینن بھی سمجھتے تھے کہ آگے سائنسی ترقی سے بدلتے حالات خود انقلابات کی ماہیت بھی تبدیل کردیں گے۔ اور انقلابات آپ کے دروازوں پر بغیر انارکی پھیلائے دستک بھی دے چکے ہوں گے۔

کیا یہ انقلاب نہیں کہ آج پوری دنیا فٹبال کے گرد گھوم رہی ہے۔ اس سے پہلے ہر طرف کرکٹ کو اس شوق سے دیکھتے تھے۔ کیا یہ انقلاب نہیں کہ یوٹیوب کے ذریعے آپ بغیر کسی درس گاہ میں بیٹھے تعلیم بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ کیا سوشل میڈیا انقلاب نہیں، گوگل، تھری جی وغیرہ انقلاب نہیں۔ آج کا گداگر کبھی اس طرح مغل بادشاہوں سے آج کے زماں و مکاں میں زیادہ بہتر زندگی بسر کرتا ہے۔

ایک چھوٹی سی عرض ہے عمران خان صاحب سے ، ہمیں سونامی سے آزاد کیا جائے۔ یہ لفظ بھی غلط چنا گیا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح بلاول بھٹو نے تہذیب بچانے کے لیے خود موئن جو دڑو میں خیمے گاڑ دیے تھے کہ لینے کے بجائے دینے پڑگئے۔

طاہر القادری صاحب انقلاب نہیں بلکہ کاؤنٹر انقلاب کے فرائض انجام دے رہے ہیں جب کہ یہ ملک ہم سے آگے جانے کے راستے مانگ رہا ہے۔ اس کے لیے اپنا دل کشادہ کیا جائے۔ اب افراد کا زمانہ نہیں اداروں کا زمانہ ہے۔ موجودہ حکمران آج ہیں کل نہیں ہوں گے۔ ان کے لیے آئینی طریقہ نکالا جائے۔ تحریک چلانا بھی ایک جمہوری حق ہے۔ لیکن تحریک کو اس حد تک نہ لے جایا جائے جہاں سسٹم ڈی ریل ہوجائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔