- پیٹرول پمپس، آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کا منافع مزید بڑھانے کی سمری تیار
- الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں کے معاملے پر لیگل وِنگ سے رائے طلب کرلی
- اراکین پارلیمنٹ کو اثاثوں کے گوشوارے جمع کرانے کیلیے حتمی تاریخ دیدی گئی
- پی ٹی سی ایل نے پاکستان میں اب تک کا تیز ترین انٹرنیٹ لانچ کردیا
- اربوں کا فراڈ؛ معروف بلڈر، اہلیہ اور ایس بی سی اے کے افسران گرفتار
- کے پی کے گرفتار سرکاری ملازمین کی رہائی کے لیے ہائیکورٹ میں درخواست
- نمبرز پورے ہیں تاہم حکومت تمام جماعتوں سے مشاورت چاہتی ہے، بلاول بھٹوزرداری
- کے پی ہاؤس ڈی سیل نہ کرنے پر ڈائریکٹر سی ڈی اے کیخلاف توہین عدالت کی درخواست
- آئینی ترامیم پر مشاورت؛ قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس ختم، ڈیڈلاک برقرار
- ضلع کچھی میں سی ٹی ڈی کی کارروئی، فتنتہ الخوارج کے 3دہشتگرد ہلاک
- پی سی بی نے نئی سلیکشن کمیٹی تشکیل دیدی
- انتظار پنجوتھہ کہاں ہیں کچھ پتا نہیں چلا، اسلام آباد پولیس کا عدالت میں بیان
- بچوں کے جائیداد کیلئے تشدد پر والدین کی پانی کے ٹینک میں کود کر خودکشی
- حکومت نے 26ویں آئینی ترمیم کا ڈرافٹ کمیٹی میں پیش کردیا، فضل الرحمان
- کراچی کے جنوب مشرق میں ہوا کا کم دباؤ؛ ساحلی علاقہ متاثرہونے کا امکان نہیں
- شان مسعود کو ٹیسٹ ٹیم کی کپتانی سے ہٹائے جانے کا امکان
- انٹرا پارٹی الیکشن نظرثانی کیس: سماعت سے پی ٹی آئی کے وکلا غائب ہونے پر چیف جسٹس برہم
- شان مسعود ابتدائی 6 ٹیسٹ میچز ہارنے والے پہلے پاکستانی کپتان بن گئے
- عمران خان توشہ خانہ نااہلی کیس؛ وکیل الیکشن کمیشن کو تیاری کیلیے 2 ہفتوں کی مہلت
- پاکستان پہلی اننگز میں 500 سے زائد رنز بناکر ٹیسٹ اننگ سے ہارنے والی پہلی ٹیم بن گئی
جو میرٹ پر پورا اترتا ہے اسے کام کرنے دیں، چیف جسٹس
اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا ہے کہ کیا بیوروکریٹس کے بچوں کو سُرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں، یہ کیا بات ہوئی ایک کام کرے اور کہے میری نسلوں نے بھی کام کرنا ہے، جو میرٹ پر پورا اترتا ہے اسے کام کرنے دیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق خیبرپختوا میں سرکاری ملازمین سے متعلق اپیل پر چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں چار رکنی بینچ نے سماعت کی۔ جس میں وکیل صفائی نے پیش ہوکر کہا کہ ایک ایس آر او کے ذریعے ملازمت پر کیس چلا، ایس آر او سیکشن کے ذریعے جاری ہوا۔
اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایس آر او کس نے جاری کیا؟ یہاں سیکشن افسر ملک چلا رہے ہیں، کسی سیکشن افسر کے ذریعے نہ آئین بنایا جاسکتا ہے اور نہ ہی قانون بن سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ متعلقہ حکام کے ذریعے ایس آر اوز جاری کرنے کا سلسلہ ضیاءالحق سے شروع ہوا، اس وقت بیوروکریسی نے دستخط کرنا چھوڑ دیے تو ضیاء الحق نے کہا متعلقہ مجاز حکام لکھ دو، مجاز حکام لکھ تو دیا جاتا ہے لیکن یہ علم نہیں ہوتا وہ مجاز کون ہے؟ کسی کاغذ کی کوئی بنیاد بھی تو ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے سوال کیا کہ والد کی جگہ بیٹے کو نوکری میں کیسے کوٹہ مل سکتا ہے؟ اس پر ایڈوکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے کہا کہ سیکشن دس اے کے تحت یہ اختیار ہے۔
قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ کیا بیوروکریٹس کے بچوں کو سُرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں، یہ کیا بات ہوئی ایک کام کرے اور کہے میری نسلوں نے بھی کام کرنا ہے، جو میرٹ پر پورا اترتا ہے اسے کام کرنے دیں۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سرکاری ملازم کو ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن ملتی ہے، مرنے کے بعد بیوہ کو بھی پنشن ملتی ہے، سپریم کورٹ میں بھی یہ تجویز آئی تھی کہ ملازمین کے بچوں کو نوکریاں دی جائیں، جس کی میں نے مخالفت کی۔
سپریم کورٹ نے کیس کے حوالے سے حکم نامہ بھی جاری کردیا جس میں کہا گیا ہے کہ 2006 میں گریڈ دو کیلئے ضلع ایبٹ آباد میں نوکری کا اشتہار دیا گیا، آئین امتیازی سلوک روا رکھنے کی ممانعت کرتا ہے، خیبرپختواہ کی صوبائی حکومت ایسے تمام نوٹیفکیشن واپس لے جو میرٹ کے خلاف ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔