اس نے ایسا کہا ہو گا…

شیریں حیدر  اتوار 13 جولائی 2014
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ بھیا سے کہا تھا کہ وہ بھی آ جائیں تو مل بیٹھ کر بات کر لیتے ہیں یا ہم سب مل کر ان کی طرف چلتے ہیں تا کہ ایک ہی بار معاملہ ختم ہو جائے… ‘‘ ایک بہن نے کہا۔
’’ اس وقت تو انھوں نے کہا کہ ٹھیک ہے مگر بعد میں ان کی کال آئی کہ وہ نہیں آ رہے‘‘ ،دوسری نے بتایا۔
’’ انھوں نے تو ہاں کہہ دی، مگر جونہی انھوں نے فون بند کیا ہو گا، بھابی نے کہا ہو گا کہ بہنوں کو اپنے معاملات خود ہی سلجھانے دو…‘‘ دوسری بہن نے کہا۔
’’ ہاں بھابی کو ہو گا نا کہ ہمارے وہاں جانے سے انھیں چائے پانی کا بندوبست کرنا پڑے گا! ‘‘
’’ بھائی جان کو کہنا چاہیے تھا نا بھابی کو کہ وہ بڑے ہیں، ان کا اس اہم معاملے میں ساتھ ہونا اہم ہے… ‘‘
’’ انھوں نے تو کہا ہو گا…مگر پھر بھابی نے کہا ہو گا کہ آپ آرام سے گھر بیٹھیں !‘‘
’’ ہاں بھابی نے ہی کہا ہو گا… ‘‘
’’ مگر بھائی جان کو چاہیے نا کہ وہ بھابی کی باتوں پر کان دھرنے کی بجائے اپنا اختیار بھی استعمال کریں !‘‘
……
’’ میرا پروموشن ہو جاتا اگر…‘‘
’’ باس کو کچھ مسئلہ ہو گا تمہارے ساتھ؟ ‘‘
’’ نہیں میرے ساتھ باس تو بہت خوش تھے، انھیں تو میرا کام بہت پسند ہے !‘‘
’’ مجھے تو لگتا ہے کہ تمہارے منیجر نے باس سے کہا ہو گا …‘‘
’’منیجر نے میری recommendations تو بہت اچھی بنائی تھیں !‘‘
’’ مگر بورڈ میٹنگ میں اس نے کوئی فضول بات کہہ دی ہو گی!‘‘
’’ مجھے تو لگتا ہے کہ دوسری برانچ کے کسی بندے نے ایسا کہا ہو گا، کوئی ایسا آدمی جو اسی پوسٹ کا امیدوار ہو گا… اور تو کچھ وجہ نظر نہیں آتی!‘‘
……
’’ جانے کس نے بیچ میں پڑ کر ہمارا بنا بنایا کھیل بگاڑ دیا ہے… ‘‘
’’ ہمیں تو انھوں نے دیکھتے ہی کہہ دیا تھا کہ ہماری بیٹی آپ کی ہوئی، مگر اگلے ہی روز لڑکے کی بہن کی کال آ گئی کہ انھیں ہماری بیٹی پسند نہ تھی… ‘‘
’’ رشتے کروانے والی ماسی نے ہی کچھ کہا ہو گا!‘‘
’’ آپ خالہ کو ساتھ نہ لے کر جاتیں، مجھے تو لگتا ہے کہ خالہ نے کوئی غلط سلط بات کہہ دی ہو گی!‘‘
’’ خالہ کیوں ایسا کریں گی؟‘‘
’’ کچھ پتا نہیں کہ انھوں نے بعد میں خالہ کو کال کی ہو اور پوچھا ہو !‘‘
’’ خالہ کوئی غلط بات تھوڑا ہی ہمارے گھر کے بارے میں کہیں گی؟ ‘‘
’’ ممکن ہے کہ لڑکے کا گھر بار دیکھ کر خالہ کا اپنا دل چاہ رہا ہو کہ اپنی بیٹی کا رشتہ وہاں کر لیں…‘‘
’’ خالو نے کہا ہو گا، اتنا اچھا رشتہ ہے، تمہاری بھانجی تو ابھی کم عمر ہے اسے کئی اور رشتے مل جائیں گے، پہلے اپنی بیٹی کا رشتہ طے کرو جس کی عمر نکل رہی ہے…‘‘
’’ خالہ نے احتجاج تو کیا ہو گا کہ جو رشتہ میری بھانجی کے لیے آیا ہے اس پر میں اپنی بیٹی کے لیے کیوں ہاتھ ڈال دوں … ‘‘
’’ خالو نے کہا ہو گا، دنیا میں سب اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں، اپنی اولاد کا اچھا سوچنا سب سے اہم ہوتا ہے…‘‘
……
’’ عالیہ آج کام پر نہیں آئیں… ‘‘
’’ ہاں آج ان کے شوہر نے کہا ہو گا کہ چھٹی کر لو…‘‘
’’ تو کیا عالیہ نے اپنے شوہر کو نہیں بتایا ہو گا کہ باس اس معاملے میں بہت سخت ہیں… ‘‘
’’ ان کے شوہر نے کہا ہو گا، جب میں کہہ رہا ہوں کہ چھٹی کر لو تو باس کون ہوتا ہے تمہیں چھٹی نہ دینے والا!‘‘
’’ عالیہ نے کہا ہو گا کہ میری تنخواہ بھی کٹ جائے گی کیونکہ سالانہ چھٹیاں میں ساری کی ساری لے چکی!‘‘
’’ اس پر ان کے شوہر نے کہا ہو گا کہ بیماری کا بہانہ کر لو اسی لیے انھوں نے بخار کا بہانہ کر لیا ہو گا حالانکہ کل تک تو وہ ہٹی کٹی تھیں… ‘‘
……
اس کے علاوہ
… میری نند نے میرے نئے زیورات کا سنا ہو گا تو حسد سے لوٹ پوٹ ہو گئی ہو گی۔
… میرے بیٹے کی اتنی اچھی ملازمت کا سن کر تو سارا خاندان جل گیا ہو گا…
… میرے گھر میں چوری کا سن کر میری ساس نے کہا ہو گاکہ یہ سب میری ہی لا پروائی کی وجہ سے ہوا ہے۔
یہ سب وہ باتیں ہیں جنھیں اگر آپ غور کریں تو نہ صرف آپ سب کے منہ سے سنیں گے بلکہ آپ خود بھی ان کو کرنے کے مرتکب بھی ہوں گے… عرف عام میں اسے بد گمانی کہا جاتا ہے، ہم سب دوسروں کی طرف سے بہت سی بدگمانیاں محض ایسے بے بنیاد مفروضوں کے باعث قائم کر لیتے ہیں ،ان کی تشہیر کرتے اور ان ہی کے باعث دوسروں سے منافقت سے ملتے ہیں۔ خود کو آئینے میں دیکھیں، کس طرح کی صورت حال میں آپ کس حد تک دوسروں کے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہیں جن سے آپ کا کوئی تعلق نہ واسطہ، نہ اس سے آپ کا کوئی نفع نہ نقصان…
ہیں !! باسط نے ابھی سے بیٹے کی منگنی کیوں کر دی؟
نجیب نے جہیز میں کار کا مطالبہ کیوں کر دیا؟
تایا جی نے اپنی تمام جائیداد فلاحی اداروں کو کیوں دے دی؟
صغری آپا نے شہر کے اس علاقے میں پلاٹ کیوں لے لیا؟
غضنفر چلتا کاروبار بیٹوں کے حوالے کر کے امریکا کیوں چلا گیا؟
ابھی اگلے روز ہی تو خرم پاکستان سے ہو کر گیا ہے، دوبارہ کیوں اتنی جلدی آ رہا ہے؟

ایسی بہت سی باتیں جنھیں ہم صرف اس لیے دوسروں کے سامنے کہہ دیتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ بات تو کرنا ہوتی ہے، شاید اس سے ہمیں لگتا ہے کہ لوگ ہمیں اہمیت دیں گے کہ میں… ہر معاملے میں کتنا غور و فکر کرتا ہوں اور مجھے ہر معاملے کی خبر ہوتی ہے۔

نہ صرف روز مرہ کے معاملات میں بلکہ ملکی، سیاسی اور عالمی سطح کے معاملات پر بھی ہمیں سطحی اور اتھلی سی رائے دینے کا شوق پیدا ہو جاتا ہے، ہماری یہ ناقص رائے سنی سنائی پر مبنی ہوتی ہے، اخبار میں کسی کا لکھا ہوا تبصرہ پڑھ کر اس کے جو مندرجات ہمیں پسند آتے ہیں انھیں ہم اپنی رائے کے طور پر مستند کر لیتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی کسی کے بارے میں اچھا گمان بھی دل میں رکھا ہے…صرف منفی سوچیں ہی کیوں ہمیں
ایک دوسرے سے قریب کر دیتی ہیں، اپنے ارد گرد دیکھیں، اپنے خاندان میں دیکھیں، اگر کوئی دو لوگ آپس میں بہت اچھے تعلقات رکھتے ہیں تو وہ دو لوگ ہوں گے جن کی منفی سوچیں ایک جیسی ہیں اور جنھیں خاندان میں ہر کسی پر تنقید کرنے کا بے انتہا شوق ہے۔ دن بھر ٹیلی فونوں پر اور لوگوں کے رو برو اپنی سوچوں کا پرچار کرتے لوگ آپ کو کثرت سے نظر آئیں گے، یہ وہ ہیں جو معاشرے میں خرابی کا اصل باعث ہیں۔

جب کبھی آپ کا کسی ایسے کردار سے سامنا ہو اور وہ دو تین فقروں کے بیان سے آپ کے دل میں نفرت کے بیج کی آبیاری کرنے لگے تو اس کا فوری تدارک کریں تا کہ دوبارہ انھیں اس کا موقع نہ ملے… اگر کوئی یہ کہے کہ فلاں نے یہ کہا ہو گا، تو آپ پوچھیں کہ کیا کسی کے کچھ کہنے کا کوئی ثبوت ان کے پاس ہے؟ اگر کسی نے وہی کہا بھی ہو جو کہ وہ سوچ اور بیان کر رہے ہیں تو اس سے آپ کو اور ان کو فرق کیا پڑنے والا ہے؟

اگر کوئی آپ کو بتائے کہ تمہارے خلاف فلاں شخص یہ غلط بات کہہ رہا تھا، ان سے پوچھیں کہ جب ان کو علم ہے کہ کہنے والے نے غلط بات کی ہے تو انھوں نے آپ کے دفاع میں کیا کہا اور پہلا سوال تو یہ اٹھتا ہے کہ غلط بات کرنے والے نے ان ہی کا انتخاب کیوں کیا؟ انھوں نے اس بات کو سننے میں دلچسپی نہ ظاہر کی ہوتی تو کہنے والا کبھی وہ بات ان کے سامنے نہ کہتا ۔

یہ سب باتیں غیبت کے زمرے میں آتی ہیں کیونکہ ہم یہ بات کسی ایسے شخص کے منہ پر نہیں کہہ سکتے جس کی عدم موجودگی ہمیں ہرغلط سلط بات کہہ دینے کا لائسنس فراہم کر دیتی ہے… اور ہم سب کو علم ہے کہ غیبت کرنے والے کے بارے میں قرآن اور حدیث میں کیا کہا گیا ہے!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔