نبی مکرم ،رحمۃ للعالمین،امام الانبیاء حضرت محمد مصطفٰیﷺ کی سیرت کے درخشاں پہلو

مولانا قاری محمد سلمان عثمانی  اتوار 15 ستمبر 2024
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

 اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو ایسا عظیم الشان مقام عطا فرمایا ہے کہ کوئی بشر، حتیٰ کہ نبی یا رسول بھی اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا ، چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں ارشاد فرماتا ہے ’’ (اے پیغمبر!) کیا ہم نے تمہاری خاطر تمہارا سینہ کھول نہیں دیا ؟ اور ہم نے تم سے تمہارا وہ بوجھ اتار دیا ہے ، جس نے تمہاری کمر توڑ رکھی تھی اور ہم نے تمہاری خاطر تمہارے تذکرے کو اونچا مقام عطا کر دیا ہے ۔

(سورۃ الم نشرح: 1۔4 )‘‘ دنیا میں کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا جس میں ہزاروں مسجدوں کے مناروں سے اللہ کی وحدانیت کی شہادت کے ساتھ حضور اکرمﷺ کے نبی ہونے کی شہادت ہر وقت نہ دی جاتی ہو اور لاکھوں مسلمان نبی اکرمﷺ پر درود نہ بھیجتے ہوں ، غرضیکہ اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ حضور اکرمﷺ کا نام نامی اس دنیا میں لکھا ، بول ا، پڑھا اور سنا جاتا ہے ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت کی برکت اور آنحضرتﷺ کی شان ختم المرسلینیؐ کے توسط سے امت مسلمہ کو رب کریم کی طرف سے ایسی بے پایاں رحمتیں حاصل ہوئیں جن کی گنتی کرنے سے اعداد وشمار کے آلات قاصر ہیں ۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے تم بہترین امت ہو یہ منفرد اعزاز بھی ختم نبوت کے مرہون منت ہے ، حضور اکرم ﷺ سید الرسل اور خاتم الانبیاء ہیں ۔

آپﷺ کے بعد اس دنیا میں کوئی نبی نہیں آئے گا اور آپ دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت ، راہنمائی اور زندگی گزارنے کا پورا پورا سامان اور تعلیمات لے کر آئے جو رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے مشعل راہ اور کامیابی وکامرانی کا معیار ، زینہ اور ضامن ہیں ۔ اُمت پر آپﷺ کے حقوق و فرائض میں آپ پر ایمان لانا، آپ سے محبت وعقیدت رکھنا، آپ کی تعظیم و توقیر، اطاعت و فرمانبرداری اور آپ کی اتباع و پیروی شامل ہے ، حضور ﷺ کی عالمگیر اور ہمہ جہت نبوت ، زمین و زماں اور مکین ومکاں پر محیط رسالت اور قیامت تک کی انسانیت پر مسلمہ سیادت آپ ﷺ کی خصوصیات ، امتیازات اور اعزازات میں سے ہے جس کا تذکرہ کرتے ہوئے رب کریم نے محبوبانہ اور عاشقانہ انداز تخاطب سے آپ سے خطاب کیا اور خود آنحضرت ﷺ نے بھی ا رسلت الی الخلق کافہ کے جامع کلمات سے حق جل مجدہ کی اس نعمت غیر مترقبہ کا اظہار فرمایا ۔ آپ ﷺ کی نبوت کی طرح آپ کی سیرت بھی عالمی وآفاقی ہے جس نے تمام شعبہ ہائے زندگی کے لئے ایسے اصول فراہم کیے ہیں جو نظام عالم کی بقاء کے ضامن ، انسانی و معاشرتی قدروں کا حسن اور تمام انسانیت کے لئے نجات دہندہ ہیں ۔ آپﷺ کا بے داغ بچپن ، باکردار جوانی اور حسن عمل کا حامل بڑھاپا صرف عالم اسلام ہی نہیں ، تمام اقوام عالم کے لئے مشعل راہ ہے ۔

یہ وہ حقیقت ہے جس کا اعتراف منصف مزاج غیر مسلم دانشوروں نے برملا اور بجا طور پر کیا ہے ۔ معروف ہندو سکالر سوامی لکشمن جی نے جب تعمق نظری سے پیغمبر اسلام کی شخصیت کا مطالعہ کیا تو اس قدر متاثر ہوا کہ آپﷺ کی سیرت طیبہ پر پوری کتاب لکھ ڈالی جس کا نام ’’عرب کا چاند‘‘ رکھا ۔ اس کتاب سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے ۔ ’’جہالت اور ضلالت کے مرکز اعظم جزیرہ نمائے عرب کے کوہ فاران کی چوٹیوں سے ایک نورچمکا ، جس نے دنیا کی حالت کو یکسر بدل دیا ، گوشہ گوشہ کو نور ہدایت سے جگمگا دیا اور ذرہ ذرہ کو فروغ تابش حسن سے غیرت خورشید بنا دیا ۔ آج سے چودہ صدیاں پیشتر اسی گمراہ ملک کے شہر مکہ معظمہ کی گلیوں سے ایک انقلاب آفریں صدا اٹھی جس نے ظلم وستم کی فضاؤں میں تہلکہ مچا دیا ۔ یہیں سے ہدایت کا وہ چشمہ پھوٹا ، جس نے اقلیم قلوب کی مرجھائی ہوئی کھیتیاں سرسبز و شاداب کر دیں ۔

اسی ریگستانی چمنستان میں روحانیت کا وہ پھول کھلا جس کی روح پرور ، مہک نے دہریت کی دماغ سوزبو سے گھرے ہوئے انسانوں کے مثام جان کو معطر ومعنبرکر دیا ۔ اسی بے برگ وگیاہ صحراکے تیرہ وتار افق سے ضلالت و جہالت کی سب ویچور میں صداقت وحقانیت کا وہ ماہتاب درخشاں طلوع ہوا جس نے جہالت و باطل کی تاریکیوں کو دور کر کے ذرے ذرے کو اپنی ایمان پاش روشنی سے جگمگا کر رشک طور بنا دیا ۔ گویا ایک دفعہ پھرخزاں کی جگہ سعادت کی بہار آگئی ۔ (صفحہ56.66) ‘‘ آنحضرتﷺ کی سیرت طیبہ کی جامعیت کا عالم یہ ہے کہ جہاں ایک طرف امت کو خطاب کر کے ارشادہوا ’’ البتہ تحقیق تمہارے لئے اللہ کے رسول (کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے‘‘ (احزاب:12) وہیں انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کی مقدس ترین جماعت اور افضل الخلائق ہستیوں کو مخاطب فرما کر انہیں آپﷺ کی اقتداء اور پیروی کا حکم دیا گیا ۔

چنانچہ فرمان باری تعالی ہے ’’ اور جب اللہ نے نبیوں سے عہد لیا کہ میں جوکچھ بھی تمہیں کتاب اور حکمت عطاء کروں پھر تمہارے پاس ایک رسول آجائے جو اس چیز کی تصدیق کرنے والا ہے جو تمہارے پاس ہے تو تم ضرور اس پر ایمان لاؤ گے اور ضرور اس کی مدد کرو گے‘‘ (آل عمران:18) گویا آپﷺ کی ذات گرامی مقتداؤں کی مقتدا، پیشواؤں کی پیشوا اور راہنماؤں کی راہنماء ہے ۔ کیا کمال ہے آنحضرت کی سیادت وامارت کا اورکیا شان ہے نمونہ کاملہ کی کہ اصحاب شریعت وکتاب ، اولو العزم اور معصوم ترین ہستیاں جس کی زیر اقتداء ہیں اور وہ اس سوا لاکھ طائفہ مقدسہ کے راہبر و راہنماء ہیں ۔ پیغمبراسلامﷺ کی عالمگیر اور تمام فطری تقاضوں کے عین مطابق سیرت کے بے شمار اسرار و رموز میں سے ایک راز یہ ہے کہ آپﷺ نے جو دستور حیات امت کو دیا اسے محض اپنے بیان و فرمان اور وعظ و تقریر کے ذریعہ ہی ان تک نہیں پہنچایا بلکہ اس کا عملی نمونہ ان کے سامنے پیش کیا ، احادیث طیبات میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں ۔

صحابہ کرامؓ کو نماز کا طریقہ سکھاتے ہوئے فرمایا ’’نماز ایسے پڑھو جیسے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو‘‘۔ (بخاری) صحابہ کرامؓ بھی تفہیم دین کے سلسلہ میں نبی کریم ﷺکا عملی طرز بیان اختیار فرماتے تھے ، چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے جب اپنے تلامذہ کو نماز کا طریقہ بتایا تو فرمایا ’’ کیا میں تمہیں ایسے نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں جیسے رسول اللہ ﷺ پڑھا کرتے تھے؟ پھر آپؓ نے نماز پڑھی‘‘ (ترمذی،نسائی) اپنی شریک حیات کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب دیتے ہوئے اپنی مثال بیان فرمائی ’’ تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ بہتر (معاملہ کرنے والا) ہے اور میں تم میں سب سے زیادہ اپنے گھر والوں کے ساتھ بہتر ہوں‘‘ (ترمذی) ۔ کھانے کا ادب بیان فرماتے ہوئے کھانے کے وقت اپنا معمول بیان فرمایا ’’میں (متکبروں کی طرح) ٹیک لگا کر نہیں کھاتا‘‘ (بخاری) ۔ اس کے علاوہ بھی ذخیرہ احادیث اس نوع کے واقعات سے بھرا پڑا ہے ۔

اس کے برعکس دیگر انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کے امتیوں کے لئے کئی معاملات میں نازل شدہ وحی کی صورت میں راہنمائی موجود ہوتی ہے ، آنحضرتﷺ کی تا ابد اسوۂ حسنہ بننے والی سیرۃ مبارکہ کے لطائف میں ایک لطیفہ یہ بھی ہے کہ آپﷺ کی بچپن سے لڑکپن، لڑکپن سے بچپن، پچپن سے جوانی ، جوانی سے بڑھاپا اور بڑھاپے سے موت تک غرضیکہ زندگی ایک ایک لمحہ خواہ وہ آپﷺ کے بشری و طبعی امور سے متعلق ہو یا دینی و شرعی امور سے ، مکمل طور پر محفوظ ہے ، یہاں تک کہ بہت سے ایسے امور جن کو عام معاشرتی زندگی میں نظرانداز کر دیا جاتا ہے اور ان کی تحقیق و تفتیش میں کوئی شخص نہیں پڑتا انہیں بھی آپ ﷺ کے مخلص جانثاروں اور بے لوث غلاموں نے اپنے احاطہ علمی میں لا کر امت تک پہنچایا ۔

خادم رسول ﷺ حضرت انسؓ آپ ﷺ کے سر اور داڑھی مبارک کے سفید بالوں کی تعداد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں ’’ آپﷺ کی وفات اس حال میں ہوئی کہ آپﷺ کے سر اور ریش مبارک میں بیس بال بھی سفید نہیں تھے‘‘ (شمائل ترمذی) جس شخصیت کے سفید بالوں تک کی گنتی سے امت آشنا ہے اس کی زندگی کا کوئی گوشہ امت کی نگاہوں سے اوجھل رہ سکتا ہے ۔ اسی طرح آپﷺ کے سرمہ اور تیل لگانے ، کنگھا کرنے ، جوتا پہننے ، تبسم فرمانے ، چلنے پھرنے اور اظہار مسرت وغم کے وقت آپﷺ کی کیفیت جیسے احوال صحابہ کرام ؓ نے نوٹ کر کے اگلی نسلوں تک منتقل کئے جو عام طور پر کسی بڑی شخصیت کے سوانح مرتب کرتے وقت ملحوظ نہیں رکھے جاتے ۔ آنحضرتﷺ کی نبوت و رسالت اس لحاظ سے بھی تمام انبیاء سے بلند تر ہے کہ باقی انبیاء محض نبی ہیں جبکہ حضورؐ خاتَم النبیین ہیں ، ہر نبی اپنے سے پیشرو پیغمبر کیلئے مصدق اور بعد میں آنے والے نبی کیلئے مبشّر ہوتا تھا یعنی اپنے سے پہلے گزرنے والے نبی کی تصدیق کرتا تھا اور جس نبی نے بعد میں مبعوث ہونا ہوتا اس کی آمد کی بشارت دیتا لیکن آپ ؐ کی ذات اقدس پر نبوت کا سلسلہ چونکہ ختم ہو چکا ہے اور آپﷺ کی نبوی تعلیمات قیامت تک کی انسانیت کیلئے باعث رشدو ہدایت ہیں ، آپ ﷺ کی نبوت کے بعد اب قیامت کا مرحلہ ہے ، اس دوران مزید کسی نبی ، وحی اور آسمانی کتاب کی نہ گنجائش ہے اور نہ اس کا قائل مسلمان ہے ۔

قرآن کریم میں سابقہ انبیاء کی بعثت کا تذکرہ کرتے ہوئے قریۃ یعنی بستی کا ذکر کیا گیا ہے جو اس بات کی صریح اور بین دلیل ہے کہ ان سب کی نبوت ، نبوت ِخاصہ تھی جو محدود زمان و مکاں پر تھی جبکہ آنحضرتؐ کی نبوت ، نبوتِ تامہ تھی جیساکہ ارشاد خداوندی ہے (اے پیغمبرؐ) فرما دیجیے! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں‘‘ آپﷺ کے وصف رسالت کا یہ عموم بھی آپ ؐ کی تمام انبیا ء پر برتری اور سرداری کو ثابت کرتا ہے ، حضور نبی کریم رحمۃ للعالمین خاتم النبیینﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے میری اطاعت کی، اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی، جس نے میری نافرمانی کی، اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی (بخاری) ۔ حضرت ابو طلحہؓ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو آپ ﷺ کے چہرہ انور پر خوشی محسوس ہو رہی تھی ۔

ہم لوگوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ ہم لوگ آپ ﷺ کے چہرہ مبارک پر خوشی کے آثار محسوس کر رہے ہیں ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ بلاشبہ میرے پاس فرشتہ حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اے محمد ﷺ اللہ عزوجل فرماتا ہے کیا تم لوگ خوش نہیں ہوتے جو شخص تمہارے اوپر ایک مرتبہ درود شریف بھیجے گا تو میں اس شخص پر دس مرتبہ رحمت بھیجوں گا اور تمہارے میں سے جو شخص (ایک مرتبہ) سلام بھیجے گا تو میں اس پر دس مرتبہ سلام بھیجوں گا‘‘ اللہ رب العزت ہم سب کو اپنے نبی کریم رحمۃ للعالمین امام الانبیاء حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کر نے کی توفیق نصیب فرمائے ،آمین ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔