تمیز و تہذیب سے ناآشنا افغان قونصل جنرل !

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 20 ستمبر 2024
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

افغان مُلا طالبان کو افغانستان پر قبضہ اور حکومت کرتے ہُوئے دو سال گزرچکے ہیں ۔ یہ لوگ افغانستان پر، بندوق کے زور پر، قابض ہُوئے تھے تو کئی پاکستانیوں نے خوشی اور مسرت کا اظہار کیا تھا۔ ہمارے ایک سابق سینئر ترین سرکاری ملازم تو خوشی سے مغلوب ہو کر کابل پہنچ گئے تھے اور وہاں کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں چائے کا کپ بلند کرکے افغان مُلا طالبان کی قبضہ گیری اور فتحیابی میں اپنی منفرد خوشی شامل کر ڈالی تھی ۔ اِس رمز (Gesture) کو غیروں (خصوصاً بھارت ) نے پورے پاکستان کی خوشی کا اشارہ گردانا۔ بانی پی ٹی آئی نے بھی ، بوجوہ، افغان طالبان کے افغانستان پر قبضے کے وقت اپنا یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا تھا:’’افغانوں(بمعنی افغان طالبان) نے غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالی ہیں۔‘‘

مگر جب سے یہ افغان مُلا طالبان افغانستان کی عبوری حکومت کے تخت پر براجمان ہُوئے ہیں، ہر روز کسی نہ کسی شکل میں پاکستان،پاکستانی حکومت اور پاکستانیوں کے لیے عذاب اور دل آزار ثابت ہو رہے ہیں۔ یہ ہر روز پاکستان کا دل دکھاتے ہیں ۔ اِنھوں نے ٹی ٹی پی ایسے پاکستان دشمن دہشت گردوں کو اپنے ہاں پناہ اور سرپرستی دے رکھی۔

افغانستان میں متعین پاکستان کے سابق نمایندہ خصوصی جناب آصف درانی نے اپریل2024 میں اسلام آباد کے ایک تھنک ٹینک(ISSI) سے خطاب کرتے ہُوئے یہ تکلیف دِہ انکشاف کیا تھا :’’ جب سے طالبان افغانستان پر قابض ہُوئے ہیں، (ان کے زیر پرستی) ٹی ٹی پی کے پاکستان کے خلاف سرحدی حملوں میں65فیصد اور خود کش حملوں میں500فیصد اضافہ ہُوا ہے۔‘‘ اِسی سے ہم سب اندازہ لگا سکتے ہیں کہ افغانستان پر طالبان کی حاکمیت پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے کتنی ’’نعمت‘‘ ثابت ہُوئی ہے ؟

اب تو اِن افغان مُلا طالبان حکمرانوں کی پاکستان کے خلاف دل آزاریاں حد سے بڑھ گئی ہیں ۔ اِس کی تازہ ترین مثال 17ستمبر2024 کو سامنے آئی ہے۔17ستمبر کو جب سارے ملک میں عیدِ میلادالنبیﷺ کی خوشیاں منائی جارہی تھیں، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا، جناب علی امین گنڈا پور، نے ایک  اجتماع میں پاکستان میں متعین افغان قونصل جنرل ، محب اللہ شاکر اوراُس کے ایک ڈپلومیٹ ساتھی، کو مدعو کیا۔ تقریب شروع ہونے سے قبل، حسبِ قومی روائت، پاکستان کا قومی ترانہ بجایا گیا۔

وزیر اعلیٰ سمیت اجتماع میں شریک سبھی قومی ترانے کے احترام میں کھڑے ہو گئے۔ مگر سارا پاکستان یہ منظر دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ اجتماع میں شریک صرف دو افراد نے پاکستان کے قومی ترانے کے احترام میں کھڑے ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ دو افراد تھے: افغان قونصل جنرل محب اللہ شاکر اور اُس کا ساتھی ۔

اِس حرکت نے ایک بار پھر پاکستان کا دل دکھا دیا ہے ۔ سب پاکستانیوں نے سفارتی آداب سے ناآشنا اِن دونوں سرکاری افغانوں کے خلاف سخت ردِ عمل اور احتجاج کا مظاہرہ کیا ہے ۔ ہر طرف سے یہ مطالبہ سامنے آرہا ہے کہ مذکورہ افغان قونصل جنرل اور اس کے ساتھی کو Persona Non Grataقرار دے کر پاکستان سے نکال دیا جائے ۔ ابھی تک حکومت نے مگر اِس عوامی مطالبے پر کان نہیں دھرا ہے اور نہ ہی طالبان حکومت سے ڈی مارش ہی کیا ہے ۔ ہمارے وزیر خارجہ بھی بوجوہ خاموش ہیں ۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان کی جانب سے دبی زبان میں صرف یہ کہا گیا ہے :’’ہم نے افغان حکومت کواحتجاج ریکارڈ کروا دیا ہے۔‘‘ ارے، بس اتنا ہی ؟؟ پاکستان کے قومی ترانے کی توہین پر محض اتنا سا اشاراتی احتجاج ؟

افغان طالبان حکمرانوں کے قونصل جنرل، محب اللہ شاکر، کی اِس غیر سفارتی حرکت پر ردِ عمل دیتے ہُوئے گورنر سندھ ، جناب کامران ٹیسوری، نے کہا ہے: ’’معلوم نہیں افغان قونصل جنرل کی ذہنی مجبوری تھی یا جسمانی (کہ وہ پاکستانی قومی ترانے کے احترام میں کھڑے نہیں ہُوئے )جو پاکستان کی عظمت اور عالمی سفارتی آداب کو نہیں مانتا، وہ پاکستان سے چلا جائے۔‘‘ ہم سب جناب کامران ٹیسوری کے الفاظ سے متفق ہیں۔

جس روز افغان قونصل جنرل نے سفارتی آداب و تہذیب سے ناآشنا یہ حرکت کی ، اُسی روز وزیر اعلیٰ بلوچستان ، جناب سرفرازبگٹی، نے بھی اپنی ایک مجلس سے ایک ایسے شخص کو نکل جانے کا حکم دیا تھا جو قومی ترانے کے احترام میں نہیں اُٹھاتھا ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ کے پی سے تو یہ تکلّف بھی نہ ہو سکا ۔ کیا اُن کی خاموشی سے یہ سمجھا جائے کہ علی امین گنڈا پور میں اتنی قومی اور قوی جرأت نہ تھی کہ وہ محب اللہ شاکر اور اُس کے افغان سفارتی ساتھی کو یہ کہتے کہ بھائی صاحب، اگر آپ اِن سفارتی آداب سے واقف نہیں ہیں تو ہماری مجلس سے نکل جائے ۔

افغانستان اور اس کے عہدے دار اور باشندے جس طرح پاکستان کے متعدد اور متنوع احسانات کا بدلہ چکا رہے ہیں،اِس کا ہم ہر روز مشاہدہ کررہے ہیں۔ ہمیں مگر یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کے ڈپلومیٹس عالمی سطح پر سفارتکاری کی مروجہ تمیز و تہذیب سے بھی ناآشنا ہوں گے ۔ پاکستان پچھلے 40برسوں سے زائد عرصے سے 40لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کا کمر شکن بوجھ اُٹھائے ہُوئے ہے ۔ ہم پاکستانیوں نے اپنے بچوں کے منہ سے لقمہ چھین کر اِن افغان مہاجرین کے پیٹ بھرے ہیں اور ہنوذ بھر رہے ہیں ۔

اِنھوں نے مگر ہر مقام، ہر موقع اور ہر سطح پر پاکستان اور پاکستانیوں کی توہین کی ہے ۔یہ بھی افغانی ہی تھے جنھوں نے ابھی چند ہفتے قبل جرمنی میں پاکستانی سفارتخانے کی دیواریں پھاند کر پاکستان کے قومی پرچم کی توہین کی تھی۔ شہبازحکومت نے مگر اُس وقت بھی تحمل اور صبر کا مظاہرہ کیا ۔

جس طرح جرمنی اور ایران نے اپنے ہاں افغان مہاجرین کو نکال باہر کرنے کا مستحسن فیصلہ کیا ہے ، اگر اِنہی کے نقشِ قدم پر چلتے ہُوئے پاکستان افغان مہاجرین بارے کوئی فیصلہ کن اقدام کر دے تو پاکستان اور پاکستانی محفوظ رہ سکتے ہیں ۔افغان قونصل جنرل ، محب اللہ شاکر اور اُس کے ساتھی، نے جس دل شکن حرکت کا ارتکاب کیا ہے ، اِس سے ہر پاکستانی کے دل میں کئی سوالات اُبھرے ہیں ۔ مثال کے طور پر(1) وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا براہِ راست افغان طالبان سے جو مذاکرات کرنا چاہتے تھے، وہ چاؤ پورا ہو گیا ؟(2)کیا علی امین گنڈا پور نے دانستہ افغان قونصل جنرل کے توسط سے پاکستان کی توہین کروائی ہے؟(3) کیا افغانستان کا اپنا قومی ترانہ نہیں ہے ؟ (4) اگر ہے تو کیا افغانی اور خاص طور پر افغان حکمران طالبان اپنے قومی ترانے کے بجائے جانے پر احتراماً کھڑے نہیں ہوتے؟(5) اور اگر یہ لوگ پاکستان کے قومی ترانے کے احترام میں کھڑا ہونا ’’حرام ‘‘ سمجھتے تھے تو وہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے دعوتی اجتماع میں شریک ہی کیوں ہُوئے ؟ اور اگر شریک ہو ہی گئے تھے تو اُن پر لازم تھا کہ پاکستان کے قومی ترانے کے بجائے جانے سے قبل اجتماع سے نکل جاتے ۔ اب انھوں نے مبینہ طور پر جو عذر لنگ پیش کیا ہے،پاکستانیوں کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔ افغان طالبان کی اِنہی حرکات کے سبب دُنیا کا کوئی ملک، دو سال گزرنے کے باوصف، انھیں تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔