گوادر میں بحری اڈہ بنانے کیلیے چین کیساتھ خفیہ سمجھوتے کا دعویٰ بے بنیاد، دفتر خارجہ

(فوٹو: فائل)

(فوٹو: فائل)

  اسلام آباد: پاکستان نے ان دعوؤں کو مسترد کر دیا ہے کہ اس نے گوادر میں بحری اڈے کے قیام کیلیے چین کے ساتھ خفیہ سمجھوتہ کیا ہے۔ دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے ہفتہ وار بریفنگ میں بتایا کہ نیول بیس کے حوالے سے قیاس آرائیاں مکمل طور پر بے بنیاد ہیں اور ہم اسے مسترد کرتے ہیں۔

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ جیسا کہ ہم ماضی میں کہہ چکے ہیں، پاکستان کا کسی غیر ملکی حکومت یا فوج کو کسی دوسرے ملک کیخلاف اڈے پیش کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ وہ ایک امریکی ویب سائٹ کی تازہ ترین رپورٹ کے حوالے سے سوال  کا جواب دے رہی تھیں جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان نے چین کو گوادر بندرگاہ میں میں نیول بیس قائم کرنے کی اجازت دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔

رپورٹ میں پاکستان اور چین کے درمیان مبینہ منصوبے کے بارے میں خفیہ دستاویزات حاصل کرنیکا دعویٰ کیا گیا ہے اور بائیڈن حکومت پر تنقید کی گئی ہے کہ وہ امریکا کے اہم مخالف چین کو خطے میں قدم جمانے دے رہی ہے۔ چینی سفارتی ذرائع نے بھی ان دعوؤں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کا کوئی پوشیدہ مقاصد نہیں ہیں۔

ذرائع نے کہا کہ سی پیک کا واحد مقصد اقتصادی ہے اور اس کے سٹریٹجک ڈیزائن کے بارے میں دعوے سراسر غلط ہیں۔ سندھ طاس معاہدے پر نظرثانی کیلئے بھارتی نوٹس سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ترجمان دفتر خارجہ نے نے اس معاہدے کو اہم قرار دیا جس نے گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان اور بھارت دونوں کے لیے بہترین خدمات انجام دی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ پانی کی تقسیم سے متعلق دوطرفہ معاہدوں کا سنہرا معیار ہے، پاکستان اس پر عمل درآمد کیلئے پوری طرح پرعزم ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ بھارت بھی اس معاہدے پر قائم رہے گا۔ پاکستان کا ماننا ہے کہ ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنا، اپنے ماحول کی حفاظت کرنا اور ایسے اقدامات سے گریز کرنا ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے جس سے ماحولیات پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

دونوں ممالک کے پاس انڈس کمشنرز کا ایک طریقہ کار ہے، اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس معاہدے سے متعلق تمام مسائل اس میکانزم میں زیربحث لائے جا سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں ترجمان دفتر خارجہ نے افغان قونصل جنرل کی جانب سے قومی ترانے کی بے حرمتی کے معاملے پر افغانستان کے سفارت خانے کی وضاحت کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ قومی ترانے کی بے حرمتی عالمی قوانین کے خلاف ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان افغان سفارت کاروں کیخلاف کارروائی کریگا تو انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ زیر غور ہے۔

ہم نے افغان حکام کو اپنے شدید احتجاج سے آگاہ کیا ہے اور فیصلے اندرونی غور و خوض اور افغان حکومت کے ساتھ مشاورت کے بعد کئے جائیں گے۔ پاکستان سفارتی اصولوں اور طریقوں کے مطابق کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ ممتاز زہرا بلوچ نے لبنان میں حالیہ حملوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، پاکستان ہر طرح کی دہشتگردی کی مذمت کرتا ہے، دھماکوں میں ہونے والے جانی و مالی نقصان پر لبنانی حکومت اور عوام سے بھرپور اظہار یکجہتی کرتے ہیں، پاکستان لبنان کی خودمختاری اور سلامتی کی مکمل حمایت کرتا ہے۔

بیرونی ممالک میں دہشت گردی کے لیے سائبر اور الیکٹرانک ذرائع کا استعمال قابل مذمت ہے۔ دہشت گردانہ حملے خطے میں اسرائیل کی خطرناک مہم جوئی کا مظہر ہیں جس سے امن و سلامتی کو خطرہ ہے۔ عالمی برادری اسرائیل کو اس کی بین الاقوامی دہشت گردی کی کارروائیوں اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کیلئے جوابدہ ٹھہرانے کیلئے فوری اقدامات کرے۔

غزہ میں سکول پر اسرائیلی دہشتگرد حملے کی بھی مذمت کرتے ہیں، اسرائیل کی مہم جوئی علاقائی امن کیلئے خطرہ ہے، گزشتہ سال اکتوبر سے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کا سلسلہ جاری ہے، عالمی قوانین کی خلاف ورزی پر اسرائیل سے جواب طلب کیا جانا چاہئے۔

ترجمان نے کہا مقبوضہ کشمیر میں نام نہاد انتخابات ناقابل قبول ہیں، بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کی عالمی دنیا کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں ہے، پاکستان مسئلہ کشمیر کا اقوام متحدہ کی قراردادوں، کشمیریوں کی اْمنگوں کے مطابق حل چاہتا ہے، ہم کشمیریوں کی اخلاقی، سفارتی اور سیاسی حمایت جاری رکھیں گے۔ مقبوضہ کشمیر میں 14 سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے اور بہت سے سیاسی رہنما نظر بند ہیں، اس لئے خوف و ہراس کے ماحول میں ایسی انتخابی مشق درست نہیں۔

انہوں نے کہا وزیراعظم شہباز شریف 23 سے27 ستمبر تک نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 79 ویں اجلاس میں شرکت کریں گے جہاں وہ کثیرالجہتی عمل کے لیے پاکستان کے ثابت قدم عزم کا اعادہ کریں گے اور عالمی امن، سلامتی اور خوشحالی کے لیے اقوام متحدہ کے کردار کی حمایت کا اظہار کریں گے۔ وزیراعظم مسئلہ فلسطین اور جموں و کشمیر سمیت دیرینہ مسائل کو حل کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔