- بیٹی کی نازیبا ویڈیو لیک کرنے کی دھمکی آمیز جھوٹی کال پر ماں شدت غم سے ہلاک
- برطانوی سیریز ’ڈاکٹر ہو‘ کی سب سے بڑی کلیکشن کا اعزاز امریکی باپ بیٹے کے نام
- بھارت: ایک کمرے اپارٹمنٹ کے کرائے نے صارفین کو چکرا دیا
- پاکستان ریلوے میں جعلی بھرتیاں، فرضی ڈیوٹی لگا کر لاکھوں روپے لوٹے گئے
- پی ٹی آئی کا احتجاج؛ برہان انٹرچینج اور ڈی چوک پر پولیس کی شیلنگ، متعدد کارکنان گرفتار
- امریکا: بچوں کا ویکسینشن پروگرام اہداف حاصل کرنے میں ناکام
- غیرملکی ائیرلائنز کو اندرون ملک اضافی پروازوں کی اجازت سے پی آئی اے کا بزنس متاثرہوا، جی ایم
- غار سے بچائے گئے 188 سالہ شخص کی ویڈیو وائرل، اصل حقیقت کیا؟
- شنگھائی تعاون تنظیم میں شرکت کیلیے بھارتی وزیر خارجہ پاکستان کا دورہ کریں گے
- اسرائیلی وزیراعظم نے میرے باتھ روم میں جاسوسی آلات لگائے تھے، بورس جانسن
- کم وقت میں اسٹرا سے جوس پینے کا نیا عالمی ریکارڈ قائم
- سابق صدر عارف علوی کا کلینک سیل کرنے کیخلاف درخواست فوری سماعت کیلیے منظور
- ملائیشین وزیراعظم کی حافظ نعیم سے ملاقات، اسرائیلی جارحیت کیخلاف احتجاج پر اتفاق
- انڈے کو بغیر ٹوٹے بلند ترین اونچائی سے گرانے کا نیا عالمی ریکارڈ
- 5 ہزار ٹپ نہ دینے پر نرس کی سفاکانہ غفلت؛ نومولود ہلاک
- ماہرین نے کافی اور تیز کولڈرنکس پینے کے نقصانات سے خبردار کردیا
- گوگل سرچ انجن میں نئے اے آئی فیچرز شامل
- داتا دربار سے اغوا لڑکی بازیاب؛ خاتون اغوا کار گرفتار
- کراچی؛ میٹرک سائنس گروپ کے امتحانی نتائج کا اعلان آج شام ہوگا
- ملائیشیاء کے وزیراعظم دورۂ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ
پارلیمان کا قانون سازی کا اختیار آئینی حدود کے تابع ہے، سپریم کورٹ
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے ٹیکس کیس سے متعلق تحریری فیصلہ جاری کردیا جس میں لکھا گیا ہے کہ پارلیمان کا قانون سازی کا اختیار آئین میں دی گئی حدود کے تابع ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے 41 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں لکھا کہ آئین کا آرٹیکل 142 پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو قانون سازی کو اختیار دیتا ہے، پارلیمنٹ ایسی قانون سازی بھی کر سکتی ہے جس کا ماضی سے اطلاق ہوتا ہو تاہم قوانین کے ماضی سے اطلاق کو آئین سے مشروط کیا گیا ہے۔
تحریری فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ آئین پارلیمان پر پابندی عائد کرتا ہے کہ آرٹیکل 9 اور 28 میں دیے گئے حقوق ختم نہیں کیے جا سکتے، آرٹیکل 12 کے مطابق فوجداری معاملات میں قوانین کے ماضی سے اطلاق نہیں ہوسکتا، صرف آئین شکنی سے متعلق فوجداری معاملے پر قانون سازی ماضی سے ہوسکتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ سول حقوق کو ماضی سے لاگو کرنے کا پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں کو اختیار نہیں، قانون کے ماضی سے اطلاق سے فریقین کے حقوق متاثر ہوسکتے ہیں، شہریوں کو موجودہ قوانین کا علم ہوتا ہے جس کے مطابق وہ اپنے امور انجام دیتے ہیں، مستقبل میں اگر کوئی قانون بنے تو اس کا ماضی کے اقدامات پر اطلاق کیسے ممکن ہے؟۔
سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ عدالتوں کو سمجھنا ہوگا کہ قوانین کے ماضی سے اطلاق سے حتمی ہوچکے معاملات بھی دوبارہ کھل سکتے ہیں، کسی قانون کی دو تشریحات ممکن ہوں تو وہی کرنی چاہیے جو لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرے، جتنی زیادہ ناانصافی ہوگی مقننہ کا کردار بھی اتنا ہی واضح ہونا چاہیے، کوئی بھی ترمیم دراصل کسی نہ کسی انداز میں قانون یا کسی شق کا خاتمہ ہی ہوتا ہے۔
تحریری فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ ماضی سے اطلاق صرف انہی قوانین کا ممکن ہے جو پہلے سے دیے گئے حقوق کو ختم نہ کرے۔ سپریم کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے نجی کمپنیوں کی اپیلیں جزوی طور پر منظور کر لیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔