(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - کہ دل ابھی بھرا نہیں

فرمان نواز  پير 14 جولائی 2014
روزانہ اخبار صبح کی بجائے شام سات بجے ملے تو کیا آپ اُس مہینے اخبار کا بل دینا پسند کریں گے؟ تو پھر ہم بجلی کا بل کیوں ادا کریں جو ہمیں ملتی ہی نہیں۔ فوٹو: فائل

روزانہ اخبار صبح کی بجائے شام سات بجے ملے تو کیا آپ اُس مہینے اخبار کا بل دینا پسند کریں گے؟ تو پھر ہم بجلی کا بل کیوں ادا کریں جو ہمیں ملتی ہی نہیں۔ فوٹو: فائل

کیا ہمیں ایسی سروس کے بل ادا کرنے چاہئے جو بروقت مہیا نہ کی جائے؟ اگر بات سمجھ نہ آئی ہو تو یہ مثال پڑھ لیں۔ فرض کریں آپ کو روزانہ اخبار صبح کی بجائے شام سات بجے ملے تو کیا آپ اُس مہینے اخبار کا بل دینا پسند کریں گے؟ اب یہی مثال واپڈا پر لاگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب سخت گرمی میں آپ رات کو سونے جائیں اور بجلی چلی جائے، جب صبح آپ کمرے میں ناشتہ کر رہے ہوں اور بجلی چلی جائے، جب آپ بچوں کو سکول کیلئے تیار کر رہے ہوں اور بجلی چلی جائے، جب دفتر سے واپس آئیں اور آرام کرنا چاہیں اور بجلی چلی جائے، جب آپ اخبار کیلئے آرٹیکل لکھنا چاہیں اور بجلی چلی جائے، یہ صرف میں نے ایک اُستاد اور جرنلسٹ کی زندگی کی مثالیں دی ہیں۔ 

اب اُن دکانداروں کا سوچا جائے جو لوگ کمپیوٹر کا کام کرتے ہیں یا پھر درزی کے کام کو ہی  دیکھ لیں۔ یہ لوگ روزی کیسے کماتے ہوں گے؟  اگر سارا پیسہ جنریٹر میں لگنے والے پیٹرول پر چلا جائے تو بچے کیا کھائیں گے؟اگر مچھروں سے خود کو اور بچوں کوبچانے کیلئے مجھے پندرہ سے بیس ہزار روپے ہر سال یوپی ایس اور ہیوی ڈیوٹی بیٹری پر خرچ کرنے پڑ رہے ہیں تو واپڈا کو بل دینے کی کیا ضرورت ہے؟

آئین میں بنیادی حقوق کی بات ہوئی ہے۔ کمانا اور زندہ رہنا انسانوں اور پاکستانیوں کے بنیادی حقوق ہیں۔ کیا آج ہمارا یہ حق نہیں بنتا ہے کہ چیف جسٹس سے سوال کریں کہ کیا ہمیں ایسی سروس کے بل ادا کرنے چاہئے جو نہ ہمارے کمانے کے کام آئے اور نہ رہنے کے؟

واپڈا کنزیومرز کے حقوق کیا ہیں؟ واپڈا کے کیا فرائض ہیں؟کنزیومرز اور واپڈا میں جو کنٹریکٹ ہوتا ہے اُس کی قانونی حیثیت کیا رہ جائے گی جب دوسری پارٹی (واپڈا) وعدہ نہ نبھا سکے؟
قارئین سے سوال ہے کہ اگر ٹیوب ویل آپریٹر رات کے دو بجے پانی فراہم کرنا شروع کر دے تو کس کس کی ٹینکی بھری ہوگی۔اگر موبائیل کمپنی کا نیٹ ورک عین موقع پر کام نہ کرے تو ہمارا اگلا قدم کیا ہوگا؟ اور واپڈا عین ضرورت کے وقت بجلی فراہم نہ کرے تو۔۔۔۔

میرا ذاتی خیا ل ہے کہ موجودہ لوڈ شیڈنگ آئین میں موجود بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور ایسی صورت میں بل ادا کرنا بھی تقریباََ غیر قانونی ہی ہوگا۔اگر کنزیومر بل ادا نہ کرے تو اُس کی بجلی منقطع کر دی جاتی ہےمگرجب واپڈا بجلی فراہم نہ کرے تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

میں نے کنزیومر لاز اِن پاکستان والیوم ٹو، NWFPکنزیومر پروٹیکشن ایکٹ 1997، اسلام آباد کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ 1995پڑھے لیکن میر ے سوال کا جواب کہیں نہیں ملا۔چونکہ گورنمنٹ خود ہی میجر سروس پرووائیڈر ہے اس لئے کنزیومر کے حقوق کا ایسے قوانین میں کوئی تحفظ نہیں کیا جاتا۔THE PAKISTAN WATER AND POWER DEVELOPMENT AUTHORITY ACT, 1958میں تو کنزیومر یا کسٹمر کا لفظ تک نہیں ہے۔

ہم ہروقت بجلی کے نرخوں میں اضافے کا سنتے ہیں،بلوں میں فیول چارجز کا کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا، تو کیا ایسی صورت میں اعلیٰ عدلیہ کا فرض نہیں بنتا کہ ہماری آواز سن لی جائے۔واپڈا اگر بغیر کسی ٹیکنیک مسئلے کے بجلی فراہم نہ کرے تو کیا ایسی صورت میں عوامی نمائندوں کا فرض نہیں بنتا کہ قانون ساز اداروں میں کنزیومر کے حقوق کیلئے آواز اُٹھائیں؟اعلیٰ عدلیہ کا ایک سوموٹو اس مسئلے میں کسٹمر کے حقوق کے حوالے سے انقلابی قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ ورنہ شاید ایسا وقت بھی آئے کہ واپڈا کے حوالے سے انسانی حقوق والوں کو آواز اُٹھانی پڑ جائے۔ وکلاء حضرات سے گزارش ہے کہ اگر کوئی فری میں میرا کیس لڑنا چاہے تو چیف جسٹس صاحب کے سامنے یہ سوال رکھے کہ آخر ہمیں اب کیا کرنا چاہیے؟

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔