دلّی کا کریم ہوٹل اور ہمارے دو بڑے ادیب!

رئیس فاطمہ  اتوار 23 ستمبر 2012
رئیس فاطمہ

رئیس فاطمہ

سدا سہاگن دلّی کا کریم ہوٹل بھی کتنا خوش نصیب ہے کہ پاکستان سے جانے والا ہر شخص وہاں کی شہرت سن کر کھانا کھانا چاہتا ہے۔

ہمارے محترم، معروف اور مقبول ادیب، شاعر اور کالم نگار عطاء الحق قاسمی جب صوفیوں کی سرزمین اور ہندوستان کی راجدھانی پہنچے تو انھوں نے بھی کریم ہوٹل کو شرفِ باریابی بخشا! لیکن وہاں انھیں وہ ذائقہ نہیں ملا جس کی شہرت سن کر عطا صاحب کے قدم اپنے میزبانوں اور چاہنے والوں کے ساتھ کریم ہوٹل کی جانب اٹھ گئے تھے۔

واپس آکر انھوں نے اپنے کالم میں اس بات کا ذکر کیا کہ خدا جانے کیوں کریم ہوٹل کی اتنی شہرت ہے جب کہ انھیں وہاں کا کھانا پسند نہیں آیا۔

پھر ہمارے محترم انتظار حسین نے اپنے کالم ’’ذائقے جو روپوش ہوگئے‘‘ میں بے چاری دلّی اور اس کے کھانے کے سدا بہار ذائقوں کا دفاع کیا ہے کہ میرٹھ کون سا دلّی سے ہزاروں میل دور ہے۔

انھوں نے سچ ہی تو کہا ہے کہ ’’جامع مسجد کی سیڑھیوں پر یا دلّی کے کسی کوچے میں قورمے کی دیگ کھلتی تھی اور بریانی کی دیگ سے ڈھکن اٹھایا جاتا تھا تو اس کی مہک میرٹھ اور ہاپوڑ تک پہنچتی تھی۔‘‘ مگر اب وہ دلّی کہاں اور اس کے ذائقے کہاں؟ ہر چیز اور ہر ذائقہ کمرشل ازم کا شکار ہوگیا۔

لیکن جہاں تک عطاء الحق قاسمی کی رائے ہے تو میں پوری طرح اس سے متفق ہوں۔ صرف کریم ہوٹل کے کھانوں کے حوالے سے۔ اور میں نے اس کا ذکر بھی اپنے پہلے سفرنامے میں کیا تھا۔

2005 میں جب ہم پہلی بار بھارت جارہے تھے تو کئی لوگوں نے تاکید کی کہ دلّی جائو تو کھانا کریم ہوٹل میں کھانا۔ اتفاق سے پہلے ہی دن ہمارے میزبان وہاں لے گئے۔

قورمہ اور سیخ کباب واقعی بہت اچھے تھے۔ لیکن قورمے میں سے وہ مخصوص مہک نہیں آرہی تھی جو میری والدہ اور بڑی بہن کے ہاتھ کے قورمے میں سے آتی تھی۔ وجہ سمجھ میں نہیں آئی۔ ہمارے میاں حسب عادت بولے کہ ’’تمہارا معیار چائے اور کھانوں کے معاملے میں بڑا سخت ہے۔

مجھے تو سب کچھ بہت اچھا لگا۔‘‘ اب ہم ان سے کیا کہتے کہ ذائقے بھی تہذیب کی طرح نسل در نسل منتقل ہوتے ہیں۔ گویا یہ بھی وراثتی سلسلہ ہے۔

اگلے دن ہم نے سوچا کہ پہلے دلّی کی اس نہاری کی بازیافت کی جائے جس کا ذکر شاہد احمد دہلوی کی پربہار تحریر میں ملتا ہے یا پھر میری امی کے ہاتھوں میں تھا۔ میاں صاحب نے سیدھا لے جا کر کریم ہوٹل بٹھادیا اور نہاری لانے کا حکم دیا۔

اب جو نہاری سامنے آئی تو یقین جانیے ایسا لگا جیسے رات کے بچے ہوئے سالن کا ملغوبہ جس میں روغن نام کو نہیں۔ ہم نے بیرے سے پوچھا۔

یہ نہاری ہے؟ بولا، ’’جی! یہ ہماری خاص ڈش ہے جسے پورے پاکستان اور ہندوستان ہی نہیں ہر جگہ سے لوگ کھانے آتے ہیں۔‘‘ ہم نے جل کر کہا اگر یہ نہاری ہے تو وہ لوگ جانتے ہی نہیں کہ نہاری کسے کہتے ہیں۔

ہم نے تو بالکل کھانے سے انکار کردیا البتہ قاضی صاحب نے اس بیرے کا دل رکھنے کو دو لقمے لیے اور پلیٹ کھسکادی۔ ہم نے پیسے اداکیے اور باہر نکل آئے۔ توبہ توبہ اس ملغوبے کو کریم ہوٹل والے نہاری کہہ رہے ہیں۔

اس بات کا ذکر ہم نے اپنے ہوٹل میں کیا تو اس کے مالک اکرم نے بتایا کہ اگر واقعی دلّی کی اصلی نہاری کھانی ہے تو مٹیا محل میں صبح صبح ایک شخص ایک دکان کے آگے دیگ لے کر بیٹھتا ہے، وہ کھائیے۔ لیکن وہ نہاری نصیب نہ ہوئی کہ رش بہت ہوتا ہے اور بہت جلد ختم بھی ہوجاتی ہے۔ کریم ہوٹل کے مقابلے میں اس سے متصل جواہر ریسٹورنٹ کے کھانے زیادہ بہتر تھے۔ ہم نے دوبارہ بھول کر بھی کریم ہوٹل میں قدم نہیں رکھا۔ وہ تو سیّد محمد جعفری نے حقیقت کھول دی یہ کہہ کر ع:

جسے سمجھے تھے اننّاس وہ عورت نکلی

کریم اور جواہر ہوٹل کے سیخ کبابوں سے زیادہ لذیذ کباب ہم نے جامع مسجد کی سیڑھیوں کے سامنے سے کھائے۔ بیس بائیس سالہ لڑکا جو یہ کباب بنارہا تھا۔ وہ اپنے گاہکوں کو بتادیتا تھا کہ کس دن وہ بکرے کے کباب بناتا ہے۔

2009 میں جب دوبارہ دلّی گئے تو کریم ہوٹل کا رش پہلے سے بہت بڑھ گیا تھا اور آس پاس کی جگہ بھی خرید لی گئی تھی۔ لیکن اس کے باوجود لوگوں کو گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا تھا کہ کب جگہ خالی ہو اور وہ بیٹھیں۔ قاضی صاحب کو کسی نے احمد آباد میں بتایا تھا کہ کریم کی جیسی چکن روسٹ اور چکن فرائی کوئی دوسرا نہیں بناتا۔

تب ہم نے اپنے لیے سیخ کباب منگائے کیونکہ چکن ہمیں بالکل پسند نہیں بس مارے باندھے چکن بروسٹ کھالیتے ہیں۔ قاضی صاحب کو چکن پسند آئی، لیکن ہم نے 2009 میں جب جواہر ریسٹورنٹ کا رخ کیا تو وہاں کی بھی دنیا بدل چکی تھی۔ 2005 میں جو یخنی والی مغلئی بریانی کسی حد تک ہم کو اچھی لگی تھی، وہ اب سادہ سے بگھارے چاول لگ رہے تھے۔

سچ پوچھیے تو یہ بات ہماری فہم سے بھی بالاتر تھی کہ لوگ اس ہوٹل کے کھانوں پر اتنا مرتے کیوں ہیں۔ شاید یہ کریم ہوٹل والے کی لابنگ اور پبلسٹی کا کمال ہے اور کچھ نہیں۔ ہم نے جب اس بات کا تذکرہ غالب اکیڈمی کے عقیل صاحب اور وہاں موجود چند دیگر مقامی ادبی شخصیات سے کیا تو ان میں سے ایک بولے، ’’بی بی سارے نہاری قورمے بریانی اور شب دیگ پکانے والے تو پاکستان چلے گئے۔

اب آپ کو وہ اصلی دلّی کا ذائقہ کہاں ملے گا۔‘‘ انھوں نے سچ ہی کہا تھا، دلّی صرف ایک تہذیب ہی نہیں ایک معیار کی سند بھی ہے۔ جب ہی تو ہر ایرا غیرا ہوٹل کے نام میں دہلی کا لاحقہ ٹانک دیتا ہے۔ کراچی میں دو ہوٹل ایسے تھے جو اصلی دلّی کے خاندانی باورچیوں کے تھے۔ ایک دہلی مسلم ہوٹل اور دوسرا دہلی کالی ہوٹل۔

لیکن اصل مالکوں کے مرنے کے بعد اولاد سے یہ کام نبھ نہ سکا ۔ ہم انتظار صاحب کی بات سے بھی سوفیصد متفق ہیں۔ ان کا فرمانا بجا ہے کہ ’’جب کسی تہذیب کا بستر لپٹتا ہے تو اس کے رنگ، اس کی مہک اور اس کے ذائقے اپنی ناقدری دیکھ کر جہاں تہاں مہذب گھروں میں جاچھپتے ہیں، انھیں بازاروں میں مت ڈھونڈیے۔‘‘

ہم دلّی والے ہیں اور دلّی والے قورمے میں زعفران ضرور ڈالتے ہیں۔ یہی زعفران مغلئی بریانی کا لازمی جزو ہے کہ جب ڈھکنا کھلتا ہے تو محلے بھر میں مہک پھیل جاتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اب نہ وہ اصلی گھی ہے، نہ بکرے اور گائے کا وہ گوشت جس کی بوٹیوں کو شاہد احمد دہلوی اور اشرف صبوحی نے ’’برفی کے ٹکڑے‘‘ لکھا ہے۔

سل بٹہ اب ناپید ہے۔ تانبے کی دیگچیاں آثارِ قدیمہ ہوگئیں۔ دلّی اور لکھنؤ کے باورچیوں سے (خاندانی) ان کے کھانوں کی لذت کا راز پوچھیں تو سب سے پہلے وہ تانبے اور پیتل کے قلعی دار برتن کی بات کریں گے۔ میری والدہ ہمیشہ کھانا تانبے کے قلعی دار دیگچیوں میں پکاتی تھیں۔ اب تو قلعی گر ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔ اسی لیے اب دلّی والوں کے گھروں میں بھی تانبے کے برتن نہ رہے۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے دلّی کی تہذیب کو آنکھوں سے دیکھا ہی نہیں بلکہ اس کی گود میں پرورش پائی اور اسے کمرشل ازم کا شکار ہوتے بھی دیکھا۔ لیکن ہماری زبانیں چونکہ ان ذائقوں سے آشنا ہیں، اس لیے ہمیں بڑے سے بڑے ہوٹل کے کھانے بدمزا اور بے ذائقہ لگتے ہیں۔ ہمارے ہاں کی سل پہ پسی ہوئی املی اور پودینے کی چٹنی بھی ایسی ہوتی ہے کہ سالن کی ضرورت محسوس نہ ہو۔

میں نے اب بھی سل بٹے کو سنبھال کر رکھا ہے کہ کوفتے، شامی کباب اور چٹنی کا ذائقہ سل پر پیسنے ہی سے آتا ہے۔ دلّی والوں کے بریانی، قورمے اور کبابوں کے علاوہ سادہ کھانے جیسے کڑھی، دال گوشت، آلو اور دال بھرے پراٹھے، بیسن کی روٹی، لہسن اور لال مرچ کی چٹنی، دہی بڑے، ماش کی دال، پودینے ادراک اور پیاز کے بگھار کے ساتھ، نورتن ہانڈی، بینگن کا بھرتا اور نہ جانے کیا کیا۔

یہ سب آپ کو ملے گا ان دلّی والوں کے گھروں میں جہاں کی بیٹیوں نے سگھڑ مائوں اور دادیوں کی گود میں پرورش پائی، جو 24 کیرٹ کا سونا پہننے کے عادی ہوں، انھیں نقلی زیورات نہیں بھاتے، خواہ دیکھنے میں کتنے ہی خوبصورت کیوں نہ ہوں۔

اسی لیے مجھے بھی قاسمی صاحب کی طرح کریم ہوٹل کے کھانے بالکل پسند نہیں آئے اور اسی پر کیا منحصر مجھے تو کبھی کسی بھی فائیو اسٹار ہوٹل کے کھانے پسند نہیں آتے، البتہ میٹھے میں انھیں کچھ نمبر دیے جاسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔