ابھی بھی وقت ہے

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 16 جولائی 2014

امریکی صدر رونالڈ ریگن 30 مارچ 1981 کو پر اعتماد چہر ے کے ساتھ وہائٹ ہائوس سے نکلے۔ کاروں کا قافلہ ان کو لے کر واشنگٹن کے ہلٹن ہوٹل کی طرف روانہ ہوا۔ پروگرام کے مطابق انھوں نے ہوٹل کے شاندار ہال میں ایک تقریر کی تحسین و آفرین کی فضا میں ان کی تقریر ختم ہوئی وہ آدمیوں کے ہجوم میں ہنستے ہوئے چہرے کے ساتھ باہر آئے وہ اپنی بلٹ پروف لیموزین سے صرف چند قدم کے فاصلے پر تھے کہ اچانک باہر کھڑے ہوئے مجمعے کی طرف سے گولیوں کی آوازیں آنے لگیں ایک نوجوان جان ہنکلے نے دو سیکنڈ کے اندر چھ فائر کیے ایک گولی مسٹر صدر ریگن کے سینے پر لگی وہ خون میں لت پت ہوگئے اور فوراً انھیں اسپتال لے جایا گیا اچانک گولی لگنے کے بعد صدر امریکا ریگن کا جو حال ہوا وہ اے پی کا رپورٹر ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔

’’مسٹر ریگن جیسے سن ہو گئے مسکراہٹ ان کے ہونٹوں سے غائب ہو گئی‘‘ یہ واقعہ اس صورتحال کی ایک تصویر ہے جو موت کے حملے کے وقت اچانک ہر آدمی پر طاری ہو گی۔ ایسی اچانک صورتحال سے پہلے ہر آدمی اپنے آپ کو آزاد سمجھ رہا ہوتا ہے وہ نڈر ہو کر جو چاہے بولتا ہے اور جو چاہے کر گزرتا ہے۔ اپنے آپ کو لوہے کا آدمی سمجھ رہا ہوتا ہے کہ جس پر کوئی مصیبت کوئی تکلیف کوئی دکھ و غم کبھی اثر انداز ہی نہیں ہوسکتا۔ اور نہ ہی اس پر کبھی برا وقت آ سکتا ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ میں ہر طرح سے محفوظ ہوں۔ اور کسی کو اگر اقتدار حاصل ہو جائے تو وہ اپنے اقتدار کو اس طرح استعمال کرتا ہے جیسے اس کا اقتدار کبھی چھننے والا ہی نہیں ہے۔

بالکل فرانس کے لوئی یازدہم کی طرح جو ساٹھ سال تک بادشاہ کی حیثیت سے زندہ رہا اور وہ مرنا نہیں چاہتا تھا وہ آخری عمر میں ایک بند قلعہ میں رہنے لگا جہاں بہت کم لوگوں کو داخلے کی اجازت تھی۔ قلعے کے چاروں طرف گہری خندقیں کھود دی گئی تھیں تا کہ کوئی اس کے قریب نہ پہنچ سکے۔ قلعے کے دیواروں پر ہروقت چالیس تیر انداز بیٹھے رہتے تھے اس کے علاوہ چالیس گھڑ سوار دن رات اس کے چاروں طرف گشت کرتے رہتے تھے۔

بادشاہ کا حکم تھا کہ جو بھی بلا اجازت قلعے کے اندر آنے کی کوشش کرے اس کو پکڑ کر اسی وقت قتل کر دیا جائے۔ قلعے کے اندر بادشاہ کے لیے ہر قسم کا عیش و عشرت کا سامان مہیا تھا بادشاہ کو زندہ رہنے کا اتنا شوق تھا کہ اس نے حکم دے کھا تھا کہ موت کا لفظ اس کے سامنے ہرگز نہ بولا جائے ایک ماہر ڈاکٹر ہر وقت بادشاہ کی خدمت میں حاضر رہتا تھا تاہم ان میں سے کوئی چیز بادشاہ کو بڑھا پے اور کمزوری سے نہ بچا سکی۔

آخری عمر میں وہ اتنا کمزور ہو چکا تھا کہ مشکل سے وہ کھانے کی کوئی چیز اٹھا کر اپنے منہ میں ڈال سکتا تھا اس کے باوجود اس کے جینے کی خواہش وہم کی حد تک پہنچ چکی تھی اس کو کسی نے بتایا کہ کچھوے پانچ سو سال تک جیتے ہیں اور وہ زندگی بخش خواص کے مالک ہوتے ہیں چنانچہ اس نے کچھ لوگوں کو تین بحری جہاز دے کر جرمنی اور اٹلی روانہ کیا تا کہ وہ وہاں سے اس کے لیے بحری کچھو ے لے آئیں یہ کچھوے اس کے قریب ایک بڑے حوض میں رکھے گئے تا کہ اس کو زندگی کا فیضان عطا کر سکیں آخر کار بادشا ہ لوئی پر فالج کا حملہ ہوا اور 30 اگست 1483 کو موت نے اس پر قابو پا لیا اس کی زبان سے جو آخری الفاظ مرنے سے پہلے نکلے وہ یہ تھے ’’ میں اتنا بیمار تو نہیں ہوں، جتنا آپ لوگ خیال کرتے ہیں۔‘‘

نپولین بو نا پارٹ کے آخری احساسات یہ تھے میں دو چیزوں کا بھوکا تھا ایک حکومت اور دوسری محبت۔ حکومت مجھے ملی مگر وہ میرا ساتھ نہ دے سکی محبت کو میں نے بہت تلاش کیا مگر میں نے اسے کبھی نہیں پایا۔ تجربے اور مشاہدے سے پاکستان میں یہ بات بار بار ثابت ہو چکی ہے کہ ہمارا ہر بڑا آدمی ہر اعلیٰ عہدیدار اور ہمارے سیاست دان دو چیزوں کا خاتمہ کسی بھی صورت اور حالت میں نہیں چاہتے ہیں ایک زندگی کا اور دوسری حکومت کا۔

زندگی اور حکومت بچانے کے لیے وہ منت سماجت، خوشامد، چمچہ گیری سے لے کر پیروں کے دروازوں تک ہر وہ حربہ آزماتے ہیں جسے کوئی مہذب، سمجھ دار، عقل و دانش رکھنے والا، خدا پر یقین اور بھروسے رکھنے والا انتہائی معیوب سمجھتا ہے۔ دنیا کے تمام جمہوری اور مہذب معاشروں میں زندگی بسر کرنے اور حکومت کرنے کے اصول متعین ہیں لوگ آتے ہیں اور خدا نے ان کا جو کردار متعین کیا ہے ایمانداری، دیانت داری کے ساتھ ادا کر کے خاموشی سے چلے جاتے ہیں۔

اور ان کے جانے کا کسی کو احساس تک نہیں ہوتا ہے وہ سب اپنے آپ کو سما ج کے بنا ئے گئے اصولوں اور قانون کا پابند سمجھتے ہیں نہ کبھی اصول اور قانون توڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے اصول اور قانون بنانے اور انھیں لاگو کرنے کی کو شش کرتے ہیں، سالہا سال سے اسی طرح سے ان کے سماج آگے بڑھ رہے ہیں کیونکہ انھیں اس بات پر یقین ہے کہ دنیا میں کسی کے پاس نہ تو کوئی اختیار ہے اور نہ کوئی شخص کسی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ ہی نقصان نہ ہی کوئی کسی کو زندگی دے سکتا ہے اور نہ ہی موت۔

دنیا ایک قسم کا خدائی اسٹیج ہے یہاں مختلف حالات پیدا کر کے خدا ہر ایک کو یہ موقع دیتا ہے کہ اس کے اندر جو کچھ ہے اس کو وہ علی الاعلان ظاہر کر دے۔ لیکن اس کے بالکل برعکس ہمارے ہاں انسان ساری زندگی اپنی خواہشوں کے پیچھے دوڑتا رہتا ہے لیکن آخر میں اس کو احساس ہو جاتا ہے کہ ان کی کوئی بھی حقیقت نہ تھی اور وہ ساری عمر صرف سایوں کا پیچھا کرتا رہا ہے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے اختیار، طاقت اور دولت ایسی چیزیں ہیں جن کے ملنے سے لوگ بدلتے نہیں بلکہ بے نقاب ہو جاتے ہیں۔ اسی اختیار، طاقت اور دولت کی بھوک نے ہمارے سماج کو گلے سڑے، بدبودار اور بیمار سماج میں تبدیل کر دیا ہے ظاہر ہے بیمار سماج صحت مند آدمی کو جنم نہیں دے سکتا بلکہ وہ ہر صحت مند آدمی کو بھی بیمار بنا دیتا ہے اور پھر وہ بیمار آدمی اپنے جراثیم سماج میں پھیلانا شروع کر دیتے ہیں۔

ایک بات تو اچھی طرح سے اختیار، حکومت اور طاقت والوں کو ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ جس طرح سے تم نے لوگوں کے چین کو لوٹا ہے ان لٹنے والوں کی آہیں، صدائیں اور بددعائیں تمہارے چین کو بھی لوٹ لیں گی تم بھی چین اور سکون کے لیے تڑپتے پھرو گے یاد رکھو آہ جو دل سے نکلتی ہے کبھی خالی نہیں جاتی۔ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ مسلح گارڈ اور پولیس موبائل آگے پیچھے رکھ کے تم سماج میں پھیلے زہریلے جراثیموں کے وار سے بچ جائو گے یا تم اور تمہارے اہل خانہ ہمیشہ محفوظ رہیں گے اور تم اپنے کیے کی سزا یہیں نہیں بھگتو گے تو تم ایک اور عبرتنا ک غلطی کے مرتکب ہو رہے ہو۔

یاد رکھو خدا کی لاٹھی بے آواز ہے لاٹھی لگنے کے کا فی عرصے بعد اس کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوتے ہیں انسان کی طاقت اور بساط اتنی بھی نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی سے سانس بھی لے سکے۔ اور تم اپنے آپ کو زمینی خدا سمجھے بیٹھے ہو۔ تمہارے کرتو توں کی وجہ سے دنیا بھر کی تمام بیماریاں تمہیں لاحق ہو چکی ہیں بلڈ پریشر اور عارضہ قلب کے تم مریض ہو بے خوابی کا تم شکار ہو تم نہ کچھ کھا سکتے ہو نہ پی سکتے ہو نہ سو سکتے ہو نہ جا گ سکتے ہو نہ دوڑ سکتے ہو نہ بیٹھ سکتے ہو نہ چل سکتے ہو۔ اور نہ ہی تم اپنے مسلح گارڈ کے بغیر اکیلے گھر یا آفس سے نکل سکتے ہو۔ جلد یا بدیر زندگی، حکومت، اختیار، طاقت اور دولت سب کچھ ختم ہو جانا ہے۔ پھر کس منہ سے خدا کا سامنا کر پائو گے۔ سدھر نے کے لیے ابھی بھی وقت ہے۔ ایسا نہ ہو کہ کہیں بہت دیر ہو جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔