کیسی محبت، کہاں کا عشق…

شیریں حیدر  اتوار 23 ستمبر 2012
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

دن چھوٹا لگ رہا تھا کہ جمعے کے روز کے چھٹی کے اعلان کی وجہ سے پیر کو شروع ہونے والے امتحانات کا کام جمعے کی بجائے جمعرات کوکرنا تھا…پیغام آیا کہ باہر حالات خراب ہو رہے ہیں۔

میں نے تصدیق کے لیے اپنے بھائی صاحب سے رابطہ کیا، معلوم ہوا کہ باہر نکلنا خطرے سے خالی نہیں کیونکہ ایک جم غفیر دیے گئے وقت سے پہلے ہی باہر نکل پڑا ہے۔

فوراً کام کو بند کر کے ایک ایک کر کے اس تمام اسٹاف کو باہر نکالا جو کہ قریب رہتا تھا اور اپنے گھروں کو بحفاظت پہنچ سکتا تھا… خطرہ ہم ان چند لوگوں کے لیے تھا جنھیں تقریبا ایک گھنٹے کا راستہ طے کر کے اور سپر ہائی وے یا ریڈ زون سے گزرنا پڑتا ہے… ہم پھنس چکے تھے!!!

اسکول سے چھٹی کا وقت لگ بھگ اڑھائی بجے تھا، تین، چار، پانچ… اور پھر چھ بج گئے تھے، ٹیلی وژن پر ہم مسلسل دیکھ رہے تھے کہ ہنگامہ گھٹنے کی بجائے بڑھتا جا رہا تھا۔

وہ عمارت جس میں کام کرتے ہوئے کبھی کسی قسم کے خوف کا احساس تک نہیں ہوتا تھا، اس وقت اندھیرا بڑھنے کے ساتھ ساتھ خوف بھی بڑھ رہا تھا!!!! کیا ہو گا؟ رات کیسے گزرے گی؟ رات کی تاریکی میں از خود خوف ہوتا ہے جو ہمارا گھیرا کر رہا تھا۔

بالآخر سنا کہ فو ج کو طلب کر لیا گیا ہے اور رینجرز کی نفری کو بڑھا دیا گیا ہے تو سوچا کہ ’’رسک‘‘ لیا جائے…ہر روز پچاس منٹ میں طے ہونے والا فاصلہ اس روز ڈھائی گھنٹے میں طے ہوا، فضا میں ٹائروں کے جلنے کی بو محسوس ہو رہی تھی، کوشش کر کے خطرے والے تمام علاقوں کو بائی پاس کیا اور معمول کا راستہ طویل تر ہو گیا تھا۔

گھر پہنچ کر اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا… جب حواس بحال ہوئے تو خود سے پوچھا کہ کیا ہو رہا ہے؟ یہ کیا چکر ہے؟ عشق رسول کے لیے منعقد کی جانے والی پر امن ریلیاں، جو کہ جمعہ کو ہونا تھیں وہ ایک روز قبل کیوں شروع ہو گئیں اور ان کا امن کس نے ہائی جیک کر لیا؟ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مابین حسب معمو ل سیاست چمکانے کا ایک اور موقع آ گیا تھا۔

’’فوج طلب کر لی گئی ہے…‘‘ اس روز جونہی ٹیلی وژن پر پٹی چلنا شروع ہوئی تو ایک آواز آئی تھی، ’’کاش اب مارشل لاء لگ جائے…‘‘ پڑھے لکھے لوگوں کے گروہ میں سے کسی کے منہ سے ایسی بات سن کر حیرت بھی ہوئی مگر ایسا ہونا کوئی نئی بات نہیں۔

جب بھی حالات اس نہج کو پہنچتے ہیں، فوج کو اسی طرح دعوت دے کر نہ صرف انھیں عنان حکومت سنبھالنے کو کہا جاتا ہے بلکہ ہر حکومت کی طرف سے حالات اس حد تک اور اس سمت میں لے جائے جاتے ہیں۔ ایسا ہونے سے نہ صرف ملک کا نظام متاثر ہوتا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر فوج کا اپنا نظام متاثر ہوتا ہے۔

فیس بک پر میں نے لکھا کہ بہت برے پھنس گئے تھے، وضاحت کی کہ عشق رسول کے نام پر منعقد ہونے والی ریلیاں ہمارے لیے خطرے کا باعث بن گئیں۔ اس پر کسی نے بہت ناراضی کا اظہار کیا کہ میں نے ایسا کیوں کہا۔

ہم میں سے کون نہیں جانتا کہ ہمارے نبی پاک ﷺ میں کس حد تک صبر اور برداشت تھی… کیا ہم ان سے محبت اور عشق کا دعوی کرتے اور ان کی محبت میں ایسی ریلیاں نکالتے ہیں جو عام شہریوں کی زندگیوں کو مشکل میں ڈال دیں؟

عین اس وقت جب کہ اسکولوں، کالجوں اور بعض دفاتر میں چھٹی کا وقت تھا تو بپھرے ہوئے انسانوں کا یہ سیلاب اچانک سڑکوں پر آن پہنچا اور اپنے سامنے آنے والی ہر شے کو روندتا ہوا آگے کی طرف بڑھنے لگا۔ انھیں یہ احساس نہ تھا کہ جن کی گاڑیوں، دکانوں اور املاک کو وہ نقصان پہنچا رہے تھے ان کے دل بھی حب رسول ﷺ سے اتنے ہی منور ہیں۔

وہ بھی اسی طرح اس بات پرغم و غصے میں ہیں مگر احتجاج کرنے کا یہ کون سا وصف ہے کہ ان لوگوں کو تکلیف پہنچائی جائے… کیا ان میں سے کوئی امریکی شہری تھا یا اس نے اپنی گاڑی پر اس فلم کا پوسٹر لگا رکھا تھا۔

ہمارے ایک جاننے والے ہیں جن کی گاڑی کو یونہی راہ جاتے ڈنڈوں سے توڑ پھوڑ دیا گیا، خود ان کی اور ان کی بیگم کی بچت ہو گئی مگر ان کا سوال ہے کہ ان کا اس وقت اس سڑک پر موجود ہونا کون سا جرم ٹھہرا؟ ان کی گاڑی کی توڑ پھوڑ کا ذمے کون لے گا اور اس کی مرمت کے چالیس پچاس ہزار کون دے گا؟

کیا انھوں نے وہ فلم دیکھی یا اس کو صحیح سمجھتے ہیں؟ ہماری نوجوان نسل اس وقت تو ویسے ہی misguided missiles کی مانند ہے کہ جن کا کوئی قبلہ ہے نہ کوئی سمت… انھیں بسوں میں بھر بھر کر لا کر اسلام آباد کی سڑکوں پر جانے کیا کہہ کر چھوڑ دیا گیا کہ وہ ہر ہر بات کا سارا غصہ ہر راہ چلتے پر نکالنے لگے… عشق رسول ﷺ کے نام پر توڑ پھوڑ کرنے والوں، امریکا کو گالیاں دینے والوں، امریکا کا پرچم جلانے والوں اور پرچم کو جوتے مارنے والوں میںسے کتنے ہیں جو اب بھی امریکا جانے کے لیے مرے جا رہے ہوں گے؟

اگر وہ خود نہیں تو ان کے کئی عزیز اور رشتہ دار ڈالر کمانے کی خاطر امریکا میں رہ رہے ہوں گے۔اس فلم کے بنانے والوں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے… اس میں کوئی شبہ ہے نہ کوئی دو رائے۔ مگر اس طرح کی توڑ پھوڑ تو ہمارا اپنا ہی نقصان ہے، یہی غالبا امریکا بھی چاہتا ہے۔

اصل طریقہ تو یہی تھا کہ اس وقت عالم اسلام متحد ہو کر امریکا سے مطالبہ کرے کہ اس فلم کے بنانیوالوں کو ہمارے حوالے کر دیا جائے… اگر ڈاکٹر عافیہ کو بغیر کسی جرم کے اتنی سزا دی جا سکتی ہے تو اس فلم کے بنانیوالے عالم اسلام کے ایسے مجرم ہیں جنھیں ہرگز معاف نہیں کیا جا سکتا مگر ہم تو وہ قوم ہیں کہ جن کی جیب میں سے ریمنڈ ڈیوس کو (جرم ثابت ہوجانے کے بعد بھی) نکال کر لے جایا گیا۔

ہمارا زور خود پر ہی چلتا ہے… ہم اپنی بے بسی کا، اپنی پسماندگی کا، اپنے مسائل کا، اپنی غربت کا، اپنی بے روز گاری کا، اپنے استحصال کا، اپنے ملک میں روزانہ کی بنیادوں پر بڑھنے والی مہنگائی کا، اپنے بے ہودہ رسوم رواج کا، اپنی بے مقصد زندگیوں کا سارا غصہ، جب بھی وقت ملے، اسی طرح دور کرتے ہیں۔

توڑ پھوڑ کر کے، اپنا مزید نقصان کر کے، اپنے جیسے محنت کشوں کی دکانیں توڑ کر، پولیس کی وردی پہن کر اپنے آقاؤں کے حکم کی تعمیل کرنے والے لوگوں کو مار کر… راہ جاتے لوگوں کی گاڑیاں توڑ کر… آمد و رفت کے تمام راستے مسدود کر کے… خواہ کوئی کتنا ہی مجبور ہو، یا بیمار ہو، کسی کی فلائٹ مس ہو جائے، کسی کا بچہ رکشے میں پیدا ہو جائے… کسی کی موت ایمبولینس میں سسک سسک کر ہوجائے…

کیا ہمارے نبی پاک ﷺ کا یہی طریقہ تھا؟

کیسی محبت اور کہاں کا عشق؟ ہم تو اس رسول ﷺ سے محبت کا جھوٹا دعوی کرتے ہیں جس نے کبھی کسی چیونٹی کو بھی اپنے پاؤں تلے نہ مسلا ہو گا۔ آپ ﷺ نے تو اس عورت کے گھر جا کر اس کی عیادت کی اور خیریت دریافت کی تھی جو ہر روز اپنے گھر کا سارا کوڑا کرکٹ آپ ﷺ پر پھینکتی تھی… آپ ﷺ نے تو کبھی اس کو برا بھلا کہا نہ اس کے لیے بد دعا کی۔

آپ ﷺ نے تو اپنے دشمنوں سے بھی نرمی اور حلم کا برتاؤ کیا تھا، اپنی نرم گفتگو اور دھیمے لہجے سے بڑے بڑوں کو رام کیا۔ کیا یہی سنت نبوی ﷺ کی تقلید کا انداز ہے؟

کیا آسانی سے ہم اس جال میں پھنس جاتے ہیں جو ہمارے لیے دشمنوں کی طرف سے پھیلایا جاتا ہے!!!حکمران اور اپوزیشن اپنی اپنی سیاسی دکانیں چمکانے میں مصروف ہیں… حکمران دیار غیر سے ہمیں پر امن رہنے کی تلقین کر رہے ہیں مگر ’’گھر والے گھر نہیں، ہم کو کسی کا ڈر نہیں‘‘ کے مصداق ہم ان کی بات کیوں کر مانیں؟ اس کے لیے انھیں واپس آ کر ہمیں سمجھانا پڑے گا، مگر اس وقت ملک اہم نہیں۔

اس سے اہم کئی اور معاملات ہیں جو انھیں نمٹانا ہیں، آیندہ کے لیے dictationبھی لینا ہے۔ ملک کا کیا ہے، ان کی بلا سے!! اسے تو یوں بھی سب نے تجربہ گاہ بنا رکھا ہے، جب تجربہ ناکام ہو جاتا ہے تو اس ملک کو چھوڑ کر کہیں اور مورچہ لگا لیا جاتا ہے اور باہر سے ہمارے کٹھ پتلی حکمرانوں کی ڈوریاں ہلانے کے علاوہ عوام کو بے وقوف بنانے کا کام کیا جاتا ہے…ہم تو ٹھہرے مستند بے وقوف… جو ہمیں کہتا ہے کوئی تمہارا کان کاٹ کر لے گیا ہے۔

ہم بغیر سوچے سمجھے اس کے پیچھے بھاگ پڑتے ہیں اور پندرہ منٹ کے بعد ہانپتے ہوئے رک کر کھجانے لگتے ہیں تو ہاتھ کان پر جا کر رک جاتا ہے… کچھ سوچنا شروع کر دیتے ہیں، مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ چند منٹ پہلے بھاگ کیوں رہے تھے؟؟؟؟ امریکا بہادر اپنے مفادات میں اس قدر کورا ہے کہ اس کی بلا سے ہم مریں، کٹیں اور دوسروں کو ماریں… اسے کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔

اپنے سفارت خانے کے ذریعے اس روز بار بار یہ پیغام نشر کرواتا رہا کہ اس فلم کے بنانے میں امریکی حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے… مانا!!! مگر جب یہ فلم بن چکی ہے اور اسے یو ٹیوب پر ڈالنے کی گستاخی بھی کی جا چکی ہے… کیا امریکا نے اعلان کیا ہے کہ اس فلم کو تلف کر دیا جائے گا یا اس فلم کے بنانے والوں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی کہ اس نے مسلمانان عالم کے جذبات کو بھڑکا دیا ہے…

وہ مسلمان جو امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کے اتحادی ہیں؟ اگر ایسا نہیں ہوا تو کیا ہم پھر بھی امریکا کے اتحادی بنے رہنے پر مجبور ہیں؟؟؟؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔