سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں چھپائی رقوم

نصرت جاوید  جمعرات 17 جولائی 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

میری نظر میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے جنرل مشرف کے ساتھ ڈیل والا جو بیان دیا تھا اس کا مقصد میاں صاحب کو صرف اتنا سمجھانا تھا کہ سابق فوجی صدر کے ساتھ وہی سلوک کریں جو ’’بادشاہ، بادشاہوں سے کیا کرتے ہیں‘‘۔ میری رائے سے متفق ہونے میں اگر آپ کو مشکل پیش آرہی ہے تو ان کے مکمل بیان کو ایک بار پھر غور سے پڑھ لیں۔ اس میں گیلانی صاحب نے اعتراف یہ بھی کیا ہے کہ پاکستان میں سب سے کمزور ادارہ پارلیمنٹ ہے۔

پارلیمانی نظام میں کوئی بھی وزیر اعظم اپنے لیے سیاسی قوت منتخب پارلیمان سے حاصل کرتا ہے۔ گیلانی صاحب کو اپنی پارلیمان میں اکثریت حاصل تھی۔ وزیر اعظم منتخب ہوجانے کے بعد انھوں نے اس وقت کی قومی اسمبلی میں موجود تمام سیاسی جماعتوں سے اعتماد کا متفقہ ووٹ بھی حاصل کیا تھا۔

یہ اعتماد مگر اس وقت ان کے کوئی کام نہ آیا جب افتخار چوہدری کی سپریم کورٹ نے گیلانی صاحب کو سوئٹزرلینڈ کی حکومت کو آصف علی زرداری کے مبینہ طور پر اس ملک کے بینکوں میں چھپائے نجانے کتنے کروڑ ڈالر کا سراغ لگانے کے لیے ایک چٹھی نہ لکھنے کے جرم میں فارغ کردیا۔ ان کے بعد آنے والے راجہ پرویز اشرف کو یہ چٹھی لکھنا ہی پڑی۔ بدقسمتی ہمارے اپنے تئیں ہمہ وقت مستعد بنے میڈیا کی یہ بھی ہے کہ وہ اب اس چٹھی لکھے جانے کے بعد ہونے والے واقعات سے ہمیں آگاہ نہیں رکھ رہے۔

گیلانی صاحب نے چٹھی نہ لکھنے کے لیے اس استثنیٰ کا سہارا لیا تھا جو ہمارے ’’متفقہ طور پر منظور کردہ آئین‘‘ نے ایک صدر کو فراہم کیا ہوا ہے۔ افتخار چوہدری کے زمانے میں اس استثنیٰ کو غیر اسلامی قرار دے کر واویلا مچاتے اینکر حضرات کو پتہ نہیں کیوں اب یاد ہی نہیں رہا کہ آصف علی زرداری کئی مہینے ہوئے اس ملک کے صدر نہیں رہے۔ اب تو سوئس بینکوں میں مبینہ طور پر چھپائے ان کے ڈالروں کا سراغ لگا کر انھیں قومی سرمایے میں واپس لانے کی راہ میں کوئی آئینی رکاوٹ نہیں رہی۔ نواز حکومت کو اس ضمن میں کیا چیز روک رہی ہے۔ عمران خان والا ’’مک مکا‘‘؟! میری رائے میں ہرگز نہیں۔ کہانی کچھ اور ہے۔

بھارت میں حال ہی میں بھاری اکثریت کے ساتھ منتخب ہونے والے وزیر اعظم نریندر مودی نے اقتدار سنبھالتے ہی بھڑک لگائی تھی کہ وہ بھارتی سرمایہ کاروں اور سیاستدانوں کی سوئٹزرلینڈ میں چھپائی رقوم کو اپنے وطن واپس لائیں گے۔ موصوف کے اس وعدے کی پاکستان میں بھی بڑی آئو بھگت ہوئی۔ مگر چند دور اندیش بھارتی صحافی اب ڈرتے ڈرتے یہ کہنا شروع ہوگئے ہیں کہ مودی اپنے اس وعدے کو پورا نہیں کر پائیں گے۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ مودی نے بھارتی انتخابی تاریخ میں اپنے انتخاب کے لیے ایک ریکارڈ رقم خرچ کی ہے۔ BJPکو یہ رقم بھارتی سرمایہ کاروں کے ایک بہت بڑے گروہ نے فراہم کی تھی۔

اسی گروہ کی بدولت مودی نے گجرات میں اپنی وزارتِ اعلیٰ کے طویل ایام میں گڈگورننس وغیرہ کے جلوے دکھائے تھے۔ اب وہ مرکزی سطح پر بھی گجرات جیسی صورت حال پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ’’روکڑو (مطلب سرمایہ)‘‘ تو اسی گروپ سے آئے گا۔ ہندو سماج میں ’’کرپشن‘‘ کا تصور ویسے بھی اس طرح طاقت نہیں پکڑ سکتا جیسا امریکا یا برطانیہ وغیرہ میں نظر آتا ہے۔ جنتا کی اکثریت دل سے یہ سمجھتی ہے کہ کوئی انسان صرف اپنی محنت یا صلاحیت کی وجہ سے نہیں بلکہ ’’لکشمی دیوی‘‘ کی مہربانی سے مالدار بنتا ہے۔ غالباً اسی سوچ سے ہمارے ہاں کے کچھ راشی افراد نے ’’ھذا من فضلِ ربی‘‘ والا وتیرہ مستعار لیا ہے۔

ہندو روایات کے ہمارے معاشرے پر اثرات کی بھول بھلیوں میں اُلجھ جانے کے بجائے گیلانی صاحب کے بیان کی طرف لوٹتے ہیں۔ نواز شریف کے وزراء اس بیان کے ردعمل میں یہ دعویٰ کرنے میں بالکل حق بجانب ہیں کہ ان کے لیڈر کا مشرف سے ہونے والی Dealسے کوئی تعلق نہیں تھا۔ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں۔ میں بلکہ ایک قدم آگے جاکر یہ کہنے کی جرأت بھی کیے دیتا ہوں کہ اس ڈیل کے ضمن میں یوسف رضا گیلانی کا حصہ بھی ان کے سیاسی جثے سے ہرگز زیادہ نہ تھا۔ ساری گیم اس پورے سلسلے میں آصف علی زرداری نے تن تنہا کھیلی۔

مجھے آج بھی وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب پاکستان کے چند سینئر صحافیوں کے ساتھ کراچی سے ایک کوسٹر میں بیٹھ کر میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا پرسہ دینے لاڑکانہ گیا تھا۔ ہم سے پرسہ وصول کرنے کے بعد زرداری صاحب نے قطعی فیصلہ کیا کہ سورج ڈھلنے کے بعد ہمارا کراچی کی طرف واپسی کا سفر خطرناک ہوسکتا ہے۔ سندھ کے عوام ابھی تک غصے سے بپھرے ہوئے تھے اور دن کے اوقات میں بھی کراچی تک سکھر خال خال گاڑیاں نظر آرہی تھیں۔ ہم رُک گئے تو ہمارے ایک سینئر دوست نے زرداری صاحب سے پوچھا کہ حکومت بنانے کے بعد ان کی جماعت کی فوری ترجیحات کیا ہوں گی۔

بجائے کوئی واضح جواب دینے کے زرداری صاحب نے بے نیازی سے کندھے اُچکائے اور اپنے دائیں ہاتھ بیٹھی محترمہ شیری رحمن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ سوال ان سے پوچھیں۔ میرا حکومتی معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔‘‘ ان کے اس رویے کے بعد ہمارے ایک اور دوست نے ان پر پاکستان کے آیندہ ’’مسٹر سونیا گاندھی‘‘ ہونے کی پھبتی بھی کس دی۔ میں لیکن خاموش رہا۔

موصوف کافی گہرے آدمی ہیں۔ جیل کی طویل تنہائیوں اور محترمہ کی شہادت کے بعد تو ان کے دل کی بات کو جاننا تقریباً ناممکن  رہا ہے۔ تاہم میں ان کے ارادے کسی نہ کسی صورت اب بھی کبھی کبھار بھانپ لیتا ہوں۔ میں نے انھیں’’مسٹر سونیا گاندھی‘‘ ہرگز شمار نہ کیا اور پھر جب انھوں نے مخدوم امین فہیم کے بجائے پنجاب سے کوئی وزیر اعظم لانے کا قطعی فیصلہ کرلیا تو ان کی اصل گیم کم از کم میں ذاتی طورپر کافی حد تک سمجھ گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کا ذکر کرنے سے اجتناب کیا۔ پھر یوں ہوا کہ ایک سماجی تقریب میں میری اس وقت کی امریکی سفیر این پیٹرسن سے ملاقات ہوگئی۔

باتوں باتوں میں اس خاتون نے انکشاف کیا کہ امریکی حکام کے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں آصف علی زرداری تواتر کے ساتھ کہنا شروع ہوگئے ہیں کہ ان کی ’’منتخب پارلیمنٹ‘‘ جنرل مشرف کے ساتھ کام کرنے کو تیار نہیں۔ میں فوراً سمجھ گیا کہ تیاری کس بات کی ہو رہی ہے۔ اس کے بعد میری اکیلے میں آصف علی زرداری سے ایک ’’آف دی ریکارڈ‘‘ ملاقات ہوگئی۔ میں نے اس دوران امریکی سفیر کی بات کا تذکرہ بھی کردیا۔ موصوف شرارتی آنکھوں سے میری بات سنتے رہے۔ بالآخر پوچھا تو صرف اتنا کہ ’’اس کی بات سے میرے دانشور دوست (یعنی راقم الحروف) نے کیا مطلب نکالا۔‘‘ میں نے ترنت جواب دیا کہ وہ مشرف کو فارغ کروانا چاہ رہے ہیں۔

انھوں نے انکار یا اقرار کے بجائے سوال کیا کہ ’’وہ چلا گیا تو اس کی جگہ کون آئے گا؟‘‘ میرے پاس اس کا جواب نہ تھا۔ صرف یہ کہا کہ صرف وہی آنے والے کا نام بھی بتا سکتے ہیں۔ انھوں نے یہ نام نہ بتایا۔ مگر اس کے بعد ایک اور سماجی تقریب میں امریکی سفیر نے ہی مجھے بتایا کہ جب ’’زرداری سے پوچھا جاتا ہے کہ نیا صدر کون ہوگا تو وہ کہتے ہیں کہ مجھ میں کیا برائی ہے۔‘‘ میں نے امریکی سفیر کے اس فقرے کا تذکرہ اپنے ٹی وی پروگرام میں کردیا۔ آصف علی زرداری کے کیمپ سے اس کی تردید تو کیا بظاہر نوٹس تک نہیں لیا گیا۔

البتہ اس فقرے کی بدولت آصف علی زرداری صاحب نے مہربانی کی تو اتنی کی جب پاکستان کے ان دنوں واشنگٹن میں مقیم سفیر جنرل (ر) محمود علی درانی جنرل مشرف کو ’’استعفیٰ والا پیغام‘‘ دینے گئے تو خود فون کرکے مجھے بتا دیا۔ بات مشرف نے فوراً نہ مانی۔ مذاکرات چلتے رہے۔ ان مذاکرات میں مشرف سے بات چیت کے لیے اصل پیغامبر محمود علی درانی ہی رہے اور امریکی حکام سے آصف علی زرداری اکیلے ہی بات چیت کرتے رہے۔

بالآخر جس رات معاملہ طے ہوگیا تو دوبارہ زرداری صاحب نے کمال مہربانی سے مجھے از خود فون کیا۔ یہ خبر دینے کہ ’’کل صبح تمہارا دوست (مشرف) استعفیٰ دے دے گا۔‘‘ میں نے چند صحافی دوستوں سے زرداری صاحب کا ذکر کیے بغیر اس امکان کا ذکر کیا تو سب نے مجھے یوں دیکھا جیسے میں اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھا ہوں۔ دوسری صبح مگر جنرل مشرف نے استعفیٰ والی تقریر کر ہی ڈالی۔ اس کے بعد جو ہوا وہ انگریزی محاورے والی ’’تاریخ‘‘ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔