جمہوری عمل متاثر ہونے کے خدشات

مقتدا منصور  جمعرات 17 جولائی 2014
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

صدیوں پرانی بات ہے، عظیم چینی فلسفی کنفیوشس اپنے شاگردوں کے ساتھ تبت کے پہاڑی علاقوں کے دورے پر تھا۔اس نے دیکھا کہ ایک گائوں سے ذرا باہر جنگل کے دہانے کے قریب ایک خوبرو وخوش شکل خاتون زارو قطار رورہی ہے۔ کنفیوشس نے قریب جاکر کر پوچھا کہ اے نیک خاتون  کیا افتاد آن پڑی ہے کہ تو اس ویرانی میں تنہا بیٹھی آنسو بہا رہی ہے ،جہاں تیری دلگیری  کے لیے کوئی نفس موجود نہیں ہے۔

خاتون نے آنسوئوں سے تر چہرہ اوپر اٹھایا اور گویا ہوئی کہ اس جنگل میں ایک آدم خور شیر آگیا ہے۔ جس نے دو ہفتے قبل میرے سسر کو مار کھایا۔ پچھلے ہفتے میرے شوہر کو کھا گیا ،آج اس نے میرے بیٹے کو زخمی کر دیا۔کنفیوشس نے نہایت ہمدردی سے مشورہ دیا کہ اے نیک دل خاتون تو اس علاقے کو چھوڑ کیوں نہیں دیتی۔جواباً خاتون نے کہا کہ چھوڑ تو دوں، مگر اس علاقے کا حاکم نیک دل انسان ہے ، وہ اپنی رعایا پر ظلم نہیں کرتا ۔کنفیوشس نے پلٹ کر اپنے شاگردوں سے کہا کہ کچھ سنا تم نے’’ ظالم حکمران خونخوار شیر سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے ۔‘‘

کنفیوشس ہی کے متعلق ایک اور روایت یہ ہے کہ ایک روز اسے شاہی دربار میں مدعو کیا گیا۔ بڑی آئو بھگت اورانواع واقسام کے کھانوں سے تواضع کے بعد شہرزادگان اسے شاہی نوادرات دکھانے لے کر گئے۔ دنیا کے عجائبات سے بھرے اس وسیع وعریض گوشے کے ایک کونے میں چمڑے کا چھوٹا سا ڈول بھی رکھا تھا۔ کنفیوشس نے شہزادوں سے اس کی وجہ تسمیہ پوچھی۔ مگر جب کوئی شہزادہ اطمینان بخش جواب نہیں دے سکا،تو اس نے شہزادوں سے کہا کہ اس ڈول کو لے کر تالاب تک چلو۔تالاب پر پہنچ کر کنفیوشس نے ایک شہزادے سے کہا کہ اس ڈول کو پوری قوت کے ساتھ پانی میں ڈبو دے۔ ڈول تالاب کی تہہ میں بیٹھ گیا۔

کہا اب اسے نکال کر تالاب میں صرف ڈال دو۔ دیکھا کہ ڈول پانی کی سطح پر تیرنے لگا۔ پھر فرمایا کہ اس پر اس طرح مناسب قوت لگائو تاکہ پانی نکل سکے۔ شہزادے نے مناسب دبائو ڈال کر ڈول کو پانی  سے بھر کر نکال کر کنفیوشس کے سامنے رکھ دیا۔ کنفیوشس پھر گویا ہوا کہ تمہارے اجداد بیوقوف نہیں، بلکہ انتہائی ذہن لوگ تھے ۔ یہ ڈول مثل حکمرانی ہے، جس طرح ڈول زیادہ دبائو ڈالنے پر پانی میں ڈوب جاتا ہے،اسی طرح زیادہ سختی حکمرانی کو تباہ کردیتی ہے ، جب کہ بہت زیادہ نرمی لاقانونیت پھیلانے کا سبب بن جاتی ہے۔اس لیے نظام حکومت کو متوازن رکھنے کے لیے مناسب دبائو کی ضرورت ہوتی ہے ۔

جدید دنیا میں اچھی حکمرانی کے8اصول طے کیے گئے ہیں۔اول،شراکت داری(Participation)۔دوئم،قانون کی حکمرانی(Rule of Law)۔ سوئم، شفاف (Transparent)۔ چہارم،احساس ذمے داری (Responsiveness)۔پنجم،اتفاق رائے پر مبنی (Consensus Oriented)۔ ششم، موثر (Effective)۔ ہفتم،مستعد(Efficient)۔ ہشتم، جوابدہ(Accountable)۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ جدیددنیا میں اچھی حکمرانی کے لیے جو اصول وضع کیے گئے ہیں، وہ  ڈھائی ہزار سال قبل کنفیوشس کے ترتیب کردہ اصولوں سے خاصی حد تک مماثلت رکھتے ہیں۔

ان دو حکایتوں میں جو سبق دینے کی کوشش کی گئی ہے وہ بھی یہی ہے کہ خاتون ظالم حکمران(جدید دور کے آمر) کوآدم خور شیر سے زیادہ نقصان دہ سمجھتی ہے اور ذاتی نقصان کے باوجودجگہ اس لیے چھوڑنے پر آمادہ نہیں ، جہاں اچھی حکمرانی قائم ہے ۔دوسری حکایت میں وہ حکمرانوں کو عوام کے ساتھ متوازن رویے کی تلقین کرتے ہوئے چمڑے کے ڈول کو علامت کے طور پر استعمال کرتا ہے ۔

اب اگر موجودہ دور کو دیکھیں ، جو2008 کے انتخابات کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے، تو خوش کن بات یہ ہے کہ وطن عزیز کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک منتخب حکومت سے اقتدار دوسری منتخب حکومت کو منتقل ہوا ۔پچھلی حکومت نے اٹھارویں اور انیسویں ترامیم کے ذریعے جمہوری عمل کے استحکام کی طرف کسی حد تک قدم بڑھایا تھا ۔ مگرجہاں تک اچھی حکمرانی کے اصولوں پر عملدرآمد کا تعلق ہے، تو گزشتہ چھ برسوں کے دوران اس سمت میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔ فیوڈل ذہنیت شراکتی جمہوریت کے فروغ میں رکاوٹ بنی رہی ۔ جس کی وجہ سے مقامی حکومتی نظام کے قیام کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہو رہی۔

اسی طرح احتساب اور جوابدہی کا بھی کوئی واضح مکینزم تیار نہیں کیا جا سکا ہے اور نہ ہی اس کی تیاری کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش کی جا رہی ہے ۔ یہی کچھ معاملہ باقی اصولوں یعنی موثٔریت اور مستعدی کے حوالے سے بھی سامنے آ رہا ہے۔ بہت سے ایسے معاملہ جنھیں انتہائی مستعدی کے ساتھ حل کیا جانا چاہیے تھا ، سابقہ حکومت کے علاوہ موجودہ حکومت بھی اپنے دورحکومت میں حل کرنے میں ناکام  ہے ۔ اسی طرح عوامی مسائل کے حل کے لیے بھی اب تک کوئی موثر اقدام سامنے نہیں آسکا ہے۔

اس سلسلے میں جو بات حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں کے ذہنوں میں رہنا چاہیے، وہ یہ کہ جمہوری معاشرے میں ریاست کی سمت کے تعین اورحکمرانی کو قانونی و اخلاقی جواز فراہم کرنے کی بنیادی دستاویز آئین ہوتا ہے ، جب کہ بنیادی فیصلہ ساز ادارہ پارلیمان ہوتا ہے۔ نظریات، افکاراور سوچ میں تبدیلی اور بہتری کی خواہش ہر انسان کا جمہوری اور اخلاقی حق ہوتا ہے، مگر ان خواہشات کے حصول کے لیے اختیار کردہ طریقہ کار اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اگر کوئی شہری یا شہریوں کا کوئی گروہ اپنی ان خواہشات کے حصول کیلیے تمامتر مخالفتوں اور مزاحمتوں کے باوجود پارلیمان کو ذریعہ بناتا ہے ، تواس کے جمہوری ہونے پر کوئی شک و شبہ نہیں کیا جاسکتا۔

اس کے برعکس اگر ان مقاصد کے حصول کیلیے آئین اور پارلیمان کو نظر اندازکیا جاتا ہے یا آئین سے ماوراء کوئی اقدام کیاجاتا ہے، تو یہ غیر جمہوری ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک اور قابل غور پہلو یہ ہے کہ اگر حکمرانی متوازن نہیں ہے تو جمہوریت بھی لوگوں کے لیے ناقابل برداشت ہوجاتی ہے ۔اس لیے محض جمہوریت کا دعویٰ کردینا کافی نہیں ہوتا، بلکہ ڈیلیور کرنااورعوام کو مطمئن کرنا بھی ضروری ہوتا ہے ۔اس لیے ضروری ہے کہ ریاست کے ساتھ معاشرے کو بھی جمہوریانے (Democratise) کا عمل جاری رہنا چاہیے۔

اگر معاشرے میں جمہوری اقدار کی جڑیں مضبوط نہیں ہوتیں تو پھر ریاست کے جمہوریانے کے ثمرات صحیح طورپر عوام تک نہیں پہنچ پاتے ہیں ۔ اس اصول کو حکمرانوں کے علاوہ اپوزیشن کو بھی ذہن میں رکھنا ہوتا ہے ۔ لیکن ہمارے یہاں حزب اختلاف کا معاملہ بھی کسی طور حزبِ اقتدار سے مختلف نہیں ہے۔ وہ معاملات جنھیں پارلیمان کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے تھا، انھیں سڑکوں پر لاکر جمہوریت کو نئے خطرات سے دوچار کرنے پر آمادہ نظر آرہی ہے۔

تحریک انصاف اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے جو مطالبات سامنے آرہے ہیں ان کی حقانیت پر دو رائے نہیں ہیں ۔لیکن ان کے طریقہ کار  پر بہرحال متوشش شہریوں سمیت بہت سے حلقوں کے شدید تحفظات ہیں ۔کیونکہ اس طرح جمہوری عمل کے متاثر ہونے کے خدشات موجود ہیں ۔جہاں تک انتخابی دھاندلیوں کا تعلق ہے تو یہ کوئی نیا معاملہ نہیں ہے، بلکہ یہ شروع ہی سے جاری ہے ۔اس خرابی کی وجہ انتخابی نظام میں پائے جانے والی خامیاں اور خرابیاں ہیں ۔ جن کی سول سوسائٹی کی تنظیمیں وقتاً فوقتاً نشاندہی کرتے ہوئے اصلاح کے لیے تجاویز بھی پیش کرتی رہی ہیں ۔ ان خامیوں اور نقائص کو پارلیمان کے ذریعے قانون سازی کے ذریعے دور کیا جاسکتا ہے۔

اس لیے ضروری ہے کہ تحریک انصاف سولو فلائٹ کے بجائے اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کو اعتماد میں لے کر انتخابی اصلاحات کے لیے پارلیمان میں بل پیش کرے اور اس بل کی منظوری کے لیے دبائو ڈالے تو تو مثبت نتائج آسکتے ہیں ۔جیساکہ اٹھارویں ترمیم صوبائی خودمختاری کی سمت ایک مثبت قدم ہے ۔لیکن انتخابی اصلاحات کے لیے سڑکوں پر جانے سے اصلاحات تو نہیں آسکیں گی، البتہ سیاسی نظام لپٹ جانے کا زیادہ امکان ہے ۔اس لیے کم ازکم تحریک انصاف سمیت ان جماعتوں سے غیر جمہوری اقدام کی توقع نہیں کی جاسکتی ، جن کی پارلیمان میں نمایندگی ہے اور جو پارلیمانی طریقہ سے اصلاحات لانے کی پوزیشن میں ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔