صدی کی لاڈلی… زہرہ سہگل

رئیس فاطمہ  جمعرات 17 جولائی 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

اقبال کا ایک شعر ہے:

سکوں نا آشنا رہنا‘ اسے سامان ہستی سے

تڑپ کس دل کی یا رب چھپ کے آ بیٹھی ہے پارے میں

یہ شعر اپنی پوری معنویت اور توانائی کے ساتھ صاحبزادی زہرہ بیگم ممتاز علی خاں کی زندگی کا عکاس ہے۔ جنھیں لوگ زہرہ سہگل کے نام سے جانتے ہیں۔ جو اپنی زندگی کی بھرپور اننگ کھیل کر 11 جولائی 2014 کو دہلی کے ایک اسپتال میں انتقال کر گئیں۔ بالی ووڈ کی لاڈلی زہرہ سہگل نے فنکارانہ زندگی کے 70 سال فلم، تھیٹر اور ٹیلی ویژن کو دیے۔ پاکستان کی مایہ ناز آرٹسٹ ہما نواب زہرہ سہگل کی سگی بھانجی ہیں۔ ہما کی والدہ عذرا بٹ بھی اپنے وقت کی تھیٹر اور ٹیلی ویژن کی معروف اداکارہ تھیں جن کا انتقال 93 برس کی عمر میں، 2010 میں لاہور میں ہوا۔

زہرہ سہگل جو ہمت، قوت اور حوصلے کی ایک مثال ہیں۔ 27اپریل 1912 میں سہارن پور (انڈیا۔ یوپی) میں ممتاز علی خاں اور ناطقہ بیگم کے گھر پیدا ہوئیں۔ ممتاز علی خاں اور ناطقہ بیگم کا تعلق ریاست رام پور سے تھا۔ ان کا خاندان روہیلہ پٹھانوں کا زمیندار متمول خاندان تھا۔ زہرہ اپنی سات بہنوں میں سے تیسرے نمبر پر تھیں۔ ان کی پرورش سنی مسلم روایات کے مطابق ہوئی۔ وہ چودہ برس کی عمر میں برقعہ اوڑھنے لگی تھیں۔ وہ نہ صرف پنج وقتہ نمازی تھیں بلکہ رمضان میں پورے روزے نہایت باقاعدگی سے رکھتی تھیں۔

زہرہ کی والدہ نوجوانی ہی میں انتقال کرگئی تھیں۔ لیکن ان کی خواہش کے پیش نظر زہرہ کو ان کی ایک بہن کے ہمراہ لاہور کے مشہور و معروف کوئین میری گرلز کالج میں داخلہ دلوا دیا گیا۔ اس کالج کا تمام اسٹاف مکمل طور پر انگریز تھا، اس کے باوجود مسلمان لڑکیوں کے لیے پردے کا خاص اہتمام تھا۔ چند انتہائی قابل اساتذہ کو جب کالج میں لیکچر دینے کے لیے بلایا جاتا، تو وہ پردے کے پیچھے بیٹھ کر لیکچر دیتے اور طالبات کے سوالات کا تسلی بخش جواب بھی دیا کرتے تھے۔ انگریزوں کو مسلم لڑکیوں کے پردے میں رہنے سے کوئی پریشانی نہ تھی جب کہ آج اکیسویں صدی میں فرانس میں مسلمان لڑکیاں حجاب سر پہ نہیں لے سکتیں۔

زہرہ سہگل کی پوری زندگی میں کوئی وقت ایسا نہیں گزرا جب وہ بیکار رہی ہوں۔ وہ نہ صرف ایک اداکارہ بلکہ کوریوگرافر، ڈانسر اور ٹی وی اداکارہ تھیں۔ خوش شکل نہ ہونے کے باوجود انھوں نے فلم انڈسٹری میں نام کمایا۔ انھوں نے برے سے برے کردار بھی ادا کیے اور مثبت بھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک آرٹسٹ کو ہر کردار ادا کرنا چاہیے۔ انھوں نے کبھی اپنی ظاہری شکل و صورت کے حوالے سے کوئی احساس کمتری پیدا نہیں ہونے دیا۔ کیونکہ ان کے وجود کی خوبصورتی اور ان کے اندر کے فطری آرٹسٹ نے ظاہری کمی کو پورا کردیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ 102 سال کی عمر میں وفات پانے والی زہرہ سہگل کو ہندوستان کے تمام اخبارات اور ٹیلی ویژن نے اپنی خبروں میں بھرپور جگہ دی اور ان کی خدمات کو سراہا۔ انڈیا اپنے سینئر آرٹسٹوں کو کبھی فراموش نہیں کرتا۔ زہرہ سہگل کو بھی ہمیشہ کام ملتا رہا۔

انھوں نے 1942 میں سہگل فیملی میں شادی کی۔ مسٹر سہگل خود بھی سائنس دان، مصور، ڈانسر، اداکار اور کوریوگرافر تھے۔ ان کے دو بچے ہیں۔ ڈاکٹر کرن سہگل جو ایک کتھک ڈانسر بھی ہیں اور بیٹا پون کمار جس کی شادی منشی پریم چند کی پوتی سیمارائے سے ہوئی ہے، لیکن زہرہ دہلی میں اپنی بیٹی کرن کے ساتھ ہی ساری زندگی رہیں۔ انھوں نے بہت کم عمری میں پنڈت روی شنکر ستار نواز کے بھائی پنڈت اودے شنکر کی شاگردی اختیار کی اور ان کے طائفے میں شامل ہوکر جاپان، مصر، امریکا، جرمنی اور دیگر ممالک کا دورہ کیا اور خود کو منوایا۔ انھوں نے پرتھوی تھیٹر میں چودہ سال تک کام کیا۔

انھوں نے چار نسلوں کے ساتھ کام کیا، پرتھوی راج، راج کپور، رشی کپور اور رنبیر کپور۔ پرتھوی راج تھیٹر میں ان کی بہن عذرا بٹ پہلے سے کام کر رہی تھیں۔ لیکن یہ شمولیت انھوں نے 1945 میں اختیار کی۔ خواجہ احمد عباس کی فلم ’’دھرتی کے لال‘‘ ان کی پہلی فلم تھی جو 1946 میں بنائی گئی۔ چیتن آنند کی فلم ’’نیچانگر‘‘ ان کی دوسری فلم تھی۔ جسے ناقدین نے بہت سراہا۔ فرانس کے شہر ’’کانز‘‘ میں انھیں اس فلم میں ’’گولڈن پام‘‘ نامی ایوارڈ بھی دیا گیا۔ دور درشن کے لیے بنائی گئی سیریل ’’اماں اور میں‘‘ میں مرکزی کردار ادا کیا۔ لیکن ان کی شہرت کا باعث بننے والا ٹی وی ڈرامہ ’’ملا نصیرالدین‘‘ تھا اس میں بھی ان کا مرکزی کردار تھا۔

دھرتی کی تقسیم نے بہنوں کو جدا کردیا تھا۔ ایک طویل عرصے کی جدائی کے بعد وہ 1993 میں پاکستان آئیں، ان کا جوش و جذبہ دیکھنے والا تھا۔ دونوں بہنوں زہرہ اور عذرا نے مل کر ایک اسٹیج ڈرامہ ’’ایک تھی نانی‘‘ پیش کیا جسے بہت پذیرائی اور شہرت ملی۔ بحیثیت کوریوگرافر انھوں نے گرودت کی فلم ’’بازی‘‘ اور راج کپور کی فلم ’’آوارہ‘‘ کا خواب کا منظر بھی شامل ہے۔ ان کے شوہر ہندی فلموں کے آرٹ ڈائریکٹر ہوگئے تھے۔ بدقسمتی سے 1959 میں ان کی غیر طبعی موت سے دل برداشتہ ہوکر زہرہ لندن چلی گئیں۔

زہرہ سہگل نے برطانوی ٹی وی چینل BBC سے رڈیارڈکپلنگ کی ماخوذ کہانی میں بھی مرکزی کردار ادا کیا۔ 1964 میں بی بی سی ٹیلی ویژن پر پیش کیے جانے والے پروگرام ’’پڑوسی‘‘ میں میزبانی کے فرائض بھی انجام دیے۔ اس کے علاوہ فلم چینی کم، سواریہ، دل سے، ہم دل دے چکے صنم، چلو عشق لڑائیں اور ویر زارا میں بھی منفرد اور جان دار کردار ادا کیے۔ اپنے شوہر کی وفات کے بعد جب وہ لندن گئیں تو وہاں بھی انھیں کام کرنے کا موقع دیا گیا۔ مرچنٹ آئیوری پروڈکشن نے انھیں سائن کرلیا۔ جہاں انھیں مختلف فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا۔

1983 میں پنڈت روی شنکر نے اپنے بھائی اودے شنکر کی یاد میں ایک پروگرام کیا جس میں زہرہ سہگل نے شاعرانہ کلام اس طرح پیش کیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے اردو اور پنجابی شاعرانہ کلام نہایت دل آویز طریقے سے پیش کرنا ان کی پہچان بن گیا اور لوگ ان سے اکثر حفیظ جالندھری کی مشہور نظم ’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ گا کر سنانے کی فرمائش کرتے۔  2008 میں دہلی کی سابق وزیر شیلا ڈکشٹ کے ہاتھوں ’’صدی کی لاڈلی‘‘ کا ایوارڈ دیا گیا۔ جس میں زہرہ نے ایوارڈ لیتے ہوئے کہا تھا ’’آپ مجھے اس وقت دیکھ رہے ہیں جب میں بوڑھی اور بدصورت ہوچکی ہوں۔‘‘

بھارتی فلم انڈسٹری میں اور بھی مسلمان عورتیں راج کرتی رہی ہیں جیسے پری چہرہ نسیم بانو، رینو کا دیوی (بیگم خورشید مرزا) ثریا، مدھوبالا، انوری، سلطانہ اور مینا کماری، لیکن ان کی کامیابی کا ضامن ان کا خوبصورت سراپا اور حسین چہرہ تھا جب کہ زہرہ سہگل کا معاملہ برعکس تھا۔ لیکن ان کی فنکارانہ صلاحیتوں کو ان کی اعلیٰ تعلیم، اور مضبوط خاندانی پس منظر نے نکھارنے میں بہت مدد کی۔ ڈاکٹر کرن سہگل نے اپنی والدہ کی سوانح حیات “Zohra Sehgal Fattay” کے عنوان سے ان کی 100 ویں سالگرہ پہ شایع کی۔

سوال یہ ہے کہ اگر زہرہ سہگل پاکستان میں ہوتیں تو کیا انھیں ہم یاد رکھ پاتے؟ کیا انھیں ’’صدی کی لاڈلی‘‘ جیسا کوئی ایوارڈ دیا جاتا؟ انھیں اتنی پذیرائی ملتی؟ ہمارے بیشتر فنکار، اداکار، فلمی دنیا کی بے حسی کی وجہ سے نہایت کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ صبیحہ خانم کیا کر رہی ہیں؟ روحی بانو جیسی ایک نہایت ذہین فطری اداکارہ جو بدقسمتی سے اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہے وہ پاگلوں کی طرح کہاں ماری ماری پھر رہی ہے؟ کسی کو خبر نہیں۔ کسی حکومت کو بھی ان لوگوں کی فکر نہیں ہوتی۔ ہم نے بڑے غلام علی خاں کی قدر نہیں کی، بھارت نے انھیں نوازا۔ شاہد احمد دہلوی جیسا صاحب طرز نثرنگار، ڈپٹی نذیر احمد کا پوتا اور بشیر الدین احمد کے بیٹے کو اپنے خاندان کی کفالت کے لیے ریڈیو سے موسیقی سکھانے کا کام ملا؟ ادب و شعر کی فنون لطیفہ کی یہاں کتنی قدر ہے؟ شمیم آرا لاوارث کوما میں پڑی ہے۔

صاحبزادی زہرہ ممتاز علی خاں تم خوش نصیب تھیں کہ اپنی مٹی سے رشتہ نہ توڑا۔ تمہارے فن کی قدر کرنے والوں نے تمہیں یاد رکھا۔ واقعی تم صدی کی لاڈلی تھیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔