(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - کیا لالی ووڈ بھی انڈسٹری بن سکتی ہے؟

فرمان نواز  جمعرات 17 جولائی 2014
پاکستان بھی 18 کروڑ لوگوں کی مارکیٹ ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسی مارکیٹ کیلئے بیرونی سرمایہ کاری نہیں ڈھونڈی جاسکتی ہے یا نہیں؟۔ فوٹو: ایکسپریس ٹریبون

پاکستان بھی 18 کروڑ لوگوں کی مارکیٹ ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسی مارکیٹ کیلئے بیرونی سرمایہ کاری نہیں ڈھونڈی جاسکتی ہے یا نہیں؟۔ فوٹو: ایکسپریس ٹریبون

ثمینہ پیرزادہ نے ایک دفعہ پوجا بھٹ سے ایک ٹی وی انٹرویو میں سوال کیا کہ بھارت پاکستانی ذہنیت کو دیکھتے ہوئے بھی تو فلمیں بنا سکتا ہے۔ جس کے جواب میں پوجا بھٹ نے بڑی بے ساختگی سے جواب دیا کہ پاکستان تو مارکیٹ ہے ہی نہیں، کہاں ہے سینما؟ اُس وقت تو وہ جواب بڑا برا لگا تھا لیکن سوچنے پر احساس ہو کہ واقعی پاکستان میں تو قابلِ ذکر تعداد میں سینما رہے ہی نہیں۔سینما کیا فلم انڈسٹری ہی ختم ہو نے کو آئی ہے۔ پچھلے چند سالوں میں کچھ اچھی فلمیں بنی ہیں لیکن کیا وہ پاکستانی سینما کو دوبارہ زندگی دیں سکیں گی۔جس ملک میں سوچنے پر ہی پابندی ہو وہاں سینما کیا کوئی بھی تخلیقی کام نہیں ہو سکتا۔

انڈیا میں فلم انڈسٹری اب واقعی انڈسٹری بن چکی ہے۔ لیکن اس کہ ایک تاریخ ہے۔ اس تاریخ کو پڑھے بغیر انڈین سینما کے ارتکا ء کو سمجھا نہیں جا سکتا۔ آزادی کے بعد انڈین سینما کی انکوئری کیلئے ایس کے پاٹیل کمیشن بنا یا گیا۔ایس کے پاٹیل جو اس کمیشن کا ہیڈ تھا، اُس نے اپنی رپورٹ میں انڈین سینما کو آرٹ ، انڈسٹری اور شو مین شپ کا مجموعہ قرار دیا لیکن ساتھ میں یہ بھی کہا کہ اس کی کوئی کمرشل ویلیو نہیں۔ 1940 اور 1950کی دہائی میں انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن (آئی پی ٹی اے)کے خدوخال بھی واضح ہونا شروع ہوگئے تھے۔یہ اشتراکی سوچ رکھنے والی ایسوسی ایشن تھی جس کا مقصد ہندوستانی سماج کے زندگی کے مختلف پہلوؤں کو فلم کی شکل میں عوام تک پہنچانا تھا۔(آئی پی ٹی اے)نے 1944 میں بنگال کے قحط پر فلم’ نابانہ‘ اور 1946میں فلم’ دھرتی کے لال‘ بنائی جس سے انڈین فلم انڈسٹری میں عملیت پسندی (Realism)کی بنیادیں مضبوط ہوئیں اور آگے جاکر ’مدر انڈیا‘ اور’ پیسہ‘ جیسی فلمیں بنی۔

انڈین سینما کو آج 90ملکوں کی مارکیٹ میں پزیرائی ملتی ہے۔شیکر کپور، میرا نیئر اور دیپا مہتا نے بیرون ملک کامیابی کے جھنڈے گھاڑ دئیے ہیں۔ اگر ایک طرف انڈین حکومت امریکہ اور جاپان فلمی وفود بھیجنے کا انتظام کرتی ہے تو دوسری طرف فلم پروڈیوسرز کی ایسوسی ایشن یورپ میں انڈین فلموں کی تشہیرمیں مصروف ہے۔قانونی طور پر انڈین فلم مارکیٹ میں فارن کمپنیاں جیسے ٹوینٹی سنچیری فاکس،سونی پکچرز اور وارنر بروس ، ڈایئریکٹ انویسٹمنٹ کرتی ہیں اور حکومت نے ٹیکس کے حوالے سے فلم انڈسٹری کو کافی مراعات دے رکھی ہیں جس کی وجہ سے فلم انڈسٹری کامیابی کی راہوں پر گامزن ہے۔2003میں انڈین نیشنل سٹاک ایکسچینج میں 30فلم پروڈکشن انڈسٹریز کا اندراج ہو چکا تھا۔ جس سے انڈین سینما کی کمرشل ویلیو کا اندازہ ہوتا ہے۔گنیز ورلڈ ریکارڈ کے مطابق انڈین تلگو فلم انڈسٹری (ٹولی وڈ)دنیا کا سب سے بڑا فلم سٹوڈیوکمپلیکس بن چکا ہے۔

انڈین سینما پر چھ عوامل اثرانداز ہو رہے ہیں جس سے ماڈرن انڈین سینما کی شروعات ہوئی ہے۔ان عوامل میں پہلا قدیم انڈین کلاسک مہا بھارت اور رامائن ہیں۔ان کا انڈین سینما پر کافی گہرا اثر ہے۔ دوسری قوت سنسکرت ڈراما ہے۔ تیسری اثر انداز قوت 10ویں صدی کی روائتی انڈین فوک تھیٹر ہے۔چوتھی قوت پارسی تھیٹر ہے۔فوک اور پارسی تھیٹر سے انڈین سینما کو روایات، ریلزم، فینٹیسی، میوزک ،ڈانس، مزاح، ڈائلاگ، اسٹیج پریزینٹیشن جیسے عناصر ملے ہیں۔ پانچواں فیکٹر ہالی وڈ کی انڈسٹری سے ٹیکنالوجی کا استعمال اور حقیقت پسندی کے مقابلے میں کمرشل ویلیو جیسے عناصر ہیں۔جبکہ چھٹا فیکٹر مغربی انداز کی موسیقی ہے۔

ایک زمانہ تھا کہ انڈین فلموں میں کارل مارکس اور لینن کی تصویریں دیکھنے کو ملتی تھی جبکہ آج انڈین فلموں میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کے کپڑے بھی امریکی جھنڈے سے بنے ہوتے ہیں۔انڈین سماج پر مغربی تہذیب کے اثرانداز ہوتے ہی انڈین سینما نے بھی بدلتی ہوا کا رخ معلوم کر لیا۔اب انڈین سینما وہی دیکھاتا ہے جو ہندوستانی نوجوان سوچتا ہے ۔ انڈین فلمیں جیسی بھی ہیں لیکن کم از کم انہوں نے اپنے نوجوان کو بیرونی دُنیا کے پروپیگنڈا سے محفوظ رکھا ہے۔

پاکستان بھی 18 کروڑ لوگوں کی مارکیٹ ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسی مارکیٹ کیلئے بیرونی سرمایہ کاری نہیں ڈھونڈی جاسکتی؟کیا پاکستان بھی اپنے نوجوانوں کو بیرونی دنیا کے پروپیگینڈے سے محفوظ رکھ سکتا ہے یا نہیں؟  آخر ہم کم تک گجر، مولا، جٹ کے نام پر ناظرین کو بھارت کی جانب رُکھ کرنے پر مجبور کرتے رہیں گے؟ جو لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ ہماری نئی نسل بھارتی یلغار کا شکار ہوگئی ہے اُن سے سوال کرنا چاہتا ہوں کہ اگر پاکستان میں معیاری فلمیں بننا شروع ہوجائیں تو پھر کون سا پاکستانی ہے جو بھارت کے فراہم کردہ مواد سے مستفید ہوگا؟

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔