فلسطین پر حالیہ اسرائیلی جارحیت سے مشرقِ وسطیٰ ہی نہیں تمام اسلامی ممالک متاثر ہوں گے

اجمل ستار ملک  جمعـء 18 جولائی 2014
مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو۔  فوٹو : فائل

مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو۔ فوٹو : فائل

نہتے فلسطینیوں پر اسرائیل کی جارحیت ایک طویل عرصے سے مسلسل جاری ہے ، جب سے استعماری قوتوں کی مدد سے اسرائیل کا ’’ناجائز‘‘ قیام عمل میں آیا ہے ، اسرائیل نے زمینوں پر قبضہ کرنے کی روش جاری رکھی ہے،کبھی اس نے مصر سے لڑائی کی صورت میں ایسا کیا اور کبھی شام کی۔

’’گولان ہائٹس ‘‘ پر قبضہ کرکے ایسا کیا۔ اسرائیل کا وجود آہستہ آہستہ پھیلتا گیا اور فلسطینی زمین سکڑتی گئی۔اسرائیل کسی نہ کسی بہانے فلسطین پر حملہ کرتا رہا ہے ۔ اقوام متحدہ ، مغربی ممالک یہاں تک کہ او آئی سی بھی اسرائیل کی اس جارحیت کا خاموشی سے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔سلامتی کونسل میں جب بھی اسرائیل کے خلاف قرارداد آتی ہے تو امریکہ اسے ویٹو کردیتا ہے۔

انسانی حقوق کے ادارے اس کے خلاف کئی قراردادیں منظور کرچکے ہیں مگر اسرائیل کا بال تک بیکا نہیں ہوا۔ یہی وجوہات ہمیشہ اسرائیل کا حوصلہ بڑھانے کا سبب بنی ہیں۔گزشتہ دنوں بھی اسرائیل نے ایک بار پھر فلسطین پر چڑھائی کرتے ہوئے بربریت کی انتہا کردی۔

ایک رپورٹ کے مطابق حالیہ اسرائیلی جارحیت کی تازہ لہر میں اسرائیل کی جانب سے 1653 راکٹ اور ایئر سٹرائکس کیے گئے جن میں متعدد فلسطینی شہید اور زخمی ہوچکے ہیں۔ فلسطین پر حالیہ اسرائیلی جارحیت کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گزشتہ دنوں ایک فکرانگیز مذاکرے کا اہتمام کیا گیا جس میں کی جانے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر سجاد نصیر (سابق سربراہ شعبہ سیاسیات جامعہ پنجاب)

پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ تنازع نیا نہیں ہے تاریخی ہے اور اس تنازع کو دیکھیں تو اسرائیل کی کوشش رہی ہے زمین پر قبضہ کرے۔چاہے وہ مصر کے ساتھ لڑائی کے دوران ہوا ہو، شام کی گولان ہائٹس ہوں یہ ساری چیزیں ایک ٹرینڈ بتاتی ہیں ۔اور اسکے بعد آجکل پچھلے چھ دنوں میں اسرائیل نے جس بربریت کا مظاہرہ کیا ہے۔

اس کو اس تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ وہ غزہ کی پٹی پر آکر ہی کیوں ٹارگٹ آپریشن کرتا ہے؟ ایک خیال یہ ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کو غزہ سے نکالنا چاہتا ہے تاکہ غزہ کی پٹی کو اسرائیل میں شامل کیا جائے جو کہ اسرائیل کی ریاستی پالیسی کا حصہ رہا ہے۔ اسرائیل چاہتا یہ ہے کہ فلسطینیوں کو غزہ سے نکال کر کونے میں لگا دیا جائے اور فلسطینی مکمل طور پر اسرائیل کے ماتحت ہوجائیں۔ جہاں تک بربریت کا تعلق ہے تو ’’عالمی ضمیر‘‘ کی لوگ بات کرتے ہیں کہ ہم گلوبلائزنگ ورلڈ میں رہ رہے ہیں۔

اس میں آزاد خیال لوگ ’’عالمی ضمیر‘‘ کا بڑا تذکرہ کرتے ہیں لیکن وہ عالمی ضمیر کہاں ہے، چلیں مان لیں کہ یہ عالمی ضمیر ایک مغربی تسلط زدہ اختراع ہے سوال یہ ہے کہ اسلام یا مسلمانوں کا ضمیر اب کہاں ہے؟ اس کا اظہار کہاں سے ہوگا؟مسلم امہ کا کمیونٹی لیول پر کوئی اظہار نظر نہیں آتا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے اس کو اگر آپ ایک علمی سطح پر دیکھنے کی کوشش کریں وہ یہ ہے کہ عرب دنیا میں ابھی تک یہ بحث چل رہی ہے کہ وہ مسلمان پہلے ہیں یا عرب پہلے ہیں۔

مڈل ایسٹ میں اتحادنہ ہونے کی بنیادی وجہ یہی ہے۔ دوسری بات یہ کہ عرب ورلڈ کے ممالک میں لوگ کہتے ہیں کہ بہار آئی ہے وہاں بہار نہیں خزاں آئی ہوئی ہے کیونکہ وہاں جیوگرافیکل میلٹ ڈاؤن ہورہا ہے اور مختلف ریاستوں کے بارڈز دوبارہ متعین ہورہے ہیں اور میں اس بات کو 2006ء کے اسرائیل اور لبنان کے تنازع کی طرف لے کر جاتا ہوں۔ جب حزب اللہ نے تل ابیب میں دو راکٹ مارے تھے تو کافی پیچیدہ صورتحال پیدا ہوگئی تھی۔اس وقت کونڈولیزارائس نے بیان دیا تھا کہ مشرق وسطیٰ کی سرحدی حدود نوآبادیاتی ہیں اور ان کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

تو کیا یہ عرب سپرنگ کے نام سے جو ایک پروسیس وہاں شروع ہوا ہے جس کے ڈانڈ ے اندرونی تنازعات پر مبنی ہیں مگر لڑائیاں وہاں بیرونی فنڈز سے لڑی جا رہی ہیں اسی کا شاخسانہ تو نہیں؟جہاں تک اوآئی سی اور عرب لیگ کا تعلق ہے آپ یہ دیکھیں یہ ممالک کلائنٹ ریاستوں کے حکمران ہیں۔ان کی اپنی کوئی پالیسیاں نہیں ہیں ۔یہ مغربی آقاؤں کی پالیسیوں کے تابع ہیں جن کے معاشی مفادات بہت زیادہ ہیں، اس لیے انہوں نے کبھی کوئی موقف نہیں اپنایا۔ایجنڈا تو مغرب کا ہی چلے گا، میڈیا انکا ہے ملکیت بھی انہی کی ، بینک ان کے ہیں، کنٹرول ان کے پاس ہے۔

مشرق وسطی میں لڑائی آپس میں ہو رہی ہے مگر پیسہ اور اسلحہ مغرب ہی دے رہا ہے۔اسرائیل کو مغرب کی سپورٹ تو سمجھ میں آتی ہے مگر مڈل ایسٹ کے کسی ملک نے کھل کر اس کی مخالفت نہیں کی صرف پاکستان نے اس کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔پاکستان کو اپنے وسیع تر مفادات میں فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔

امیر العظیم (سیکرٹری اطلاعات جماعت اسلامی پاکستان)

میرا خیال ہے کہ اسرائیل کی جانب سے پہلی بار ایسا نہیں ہورہا، اس نے تو ایک تسلسل کے ساتھ فلسطین کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ اور وہ وقتاً فوقتاً اس طرح کی کاروائیاں کسی نہ کسی بہانے کرتا رہتا ہے ۔

جیسے اس دفعہ بھی ہوا ہے کہ کچھ یہودیوں کو اغوا اور قتل کردیا گیا تو اسرائیل یہ بہانہ بنا کر نہتے فلسطینیوں پر چڑھ دوڑا اور بربریت کی انتہا کردی اور سینکڑوں فلسطینیوں کو شہید اور زخمی کردیا گیا۔ 1700 نوزائیدہ بچوں کے چیتھڑے اڑ گئے ۔مگر افسوس کہ اقوام متحدہ اور مغربی دنیا خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں ۔ ان معصوم بچوں کی تصاویر انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو کیوں نظر نہیں آتیں۔ جبکہ کسی اور جگہ ایسا مسئلہ ہو تو ہو پوری دنیا کو سر پراٹھالیتی ہیں اور اسے دنیا کا سرفہرست مسئلہ بنادیتی ہیں۔

اس لحاظ سے دنیا کا دہرا معیار ہے۔ ہمارا خود بھی یہی حال ہے۔ ہم نے بھی صرف بیان دیا ہے حالانکہ ہمیں اس پر پرزور احتجاج کرنا چاہیے تھا۔ہمارے اندرونی حالات اتنے اچھے نہیں ہیں ۔خدانخواستہ کل کو ہمیں بھی اس طرح کے حالات کا سامنا کر نا پڑسکتا ہے تو پھر ہم کیا کریں گے۔کون ہمارے ساتھ کھڑا ہوگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں مسلمان سب سے زیادہ مظلوم ہیں، آپ دیکھیں تو سب سے زیادہ مہاجر مسلمان ہیں ، سب سے زیادہ پچھلے دس بیس عشروں میں جن کی جانیں ضائع ہوئی ہیں ،چاہے وہ عراق کے اندر ہو، افغانستان کے اندر ہو،کشمیر کے اندر ہویا اس طرح کے دیگر معاملات میں ہوتو وہ سب سے زیادہ مسلمان ہیں مگر اس کے باوجود انہیںہی دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے۔

مگر سوچنے والی بات ہے کہ اسرائیل کی ننگی جارحیت کے باوجود اسکے اوپر دہشت گرد ریاست کا لیبل کیوں نہیں لگایا جاسکتا۔میں سمجھتا ہوں کہ اسلامی امہ کو اس بات کو اجاگر کرنا چاہیے اور نہ صرف سفارت کاری کی حد تک بلکہ او آئی سی،یورپ اور امریکا میں ہر جگہ اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔

بدقسمتی سے کچھ ہماری اپنی غلطیاں بھی ہیں ۔ اسلامی دنیا نے تو بیچ میں پڑ کے فلسطین میں حماس اور محمود عباس کی ایک قومی حکومت بنادی مگر خود اسلامی ممالک نے بعد میں حماس سے ہاتھ کھینچ لیا اور کچھ جگہوںپر اخوان المسلمین سے ہاتھ کھینچ لیاتو اسرائیل نے سوچا کہ یہ موقع ہے کہ ایک بار پھر فلسطین پر حملہ کردیا جائے۔ کیونکہ شاید اس موقع پر اسلامی دنیا کا وہ رد عمل نہ ہو سکے جو پہلے پایا جاتا تھا۔

پہلے اسلامی دنیا اس طرح کے معاملات پر کچھ نہ کچھ ردعمل ظاہر کرتی تھی تو اس کی کچھ اشک شوئی ہوجاتی تھی اور اسلامی ممالک کی میٹنگز اور یو این او کی قراردادیں سامنے آجاتی تھیں۔ مگر اس بار تو اسلامی دنیا کی جانب سے بھی وہ ردعمل سامنے نہیں آسکا ۔ حالانکہ اسلامی دنیا کو چاہیے تھا کہ وہ اس طرح کے معاملات کو نظر انداز نہ کرے ۔ خود اس کے لیے اس طرح کے معاملات بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ اسرائیلی جارحیت پر اقوام متحدہ اور مغربی ممالک کے کردارکو دیکھ کر پوری اسلامی دنیا میں ایک لاوا پک رہا ہے ۔

ایسی صورت حال میں ہی شدت پسندی پیدا ہوتی ہے، لوگ جمہوریت اور اپنی حکومتوں سے ناراض ہوتے ہیں پھر وہ سمجھتے ہیں کہ تبدیلی ان کے خود میدان میں آنے سے ہی آئے گی۔ پھر وہ خود حزب اللہ اور حزب المجاہدین بن کر آگے بڑھتے ہیں۔ اور کہیں نہ کہیں مسلم حکمرانوں کے اندر بھی یہ صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔

خود کش حملوں کا آغازسری لنکا سے ہوا ، جہاں تامل باغیوں کودیوار سے لگایا گیا تو انہوں نے خود کش حملے کرنے شروع کردیئے ، یہ اور بات ہے کہ تامل ٹائیگرز اپنے موقف میں کتنے صحیح تھے۔ بھارت میں آپریشن ’’گولڈن ٹیمپل ‘‘ کے بعدپوری دنیا سے کھاتے پیتے لوگوں نے بھارت میں آکر اپنے آپ کو آگ کے سامنے دھکیل دیا، ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کے مذہب کی شناخت باقی نہ رہی تو زندہ رہنے کا کیا فائدہ۔

مولانا اجمل قادری (عالم دین)

اسرائیل میں جارحیت کی جو تازہ لہر ہے اس کا حوصلہ نیتن یاہو کی حکومت اور پارٹی کو مسلم امہ کی تحریکوں کے باہمی تضادات سے ملا ہے اور بدقسمتی سے یہ تمام تحریکیں جو باہم متصادم ہیں ان میں ایک قدر مشترک ہے کہ ساری امریکا کی سپانسر شدہ ہیں۔ اس لیے کہ تجارت اور سیاست ایک ہی چیز ہے مشرق وسطیٰ کی حالیہ جغرافیائی تبدیلی کا جو عمل شروع کیا گیا ہے۔

اس کے پیچھے امریکااپنی موت کو دور رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر اس کے تناظر میں دیکھا جائے تو امریکا ہمیں بہت نیچے کی سطح پر ڈیل کرتا ہے اور ہمارے یہاں کے فیصلے انکے اپنے اقتصادی مفاد کے تابع ہوتے ہیں۔ اس وقت جبکہ بظاہر امریکہ افغانستان سے نکل رہا ہے اور قطر کو ایک اہمیت حاصل ہو رہی ہے، یہ ساری دوڑ ہے یواے ای کو تجارتی اعتبار سے کونے میں لگانے کی ۔ ابھی آپ نے دیکھا کہ قطر ’’فیفا ‘‘ کو دبئی سے چھیننا چاہ رہا ہے۔ تو اس تمام چیز کے پس منظر میں تجارتی مفاد آگے ہے کیونکہ مسلمان امت کے اپنے مفادات سامنے نہیں ہیں اس لیے ان کے تضادات ابھر رہے ہیں۔

آج بھی اسرائیلی کابینہ نے جو جنگ بندی کو منظور کیا ہے لیکن اس کی عملی شکل ایک ہفتے بعد شروع ہوگی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ معاملات ایسے ہیں کہ تمام سٹیک ہولڈرز کے سیاسی اور تجارتی مفادات کے بعد یہ صورت اختیار کی گئی۔

ان حالات میں او آئی سی کا ایک اجلاس اور جنرل اسمبلی میں کوئی قراردادمستقبل میں ایسے معاملات کو روکنے میں معاون ثابت ہوسکے لیکن سب سے بڑی بات پاکستان کی سیاسی قیادت کاابھر کر سامنے آنا ہے اور میرا یہ خیال ہے کہ اب جیسے جمعتہ الوداع آرہا ہے تو اس کو یوم القدس کے طور پرجب ہم اور مسلم امہ کے تمام قائدین اس کو منائیں گے تو پوری دنیا کو ایک پیغام جائے گااور اس کے لیے شاید ایک آدھ دن میں ہم آغاز کریں اور تما م دینی اور سیاسی قیادت کے پاس جائیں گے اور یہ پیغام حکومت کی سطح کی بجائے پاکستان کی عوامی سطح پر اسرائیل کو دیں گے تو یقینا اس کا ردعمل آئے گا۔اسرائیل کی ساری کی ساری حکمران قیادت دہشت گرد ہے۔

ان کے مفادات اورسارے پیسے امریکہ کی اسلحہ سازی میں لگے ہوئے ہیں اس لیے میں سمجھتا ہوں امریکہ کی پشت پناہی نیتن یاہوکی حکمران پارٹی کے تجارتی مفادات اس کے پیچھے ہیں ۔ اس ساری صورتحال کو دو نقطوں میں سمجھا جاسکتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جغرافیائی تبدیلی کی جو لہر جو سوڈان کی تقسیم کی صورت میں سامنے آچکی ہے یہ سب اسی کا شاخسانہ ہے۔فلسطین کی موجودہ صورت حال میں مصر کی اخوان المسلمین اور دیگر جماعتیں اپنا رول ادا کریں تو معاملہ بہتر ہو سکتا ہے ۔ یہ سب تبھی ممکن ہے جب پاکستان سے لوگ ان کو سیاسی پیغام دیں۔

محمد مہدی (میڈیا کوآرڈینیٹرپاکستان مسلم لیگ ن)

جہاں تک مسلم لیگ ن کا تعلق ہے آج سے چند روز قبل مسلم لیگ ن کے چیئرمین راجہ ظفر الحق نے پاکستان کی پارلیمنٹ میں موجود تمام پولیٹیکل پارٹیوںکو بلایا تھا اور فلسطین کے سفیر نے بھی اس میں میں آکر خطاب کیا ہے وہاں پہ ریکارڈ پر موجو د ہے کہ فلسطین کے سفیرنے کہا کہ پاکستانی حکمران نواز شریف پہلے حکمران ہیں۔

جنہوں نے ہمارے لیے موثرآواز بلند کی۔ اب تک اتنی موثر آواز کسی اور ملک نے نہیں اٹھائی ۔ہمارے لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ یہ ممکن نہیں ہوتا کہ آپ ایٹمی قوت بن گئے ہیں تو آپ دنیا کے ملکوں پر چڑھائی کر دیں آپ کو عموماً سفارتی سطح پر ہی کوشش کرنی پڑتی ہے اس سلسلے میں دوسری کوشش یہ کی گئی کہ سعودی عرب سے سبکدوش ہونے والے پاکستان سفیر کو آوآئی سی کا اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل بنادیا گیاہے ان کے ذریعے سے ایک پیپر موو کیا گیا۔ اور جدہ کے اندر باقاعدہ ایک اوآئی سی کا اجلاس ہوا جس میں ترکی کی طرف سے ان کے نائب وزیر اعظم نے شرکت کی باقی ممالک کی طرف سے ان کے سفیروں نے شرکت کی اور وہاں پر بھی فلسطین کے حق میں ایک قرارداد منظور کی۔

یا تو صورتحال یہ ہو کہ آپ اتنے طاقتور ہوں جیسا ہم نے بوسنیا میں دیکھا کہ امریکہ نے ڈائریکٹ جا کر بوسنیا پر حملہ کردیا یاتو مسلمان ممالک اتنے طاقتور ہو جائیں کہ وہ سیدھا جا کر اسرائیل پر حملہ کر دیں لیکن یہاں صورتحال یہ ہے کہ مسلمانوں کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک ترکی کے بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں۔ اسرائیل کو قانونی حیثیت حاصل ہے اور اسرائیل کے ساتھ جن مسلم ممالک کی سرحدیں ملتی ہیں ان میں شام کے علاوہ مصر، اردن اور لبنان شامل ہیں،اگرچہ لبنان پوری طرح مسلم ملک نہیں ہے۔

اس میں عیسائی آبادی بھی ہے یہ تینوں ممالک اسرائیل کو باقاعدہ قانونی طور پر لیتے ہیں۔ مقصد کہنے کا یہ ہے کہ یہ صورتحال ایک دن میں تو سامنے نہیں آئی، گاہے بگاہے اسرائیل کی طرف سے یہ ہوتا رہتاہے اور اس کی بڑی وجہ جو کم از کم مجھ جیسے طالب علم کو سمجھ آتی ہے وہ یہ کہ فلسطین کے اندر اتحاد کی بہت زیادہ کمی ہے۔ اور ہم یہ دیکھتے ہیں کہ حماس اور الفتح اگرچہ پچھلے کچھ عرصے سے مل کر حکومت بھی کر رہے ہیں لیکن عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ حماس کو پروٹیکٹ کرنے کے لیے محمود عباس نے وہ کردار ادا نہیں کیا جو اسے کرنا چاہیے تھا بلکہ محمود عباس نے تو خود حماس کے 32 اراکین پارلیمینٹ کو گرفتار کیااو ر اسرائیل کے حوالے کردیااس طرح کے معاملات سے بھی اسرائیل نے بہت فائدہ اٹھایا ہے۔

بہت سی جگہوں پر ایسی باتیں کی جاتی ہیں کہ مسلکی معاملات ہوتے ہیں جیسے کہ عرب دنیا میں ہیں ، لیکن فلسطین میں مسلک کا مسئلہ نہیں ہے ایک ہی مسلک سے لوگ تعلق رکھتے ہیںتو اصل بات وہیں آجاتی ہے کہ ساری لڑائیاں مفادات کی لڑائیاں ہیں خواہ وہ دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر اور دوسری طرف ونسٹن چرچل لڑرہے ہوں یا مسولینی ہو وہ سب ایک ہی مذہب سے تعلق رکھتے تھے لیکن یہ لڑائیاں ہیں ساری مفادات کی۔

یہ بات ٹھیک ہے کہ اسرائیل بہت چھوٹا سا ملک ہے مگر اس نے اپنے آپ کو اقتصادی طور پر بہت مضبوط کیا ہے اور اس کے جتنے ہمسایہ ملک ہیں ان سب کو ساری چیزیں اسرائیل سے جاتی ہیں،اس لحاظ سے وہ سب ممالک اس وقت اسرائیل پر انحصار کررہے ہیں۔ تو یہ ساری صورتحال اتنی آسان نہیں ہے اور اقوام متحدہ ہو یا او آئی سی ، اس سے پہلے لیگ آف نیشنز تھی وہاں پر ایک پاور کوریڈور ہوتا ہے جو فیصلے کر رہا ہوتا ہے ۔

ہم نے بھی بہت سی قراردادیں کشمیر کے حوالے سے پاس کروائیںلیکن ہم نے دیکھا کہ اس پر عمل نہیں ہوا جبکہ اس کے مقابلے میں عراق کے خلاف قرارداد پاس نہیں ہوسکی تھی اس کی مخالفت کی گئی تھی لیکن عراق کے اوپر وہ حملہ کرنا چاہتے تھے تو نہ اقوام متحدہ نے کچھ کہا اور نہ کسی نے کچھ کہا۔ تو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

اس میں ایک ہی طریقہ ہو سکتا ہے کہ فلسطین کے اندر حماس اور الفتح اسرائیل کے معاملات پر ایک ہی پیج پر ہوں پھر لامحالہ مسلمان ممالک بھی ان کی اس طرح مدد کر سکیں گے۔ بالکل پاکستان کا رول ایک ایسے ملک کاہے جس کو مذہب اسلام کی بنیادپر بنایا گیا اور پاکستان اپنی سی کوشش ہمیشہ سے کرتا رہا ہے ۔پاکستان نے عرب ممالک کا حصہ نہ ہونے کے باوجود اسرائیل کے وجود کو کبھی تسلیم نہیں کیا اور بہت دفعہ یہاں پر ایک خاص طبقے کی خواہش کے باوجودیہ کامیابی نہیں ہوئی۔

زمرد اعوان (اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ سیاسیات ایف سی کالج لاہور)

پہلے تو ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ فلسطین کا مسئلہ کوئی آج کا مسئلہ نہیں ، لمبے عرصے سے یہ مسئلہ چلا آرہا ہے اور کسی نہ کسی بہانے سے اسرائیل فلسطین پر حملہ کرتا رہا ہے۔ اس تناظر میں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ اسرائیل میں اس وقت جو نیتن یاہو کی گورنمنٹ ہے وہ ایک انتہا پسند پارٹی ہے جو مسائل کا حل مذاکرات کی بجائے تشدد سے ڈھونڈ رہی ہے۔ اس صورتحال کو مزید خراب کرنے میں حماس اور الفتح کی آپس میں کشمکش بھی ہے۔اگر ہم دیکھیں کہ 2007سے 2014ء تک ان دونوں کے تعلقات آپس میں کشیدہ تھے اور انکا اپریل 2014ء میں معاہدہ ہوا ہے جس کی وجہ سے انہوں نے آپس میں معاملات طے کیے ہیں۔

اس کے علاوہ حماس غزہ پٹی پر انڈیپنڈنٹ سٹیٹ کے طور پر بھی آپریٹ کرتا رہا ہے جس کی وجہ سے اندرونی حالات نے یہ اسرائیل کو موقع فراہم کیا کہ وہ اسی ماحول میں بڑی آسانی سے آپریشن کو چلا سکیں ۔جہاں تک اس کے خطے پر اثرا ت کا تعلق ہے تو ہم یہ دیکھیں گے کہ نہ صرف مڈل ایسٹ بلکہ تمام اسلامی ممالک میں اس کے گہرے اثرات پڑیں گے۔

ایک تو شدت پسند ی کو فروغ ملے گا اور شدت پسند خیالات میں اضافہ ہوگا۔ لیکن اس صورت حال کا ایک اور پہلو بھی نکلتا ہے اس کا اثر صرف اور صرف فلسطین پر ہی نہیں ، امریکہ پر بھی اور خود اسرائیل پر بھی ہے امریکا اسرائیل کو سپورٹ کرتا ہے اور اسرائیل اسی وجہ سے ایسی کاروائیاں کرتا ہے ورنہ نقشے کے اوپر تو وہ چھوٹا سا ملک ہے۔ اپنے طور پر تو وہ ایسا نہیں کر سکتا اور مسلم ممالک میں امریکہ مخالف جذبات کو فروغ ملے گا۔ پاکستان میں امریکہ سے نفرت کا رجحان بڑھے گا۔ اس کے علاوہ اسرائیل ایک ’’بنگل سٹیٹ‘‘ بن چکا ہے۔

اسرائیل کے لوگ خود بھی ڈر کر رہ رہے ہیں۔ خود اسرائیل کو بھی خطرہ رہتاہے کہ فلسطین والے کہیں ان پر حملہ نہ کردیں تو اس صورتحال میں بنگل سٹیٹ کے طور پر قائم رہنا اور اپنی وجود کو طوالت دینا بھی مشکل سمجھتا ہے۔اس معاملے میں پاکستان کا جو رد عمل ہے نواز شریف صاحب نے تو بیان دیا ہے تاہم جو وزارت خارجہ کی طرف سے بیان آیا ہے وہ کافی کنفیوزنگ ہے ۔ یو این کا جو کردار ہے اس سے زیادہ کی امید رکھنا عقلمندی نہیں ہوگی کیونکہ یو این کو اسی فیصد بجٹ امریکہ دیتا ہے اورسٹیٹ سسٹم اسی طریقے سے چلتے ہیں جس میں غالب آنے کا عنصر ہمیشہ طاقتور کے پاس ہوتا ہے۔

طاقتور سٹیٹ کے طور پر امریکا اپنے کردار ادا کررہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان اس صورت حال میں کیا کر سکتا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ پاکستان امداد دے سکتا ہے۔ سکیورٹی کونسل میں قردارد پیش کر سکتا ہے اس چیز کے اوپر کہ رفاہ کا بارڈرجو مصر کی طرف ہے ،اس کو غیر مشروط طور پر کھولا جائے۔ ایک آخری بات جو بہت اہم ہے کہ جب ہم سٹیٹ اور انٹرنیشنل سسٹم کی بات کرتے ہیں تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہے جہاں ہم اسلامی ممالک کا اس تمام واقعے پر ردعمل کی بات کرتے ہیں تواسلامی ممالک ہوں یا کوئی بھی ملک اس کی طاقت محدود ہوتی ہے۔

ملک کی معاشی، سیاسی صورتحال اس بات کا اعادہ کرتی ہے کہ وہ ملک بین الا قوامی فورم پر کس حد تک بات کر سکتا ہے۔ اگر اندرونی طور پر ملک کی صورتحال خراب ہے جیسا کہ وزیرستان میں ہم صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں تو ہم کسی بھی ریاست سے یہ امید نہیں رکھ سکتے کہ وہ عملی طور پر کوئی کام کرے ، ہاں ہم بیانات ضرور جاری کرسکتے ہیںلیکن عملی طور پر کچھ نہیں کر سکتے۔ اسلامک ممالک کی صرف آپس میں ہی لڑائیاں نہیں ہیں بلکہ ان کی تحریکیں بھی بٹی ہوئی ہیں، شام میں دیکھ لیں وہاں پر جاری تحریکوں کو بین الاقوامی حمایت حاصل ہے۔

یہ ایک تو آپس میں ایک دوسرے کے خلاف تحریکوں کو ہوا دے رہے ہیں تاکہ دوسرا ملک کمزور ہو جائے اور یہ ممالک اندرونی طور پر بھی فرقہ پرستی کی لپیٹ میں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مصر اور ترکی ، فلسطین کی موجودہ صورتحال میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں مصر نے رفاہ کا بارڈر زخمیوں کی آمدورفت کے لیے دوبارہ بند کر دیا ہے اس صورتحال میں یہ کہنا مشکل ہو گا کہ مصر کوئی کردار ادا کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔