مُٹھی بھر لوگوں سے نجات کی دعا

اوریا مقبول جان  جمعـء 18 جولائی 2014
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

قوموں کی ذلت وپستی مُٹھی بھر لوگوں کی وجہ سے ہوتی ہے جنھیں قومیں اپنا رہنما تسلیم کر لیتی ہیں۔ وہ ان کے پیچھے آنکھیں بند کر کے چلنے لگتی ہیں۔ انھیں ان کی برائیاں، خامیاں ظلم اور زیادتیاں برداشت کرنے کی عادت ہو جاتی ہے۔لوگ ان کی محبت میں ایسے گرفتار ہو جاتے ہیں کہ ان کی ہر غلط بات پر ان کا دفاع کرتے ہیں اور ان کے خلاف اٹھنے والی حق کی آوازوں کے مقابل آکر کھڑے ہو جاتے ہیں۔

اللہ نے جہاں بھی بستیوں پر اپنے عذاب کا ذکر کیا ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہی مُٹھی بھر لوگ قرار دیے ہیں جو زندگی کے ہر شعبے میں اس قوم کی قیادت کر رہے ہوتے ہیں اور وہ قوم بلاچون و چرا ان کی ہر بات مان رہی ہوتی ہے۔ بلکہ اللہ نے ایک جگہ تو ان مُٹھی بھر لوگ کی تعداد بھی بتا دی ہے۔ یہ قوم ثمود تھی۔ جن پر حضرت صالح علیہ السلام مبعوث کیئے گئے۔ اللہ فرماتا ہے’’ اور شہر میں نو(9) شخص ایسے تھے جو ملک میں فساد کیا کرتے تھے اور اصلاح سے کام نہیں لیتے تھے۔ النمل48)۔ یہ آج سے تقریباً چار ہزار سال پہلے کا ذکر ہے، جب دنیا کی آبادی آج کے مقابلے میں انتہائی قلیل تھی۔

سات ارب کے قریب اس دنیا میں آج آپ کو ہر بستی میں ایسے نو افراد ضرور مل جائیں گے جن کا اس بستی پر کنٹرول ہوتا ہے۔ جو فساد پھیلاتے ہیں اور اصلاح سے کام نہیں لیتے۔ پانچ ہزار کی آبادی کے گائوں میں پانچ چھ ایسے زور آور لوگ ضرور موجود ہوتے ہیں جن کی دھونس اس گائوں پر مسلط ہوتی ہے۔ یہ خاندانی طور پر وڈیرے، جاگیردار بھی ہو سکتے ہیں، یا پھر قتل وغارت کرنے، منشیات کا اڈا چلانے والے یا جرائم پیشہ افراد بھی، جن کے خوف سے پورے کا پورا گائوں تھر تھر کانپ رہا ہوتا ہے۔ پوری بستی ان کے ہاتھوں میں یرغمال بنی ہوتی ہے۔

ان پانچ ہزار لوگوں میں سے اگر کوئی ایک بھی ان مُٹھی بھر لوگوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہو تو اسے عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے اور باقی ساری کی ساری بستی خوف سے سہم جاتی ہے۔ یہ خوف آخر کاران لوگوں کے اندر ان چند لوگوں کے ساتھ وفادری کا جذبہ پیدا کرتا ہے اور پھر ایک دن اس پانچ ہزار لوگوں کی بستی اور چند مُٹھی بھر لوگوں کے مفاد مشترک ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب یہ لوگ ان کے ہر اچھے اور بُرے میں ساتھی بن جاتے ہیں۔ وہ مُٹھی بھر لوگ جن کا منصب اصلاح ہوتا ہے وہ فساد پیدا کرتے ہیں اور باقی سب ان کے ساتھ۔ نہ کوئی برائی سے روکتا ہے اور نہ ہی اچھائی کا حکم دیتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب اللہ کا اٹل فیصلہ آجاتا ہے۔عذاب مسلط کرنے کا فیصلہ۔

عذاب کے فیصلے سے قبل اللہ اپنے مبعوث پیغمبروں کے ذریعے لوگوں کو بار بار ڈراتا ہے، وارننگ دیتا ہے تا کہ لوگ سنبھل جائیں، باز آجائیں۔ لیکن سیّد الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چونکہ نبوت کا دروازہ بند ہو چکا ہے،اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے بعد نبوت نہیں بلکہ مبشرات رہ جائیں گی۔ صحابہ نے سوال کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبشرات کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سچے لوگوں کے سچے خواب۔ پھر فرمایا سچے خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہیں۔

انبیاء اپنی امتوں کو ڈراتے اور وہ اکڑ جاتیںتو عذاب کی مستحق ہوتیں۔ لیکن پورے قرآن پاک میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک قوم کا ذکر اسقدر محبت اور دوسری امتوں سے اس روّیے کی امید کے ساتھ کیا ہے کہ یوں محسوس ہوتا کہ اللہ کے عذاب سے بچنے کا اس سے تیر بہدف اور کوئی نسخہ ہی نہیں ہے۔ یہ قومِ یونس تھی اللہ۔’’ پھر کیا ایسی کوئی مثال ہے کہ ایک بستی عذاب دیکھ کر ایمان لائی ہو، سوائے یونس علیہ السلام کی قوم کے اور جب وہ یقین لے آئی تو ہم نے اس پر سے دنیا کی زندگی میں ذلت رسوائی کا عذاب ٹال دیا اور ان کو ایک مدت زندگی سے لطف اندوز ہونے کا موقع دے دیا تھا۔‘‘(یونس98)۔

یہ تقریباً تین ہزار سال قبل کا واقعہ ہے، اسے 860قبل مسیح سے 784قبل مسیح کے درمیان کابتایا جاتا ہے۔ موجودہ عراق کے شہر موصل کے عین سامنے حضرت یونس علیہ السلام کی قوم اشوّریَ رہتی تھی جن کا مرکزنینویٰ کا مشہور شہر تھا۔ اس کے کھنڈرات آج بھی دریائے دجلہ کے ساتھ موجود ہیں۔ یہ اس قدر بڑی قوم تھی کہ ان کا داراسلطنت نینویٰ تقریباً60میل یا100کلومیٹر کے قطر پر محیط تھا۔ اس قوم کا حال بالکل ہماری طرح تھا جو حضرت یونس کے سامنے ایسے سوال کیا کرتی تھی،’’ کہاں ہے‘‘، ’’کدھر ہے‘‘،’’ کیسا ہے تمہارا عذاب‘‘۔ آپ ان کے تمسخرپر ہمیشہ یہ جواب دیتے کہ اللہ کا عذاب مانگنے میں جلدی مت کرو۔ اور ایک دن اللہ نے عذاب نازل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

حضرت یونس علیہ السلام اپنی قوم کو اس عذاب کی اطلاع دینے کے بعد اللہ سے اجازت لیے بغیر شہر سے چلے گئے۔ اشوّریوں نے جب دیکھا کہ پیغمبر ہمارے درمیان موجود نہیں تو انھیں اندازہ ہو گیا کہ اب عذاب آئے گا۔ پوری کی پوری قوم اجتماعی طور پر گڑ گڑا کر اللہ کے حضور استغفار کرنے لگی اور معافی کی طلب گار ہوئی اور اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے نہ صرف عذاب کو ٹالا بلکہ ان کی مہلتِ عمر میں بھی اضافہ کر دیا اور انھیں ایک عرصے تک زندگی کا لطف اٹھانے دیا۔ یہ مدت تقریباً دو سوسال بنتی ہے۔ لیکن جیسے ہی اس اشوّری قوم سے عذاب ٹلا تو وہ پھر مست ہوگئی۔ حضر ت یونس کے بعد ’’نا حوم‘‘ نبی آئے جو 720قبل مسیح سے698قبل مسیح کے زمانے میں آئے تھے۔

انھوں نے ڈرایا، کوئی اثر نہ ہوا، پھر640قبل مسیح میں صفنیاہ نبی آئے،وہ 612قبل مسیح تک رہے۔ یہ قوم جو یہ سمجھتی تھی اب ہمیں طویل مہلت مل چکی ہے، اپنے حال میں ہی مست رہی۔ لیکن اب آگیا عذاب کا اٹل فیصلہ۔ نینویٰ، تہذیب کا مرکز، عظیم قوم، عیش و عشرت سے رہنے والی، لیکن اللہ نے ان کے پڑوس میں رہنے والی’ میڈیا‘‘ قوم کو ان پر مسلط کر دیا۔ میڈیا والے اس قوم پر چڑھ دوڑے، اشوّری شکست کھا کر نینویٰ شہر میں محصور ہو گئے، میڈیا والوں نے محاصرہ کر لیا۔لیکن اب اللہ کی نصرت نہیں اللہ کا عذاب سامنے تھا۔ دریائے دجلہ میں ایک دن طغیانی آئی اور نینویٰ شہر کی مضبوط فیصل دھڑام سے گرگئی۔

میڈیا والے اس شہر پر چڑھ دوڑے اور انھوں نے پورے کا پورا شہر  جلا کر راکھ کر دیا۔ اشّوری قوم کا بادشاہ اپنے محل میں جل کر خاکستر ہو گیا۔ اس سلطنت اور تہذیب کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا اور آج موصل کے سامنے ان کے کھنڈرات نظر آتے ہیں جو آتش زدگی کے نشان لیے ہوئے ہیں۔ وہ قوم جس کے آبائو اجداد نے اجتماعی استغفار کر کے اللہ سے مہت  لے لی تھی، اس کی اگلی نسلوں نے نافرمانیوں سے اپنے آپ عذاب کا مستحق بنا لیا۔ہمارا حال بھی ایسا ہی ہے۔

ہمیں بھی با ربار مہلت ملی، ہم سے بار بار مصیبتں اور پریشانی ، عذاب اور ابتلا ٹالے گے۔ دوبارہ زندگی گذارنے اور اس سے لطف اندوز ہونے کی مہلت بھی دی گئی۔ وہ اہل نظر جن کو سچے خوابوں سے اور مبشرات کے ذریعے اللہ نے خبر دے دی تھی کہ اللہ ہم سے ناراض ہے۔یہ صاحبان ِ نظر گذشتہ پانچ سالوں سے اس قوم کو حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی طرح اجتماعی استغفار کی استدعا کرتے رہے۔ ان کا پانچ سال تمسخر اڑایا جاتارہا۔ عذاب گہرا ہوتا چلا گیا۔ اللہ اپنے عذاب کی ایک شکل معیشت ضنکا‘‘ بھی بتاتا ہے۔ یعنی میں تمہاری گذران مشکل کردوں گا۔

’’ہماری گذران مشکل ہوچکی ہے۔ ہم اذیت ناک کیفیت میں ہیں لیکن ہم نے اللہ سے رجوع کرکے معافی طلب نہ کی۔ ان مُٹھی بھر لوگوں کی وجہ سے ہم پر آج جو عذاب مسلط ہوا وہ شدید تر ہوتا چلا گیا۔ لیکن قوم استغفار کرتی توشاید ٹل جاتا تھا۔اللہ کی ناراضی کی ایک اور علامت بدترین حکمرانوں کا مسلط ہونا بھی ہے۔ یہ مُٹھی بھر لوگ جن کی وجہ سے عذاب آتا ہے۔ ایسے میں اس بدنصیب قوم کے پاس دعا کے سوا ہے ہی کیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق’’ ایک زمانہ ایساآئے گا کہ مومن کے پاس دعا کے سوا کوئی ہتھیار نہ ہوگا‘‘۔ یہ ہتھیار کب استعمار کرنا ہے، کیسے استعمال کرنا ہے۔

مایوس قوم کے لیے شاید او ر کوئی راستہ باقی ہی نہیں۔ ایک صاحب نظر تشریف لائے۔۔۔ کہنے لگے، کتنے سالوں سے لکھ رہے ہو اجتماعی استغفار کا، کوئی مانا، نہیں، مت لکھو، لوگوں سے کہو رمضان کی ستائیسویں شب ساڑھے بارہ بجے کے بعد اللہ سے گڑ گڑا کر ظالموں سے نجات کی دعا مانگیں۔ کہنے لگے ان سے کہووہ دعا کرو جو حضرت نوح نے کی تھی’’ اے میرے رب! ان میں سے کوئی زمین پر بسنے والا نہ چھوڑنا، اگر تو نے چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی نسل سے بھی جو پیدا ہوگا وہ بدکار اور سخت کافر ہوگا(نوح26)۔

اللہ سے ان مُٹھی بھر لوگوں سے نجات کی درخواست کرو۔ اگر اس رات لوگوں نے آنسوئوں سے روتے ہوئے اتنا بھی کہہ دیا ’’ربّ اِنّیِ مَغْلُوب’‘ فَاْنتصَرِ‘‘۔(اے اللہ میںمغلوب ہوں اب تو ہی میرا بدلہ لے)، پھر دیکھنا کیسے نجات کی گھڑیاں آتی ہیں اور کیسے ظالم اور ان کی نسلیں اپنے انجام کو پہنچتی ہیں۔شرط یہ کہ اس مقدس رات کے اس پہر، صرف ظالموں سے نجات کی دعا، آنسوئوں سے تر آنکھوں اور دل کی خشیٔت کے ساتھ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔