ذرایع نقل و حمل کی ترقی

ایم آئی خلیل  جمعـء 18 جولائی 2014

گزشتہ دنوں وزیراعظم پاکستان نواز شریف نے چکوال، ساہیوال روڈ کے تعمیراتی کاموں کا افتتاح کیا۔

اس موقعے پر چکوال میں ڈھوڈیال کے مقام پر مختلف ترقیاتی منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ موجودہ حکومت معاشی ترقی کے حصول کے لیے سڑکوں کی تعمیر پر بہت زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے وزیراعظم نواز شریف نے ’’گرین لائن ان کراچی‘‘ منصوبے کا اعلان کیا، جس کی مجموعی لاگت 15 ارب روپے ہوگی۔ جب کہ کراچی، لاہور موٹروے منصوبے کے لیے 55 ارب روپے اس مقصد کے لیے رکھے گئے ہیں تاکہ اراضی حاصل کی جاسکے۔ وفاقی حکومت نے کراچی کے لیے کئی میگا پروجیکٹس کا اعلان کیا ہے۔

کراچی سرکلر ریلوے منصوبہ جس کی تکمیل کی راہ میں تجاوزات کو سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا جا رہا ہے۔ کراچی میں فراہمی آب کے لیے ایک بڑے منصوبے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ملیر موٹروے کی بھی اصولی منظوری دے دی گئی ہے۔ اس منصوبے کے لیے 42 ارب روپے مختص کیے جائیں گے۔ اس منصوبے کی تکمیل سے اہل ملیر کے لیے نقل و حمل کی تیز تر سہولیات حاصل ہوجائیں گی۔ ملیر کی آبادی کی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

پاکستان میں آبادی کا بہت بڑا حصہ سڑکوں کے ذریعے سفر کو ترجیح دیتا ہے۔ پاکستان کے نظام نقل و حمل میں روڈ ٹرانسپورٹ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ سڑکوں کے ذریعے 90 فیصد سے زائد مسافر برداری اور 95 فیصد سامان کی نقل و حمل ہوتی ہے۔ روڈز کی تعمیر کے باعث اشیا و خدمات اپنے مقام پیداوار سے ان علاقوں میں منتقل کی جاسکتی ہیں جہاں انھیں صرف کیا جاتا ہو۔

پاکستان میں پختہ سڑکوں کے ساتھ کچی سڑکیں بھی موجود ہیں۔ جیسے جیسے یہ کچی سڑکیں پختہ ہوتی چلی جاتی ہیں کچی سڑکوں کا تناسب گھٹتا چلا جاتا ہے۔ اب بھی لاکھوں میل لمبی کچی سڑکیں موجود ہیں۔ جنھیں پختہ نہیں کیا جاسکا ہے۔ ایسی کچی سڑکیں عموماً برسات کے موسم میں ناقابل استعمال ہوجاتی ہیں۔ جس کے باعث بہت سے علاقے قریبی قصبوں اور شہروں سے کٹ کر رہ جاتے ہیں۔ یہی حال ندی نالوں پر پلوں کی تعمیر نہ ہونے کے سبب ہوتا ہے کہ جیسے ہی برسات شروع ہوتی ہے ندی نالے پانی سے لبریز ہوجاتے ہیں۔

اب قرب و جوار کے علاقے کے لوگوں کو قریبی قصبوں یا شہروں تک پہنچنے کے لیے کافی طویل مسافت طے کرنا پڑتی ہے، لہٰذا اس طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ جتنے بھی کچے راستے ہیں، ان میں پختہ سڑکیں تعمیر کردی جائیں۔ اور جہاں پلوں کی ضرورت ہے وہاں پلوں کی تعمیر میں تاخیر نہ کی جائے۔ کیونکہ ان ہی سڑکوں اور پلوں کے ذریعے ہی مختلف علاقوں میں پایا جانے والا خام مال، زرعی پیداوار کو ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقل کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح زرعی پیداوار کے ضیاع کو کم سے کم کیا جاسکتا ہے۔

پاکستان میں اس وقت جتنا بھی روڈز کا نیٹ ورک ہے وہ ملک کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ بروقت مختلف روڈز کی تعمیر کے علاوہ انھیں جدید سہولیات اور ترقی دینے کی ضرورت ہے۔ ملک بھر کی سڑکیں زیادہ تر ٹوٹی پھوٹی رہتی ہیں۔ مختلف اداروں کے مابین رابطہ نہ ہونے کے باعث ایک بار سڑک بنتی ہے پھر ادھیڑ دی جاتی ہے ، مختلف محکموں کی جانب سے مہینوں کام چلتا رہتا ہے، لیکن مسئلہ پھر بھی جوں کا توں ہی رہتا ہے۔

کبھی پانی کی پائپ لائن پھٹ گئی تو پوری سڑک کی خیر نہیں، کبھی سڑک کو توسیع دینا ہو تو سڑک ہی بند کردی جاتی ہے ،کبھی سیلاب آگیا تو سیکڑوں میل لمبی سڑک سیلاب کے ساتھ ہی بہہ کر چلی جاتی ہے۔ کچھ ایسا ہی پلوں کا ہوتا ہے کہ کہیں خبر آئی کہ پل ہی بیٹھ گیا ہے۔ پل کا ایک حصہ ٹوٹ گیا ہے۔ پل تعمیر ہوئے چند ماہ گزرے تھے کہ اب ہیوی ٹریفک گزارنے کے قابل نہیں ہے۔ اس طرح کے واقعات کی بھرمار ہے اس کی اصل وجہ روڈز کی تعمیر ہو یا پلوں کی تعمیر ان میں ناقص میٹریل استعمال کیا جاتا ہے۔

کسی وقت ذرایع نقل و حمل کے طور پر ریلوے کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل تھی۔ آج بھی بہت سے لوگ ریل کو سامان و پیداوار کی منتقلی اور سفری مقاصد کے لیے دیگر ذرایع کی نسبت ترجیح دیتے ہیں کیونکہ بہت بھاری اور زیادہ حجم والی اشیا کو روڈز کے ذریعے لے جانا زیادہ مہنگا ثابت ہوتا ہے۔ لہٰذا ریلوں کے ذریعے بھاری اور زیادہ حجم کی اشیا کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک باآسانی منتقل بھی کیا جاسکتا ہے اس پر اخراجات بھی کم آتے ہیں۔ نظام نقل و حمل میں جدید ترین ریلوے پاکستان کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

پہلے بھی پاکستان ریلوے ملک میں صنعت و تجارت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر رہا تھا۔ ریلوے چونکہ حکومتی کنٹرول میں ہوتا ہے لہٰذا حکومت عوام کے لیے سستی سفری سہولیات مہیا کرتی ہے۔ ریلوے کے کرایوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بس مالکان اپنے کرایوں کی شرح کو ایک حد کے اندر رکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس طرح سے وہ عوام کا استحصال کرنے میں زیادہ کامیاب نہیں ہوتے۔ حکومت کراچی، لاہور موٹرویز پر 246 ارب روپے خرچ کرنے کا عندیہ دے چکی ہے اس کے علاوہ عوام کی بڑھتی ہوئی ضروریات کا خیال کرتے ہوئے پاکستان کے ریلوے نظام کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرنے، اور دیگر سہولیات کی فراہمی کے علاوہ ریلوے کو ترقی دینے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

کراچی لاہور ٹرین سروس کو مزید تیز رفتار بنانے کی ضرورت ہے۔ درمیان میں واقع ریلوے اسٹیشنز جو اب غیر آباد ہوگئے انھیں آباد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کو سستا اور تیز ترین نقل و حمل کا ذریعہ دستیاب ہو۔ اس پر کئی سو ارب خرچ کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ بیس پچیس ارب روپے میں یہ تمام مراحل طے ہوسکتے ہیں۔ موٹر وے منصوبہ جس کی تکمیل پر کئی سال صرف ہوجائیں گے۔

اس کے ساتھ اگر ریلوے نظام کی ترقی اسے تیز رفتار بنانے، نیز کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے علاوہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ریلوے کا سفر اکثر ٹرین لیٹ ہونے کی وجہ سے طویل ہوجاتا ہے اور عوام کے لیے شدید کوفت کا باعث بن جاتا ہے۔ اسے مکمل طور پر وقت کا پابند بنایا جائے۔ اور دیگر سہولیات جوکہ اکثر و بیشتر نایاب ہوتی ہیں ان کی دستیابی کے بھی مکمل انتظامات کیے جانے چاہئیں۔ پاکستان ریلوے کے نظام میں تقریباً 7 ہزار 8 سو کلومیٹر ریلوے لائن شامل ہے۔

پاکستان میں 2007-08 کے دوران 2 لاکھ 58 ہزار کلومیٹر سڑک موجود تھی جس میں سے Low Type سڑک تقریباً 84 ہزار کلومیٹر تھی باقی کا شمار High Type سڑک میں کیا جاتا ہے۔ 2008-09 میں روڈز کی طوالت اتنی ہی برقرار رہی۔ البتہ 2009-10 میں بڑھ کر 2 لاکھ 60 ہزار کلومیٹر تک جاپہنچی۔ جوکہ 2011-12 میں 2 لاکھ 61 ہزار کلومیٹر اور 2012-13 میں 2 لاکھ 63 ہزار کلومیٹر تک جا پہنچی البتہ اب Low Type سڑک کی طوالت کم ہوکر 80 ہزار کلومیٹر تک رہ گئی۔ نیشنل ہائی وے کے پاس کل روڈز کا تقریباً 4 فیصد حصہ ہے۔

موٹروے کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم بنتا ہے۔ باقی تمام حصے صوبائی حکومتوں لوکل انتظامیہ میونسپل کارپوریشن کنٹونمنٹ بورڈ اور دیگر ڈیولپمنٹ اتھارٹیز کے تحت آتے ہیں۔ وہی ان کی ٹوٹ پھوٹ یا تعمیر کے ذمے دار ہوتے ہیں۔ تمام سڑکوں کا تقریباً 41 فیصد پنجاب میں ہے 31 فیصد صوبہ سندھ میں 16 فیصد کے پی کے صوبہ اور 11 فیصد صوبہ بلوچستان میں ہے۔ ملک کے طول و عرض میں بے شمار علاقے ایسے ہیں جہاں سڑک بنانے کی انتہائی سخت ترین ضرورت ہے، لیکن کبھی وفاقی حکومت کے پاس فنڈز نہیں ہیں اور کبھی صوبائی حکومت کے پاس اور کبھی ضلعی انتظامیہ اس طرف توجہ نہیں دیتی۔

بہرحال ملک کی معاشی ترقی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے کہ حکومت ملک بھر میں سڑکوں کا جال بچھائے ریلوے نظام کو نہ صرف ترقی دی جائے بلکہ نئے ریلوے اسٹیشنز بھی تعمیر کیے جائیں۔ موٹروے کی تعمیر ہو یا پلوں کی تعمیر ان میں تیز رفتاری لائی جائے تاکہ عوام کو سہولیات میسر آسکیں۔

اصل معاملہ اس بات کا ہے کہ سڑکوں کی تعمیر و ترقی کے ساتھ عوام کو سستی ٹرانسپورٹ بھی مہیا کی جائیں سڑکوں کی تعمیر کے بعد ان پر چلنے والی گاڑیوں بسوں پر اتنا ٹیکس عائد کردیا جاتا ہے کہ وہ بالآخر بڑھتے ہوئے کرایوں کی صورت میں عوام پر ناروا بوجھ ڈال کر وصول کرلیا جاتا ہے۔ حکومت کو اس طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ موٹرویز اور گرین لائن کی تعمیر کے بعد اس پر چلنے والی بسوں کا کرایہ کہیں زیادہ تو نہیں ہے ۔ اس پر عوام کی رائے طلب کرنا ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔