بولنے کی عادت

آفتاب احمد خانزادہ  جمعـء 18 جولائی 2014

وہ تمام لوازمات جو کسی بھی تحریک میں جان ڈالنے کے لیے درکار ہوتے ہیں حکومت اپنی حد سے زیادہ سمجھ داری سے یاانتہائی بے وقوفی سے اپوزیشن کو اپنے ہاتھوں مہیا کرچکی ہے۔ ملکی حالات اب اس موڑ پر آکے کھڑے ہوگئے ہیں کہ حکومت اگر اچھا کرے گی بھی تو بھی اس کے لیے برا ثابت ہوگا اوراگر برا کرے گی تو ظاہر ہے برا ہی ہوگا۔

جب آپ پر برا وقت شروع ہوجائے تو پھر آپ کے مخالفین کو کچھ بھی نہیں کرنا ہوتا اس کا کام بھی آپ ہی کردیتے ہیں کیونکہ بوکھلاہٹ، گھبراہٹ اور جھنجھلاہٹ کے عالم میں کیے گئے تمام فیصلوں اور اقدامات کے نتائج ہمیشہ آپ کے خلاف جاتے ہیں ۔اپنی جلائی ہوئی آگ کو کبھی آپ خود نہیں بجھا سکتے ہیں اس بات پر تو اب سب متفق ہیں کہ حکومت اس وقت بالکل تنہا ہے جب کہ دیگر جماعتیں دوسری جانب ہیں۔

ظاہر ہے ملک کے عوام 18/18 گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ برداشت کرکے آپ کی حمایت میں نہیں بولیں گے ۔ بیروزگاری ، غربت، بھوک ، افلاس ، مہنگائی سے تنگ آکر اپنے جسموں کے اعضا ء فروخت کر نے والے اپنے لخت جگر وں کی سر عام بولی لگانے والے اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ اجتماعی خودکشیاں کرنے والے آپ کی خیر خواہی نہیں چاہیں گے ۔

حکومت چاہے تو عمران خان ، ڈاکٹر طاہر القادر ی ، شیخ رشید ، چوہدری برادران اور ان کے تمام رفقا ء ساتھیوں ان کے تمام پرستاروں اور تمام کارکنوں کو نظر بند بھی کردے اور اپنے ایک بھی مخالف کو آزاد نہ چھوڑے پھر بھی عوامی حمایت کا رخ نہیں بدلا جا سکتا ۔ حکمران اگر اب بھی خود کو مضبوط ، طاقتوراور مستحکم سمجھ رہے ہیں تو غلطی پر ہیں عوام کوہر بات اچھی طرح سے سمجھ میں آرہی ہے کیونکہ عوام سمجھ دار ہیں وہ یہ بھی اچھی طرح سے سمجھ رہے ہیں کہ جب آپ اپنے آپ کو طاقتور ،مضبوط ہونے کی بات کرتے ہیں اور مخالفین کے خلاف طاقت استعمال کرنے کی بات کرتے ہیں تواصل میں آپ اپنی کمزوری کا علی الاعلان کررہے ہوتے ہیں ۔

سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ حکمرانوں کے وزراء جو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کی کوششوں میں مصروف ہوتے ہیں انھیں بولنے کی بیماری ہوتی ہے بغیر سوچے سمجھے بغیر تولے بولے ہی چلے جاتے ہیں وقت سب سے بڑی درس گاہ ہوتا ہے لیکن وہ اس سے سبق نہیں سیکھتے ہیں ۔ مشہور کہاوت ہے کہ جب بچہ سیکھنے کا آرزو مند ہوتا ہے تو استاد فوراً وہاں آجاتا ہے وہ روز اپنے خوف اورکمزوری کا بھانڈا سر عام پھوڑتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں تمام حکومتیں جب کمزوری کی انتہائی نچلی سطح پر پہنچیں ان تمام میں ایک حیرت انگیز مماثلت پائی گئی ہے کہ ان کے وزراء اپنے آخری وقتوں میں الٹی سیدھی باتیں کرتے ہیں ۔ حکومت کو طاقت عوام فراہم کرتے ہیں جو حکومت عوام کی طاقت کے بجائے پولیس اور ریاست کی طاقت کو اپنی طاقت سمجھنے لگ جاتی ہے تو سمجھ لیں کہ حکومت عقل اور دانش سے محروم ہوچکی ہے ۔

دنیا کی تاریخ میں کسی بھی حکمران کو اس کی ریاست کی طاقت یا پولیس نہیں بچا پائی ہے افلاطون کہتا ہے سیاست کو سمجھنے کے لیے ہمیں نفسیات کو سمجھنا پڑتاہے۔ انسان اور مملکت میں مشابہت ہے حکومتوں میں بھی ایسا ہی فرق ہوتا ہے جیسا کہ انسان کی سیرتوں میں ہوتا ہے مملکت فطرت انسانی کی بنی ہوئی ہوتی ہے اس لیے ہم اس وقت تک بہتر مملکتوں کی توقع نہیں کرسکتے جب تک ہمارے پاس بہتر آدمی نہ ہوں۔

کیسے دلچسپ و ہ لوگ ہوتے ہیں جو ہمیشہ علاج کراتے اور اپنی تکلیفوں کو بڑھاتے اور پیچیدہ بناتے چلے جاتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ کہیں سے کوئی عطائی نسخہ ہاتھ آجائے گا اور وہ اچھے ہوجائیںگے مگر ان کی حالت ہمیشہ بد سے بدتر ہوتی چلی جاتی ہے اور ان کو یہ علم نہیں ہوتا کہ وہ در حقیقت ایک ہائڈر گا رجیاس (یونانی ضمیات میں ہائڈر اس سانپ کو کہتے ہیں جس کے ایک سر کے کاٹنے کے ساتھ ہی اوربہت سے سر پیدا ہوجائیں) کا سر کاٹ رہے ہیں ۔ ہماری حکومت بھی آج کل درحقیقت ایک ہا ئڈ ر گارجیاس کا سر کاٹنے میں مصروف ہے ۔

آئیں ذرا ایک کہانی ملاحظہ کرتے ہیں ’’ میری ماں مجھ سے اکثر پوچھتی تھی کہ بتاؤ جسم کا اہم ترین حصہ کونسا ہے میں سال ہا سال اس کے مختلف جواب یہ سو چ کر دیتا رہا کہ شاید اب کے میں صحیح جواب تک پہنچ گیا ہوں۔ جب میں چھوٹا تھا تو میرا خیال تھا کہ آواز ہمارے لیے بہت ضروری ہے لہذا میں نے کہا امی میر ے کان انھوں نے کہا نہیں۔ دنیا میں بہت سے لوگ بہرے ہوتے ہیں تم مزید سوچو میں تم سے پھر پوچھوں گی۔ بہت سے سال گذرنے کے بعد انھوں نے پھر پوچھا میں نے پہلے سے زیادہ ذہن پرزور دیا اور بتایا کہ امی نظرہر ایک کے لیے بہت ضروری ہے۔

لہذا اس کا جواب آنکھیں ہونی چاہیں۔ انھوں نے میری طرف دیکھا اور کہا تم تیزی سے سیکھ رہے ہو لیکن یہ جواب صحیح نہیں ہے کیونکہ دنیا میں بہت سے لوگ اندھے ہیں پھر ناکامی ہوئی اور میں مزید علم کی تلاش میں مگن ہوگیا اور پھر بہت سے سال گذرنے کے بعد میری ماں نے کچھ اور دفعہ یہ ہی سوال دہرایا اور ہمیشہ کی طرح ان کا جواب یہ ہی تھا کہ نہیں۔ لیکن تم دن بدن ہوشیار ہوتے جا رہے ہو۔ پھر ایک سال بعد میرے دادا وفات پاگئے ہر کوئی غمزدہ تھا ہر کوئی رو رہا تھا یہاں تک کہ میرے والد بھی روئے یہ مجھے خاص طور پر اس لیے یاد ہے کہ میں نے کبھی انھیں روتے نہیں دیکھا تھا۔

جب جنازہ لے جانے کاوقت ہوا تو میری ماں نے پھر پوچھا کیا تم جانتے ہو کہ جسم کا سب سے اہم حصہ کونسا ہے تو مجھے بہت تعجب ہوا کہ اس موقعے پر یہ سوال، میں تو ہمیشہ یہ ہی سمجھتا رہا کہ یہ میرے اور میری ماں کے درمیان ایک کھیل ہے۔ انھوں نے میرے چہرے پر عیاں الجھن کو پڑھ لیا اور کہا یہ بہت اہم سوال ہے تم نے جو جوابات مجھے دیے تھے وہ غلط تھے اور اس کی وجہ بھی میں نے تمہیں بتائی تھی کہ کیوں لیکن آج وہ دن ہے جب تمہیں یہ اہم سبق سیکھنا ہے انھوں نے ایک ماں کی نظر سے مجھے دیکھا اور میں نے ان کی آنسوؤں سے بھری آنکھیں دیکھیں۔ انھوں نے کہا بیٹا جسم کا اہم ترین حصہ ’’کندھے ‘‘ ہیں ۔

میں نے پو چھا کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے میرے سر کو اٹھا رکھا ہے انھوں نے کہا نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آپ کا کوئی پیارا کسی تکلیف میں رو رہا ہو تو یہ کندھے اس کے سر کو سہارا دے سکتے ہیں ہر کسی کو زندگی میں کبھی نہ کبھی ان کندھوں کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں صرف یہ امید اور دعا کرسکتی ہوں کہ تمہاری زندگی میں بھی وہ پیارے اور مخلص لوگ ہوں کہ ضرورت پڑنے پر جن کے کندھے پر تم سر رکھ کر رو سکو۔ ‘‘کسی بھی سیاست دان کے لیے سب سے قیمتی چیزعوام ہوتے ہیں جو وقت پڑنے پر اپنے کندھے سمیت ہر چیز ان پر قربان کردیتے ہیں ۔ حکمران !حکومت بچاتے بچاتے سارے کندھے مت کھودے کہیں ایسا نہ ہو کہ مشکل وقت میں کسی پیارے اور مخلص کا کندھا بھی نہ ملے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔