(میڈیا واچ)- یہ متیرہ ہیں!

فرخ اظہار  اتوار 20 جولائی 2014
رمضان کے بابرکت اور رحمتوں بھرے مہینے میں متیرہ کےاس روپ نے مجھے حیران بھی کیا اور بہت سوں کو شرم سار بھی ہونا چاہیے۔ فوٹو ایکسپریس نیوز

رمضان کے بابرکت اور رحمتوں بھرے مہینے میں متیرہ کےاس روپ نے مجھے حیران بھی کیا اور بہت سوں کو شرم سار بھی ہونا چاہیے۔ فوٹو ایکسپریس نیوز

انہیں پہچان گئے؟ یہ متیرہ ہیں۔ ہاں یہ وہی متیرہ ہیں جنہوں نے کچھ عرصہ قبل ’’جوش‘‘ میں سب کے ’’ہوش‘‘ اڑا دیے تھے۔ سر پر دوپٹہ جمائی ہوئی متیرہ آج بہت مختلف نظر آرہی ہیں۔ آپ میں سے بہت سے ایسے ہوں گے، جنہیں متیرہ اپنی بے باکی اور آزاد خیالی کی وجہ سے ناپسند ہوں گی۔ متیرہ پر بے حیائی کا لیبل لگاتے ہوئے آگے مت بڑھ جائیں۔ یہ ویڈیو پیغام ضرور سنیں۔

کچھ دیر کے لیے ان کے ماضی کو فراموش کر دیں تو آپ کو یقین آجائے گا کہ انسانیت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اس کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور یہ کسی مسجد، مندر، گررد وارے، گرجا، آتش کدے میں موجود متقی، پرہیز گار اور عبادت گزار تک محدود نہیں۔ یہ کسی شعبے اور طبقے کی ملکیت بھی نہیں اور اس کے لیے کسی کا ماضی اور کردار پرکھنے کی ضرورت بھی نہیں بلکہ ہر دھڑکتا دل ظلم، بربریت اور قتل و غارت گری پر تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اس کے خلاف آواز بلند کرسکتا ہے۔ متیرہ نے بھی انسانیت کی بات کی ہے۔ وہ معصوم فلسطینوں پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف اپنے اس ویڈیو پیغام کے ذریعے پاکستانیوں کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہیں۔

اب اسرائیلی وزیراعظم نے غزہ میں زمینی کارروائی کا اعلان کردیا ہے اور صیہونی فوج ٹینکوں کی مدد سے انسانوں کا خون بہانے میں جٹ گئی ہے۔ اس بلاگ کی اشاعت تک کئی روز سے جاری بربریت کے دوران شہدا کی تعداد 300 سے بڑھ چکی ہوگی اور 1600زخمیوں کی تعداد میں مزید بچے، بوڑھے، عورتیں اور جوان اضافہ کر چکے ہوں گے۔

پاکستان کے مختلف شہروں میں سماجی اور مذہبی تنظیموں کی جانب سے معصوم اور نہتے فلسطینوں پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری اور قتل و غارت گری کی مذمت میں ریلیاں نکالی جارہی ہیں اور جلسے جلسوں میں اپنے فلسطینی بھائیوں کا ساتھ دینے اور کڑے وقت میں ان کی امداد کے لیے تقریریں کی جارہی ہیں، لیکن یہ بھی درست ہے کہ حکومتی اور سیاسی نمائندے افطار ڈنر میں مصروف ہیں۔کوئی اپنی کرسی بچانا چاہتا ہے، تو کوئی مڈٹرم الیکشن کے لیے راہ ہموار کررہا ہے۔ کسی کو انقلاب کی فکر ہے تو کوئی عوامی منصوبوں کے فنڈز ہڑپ کرنے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھا ہوا ہے۔ حکم رانوں اور سیاست دانوں بیان آیا تو فقط رسمی، لفظوں کا ہیر پھیر تھا اور بس۔

دوسری جانب شوبز انڈسٹری میں بھی افطار پارٹیاں زوروں پر ہیں۔ فن کاروں کی عید کی تیاریاں بھی بس اب شروع ہونے کو ہیں۔ ٹیلی ویژن چینلز رنگا رنگ پروگرامز پیش کر کے بازی لے جانے کی تیاری میں مصروف نظر آرہے ہیں، لیکن ان کی جانب سے بھی فلسطینیوں کے لیے کوئی حقیقی آواز سنائی نہیں دی ہے۔

لیکن رمضان کے بابرکت اور رحمتوں بھرے مہینے میں متیرہ کے اس روپ نے مجھے حیران بھی کیا اور بہت سوں کو شرم سار بھی ہونا چاہیے۔ یہ فیشن اور شوبزنس کی دنیا سے بلند ہونے والی پہلی آواز ہے، جو رسمی نہیں لگتی، جس کا مقصد میڈیا میں کوریج حاصل کرنا نہیں۔ انہوں نے اپنے مخصوص لب و لہجے میں اسرائیلی وحشت اور بربریت کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس کے خلاف آواز اٹھائیں اور انسانیت کی خاطر میدانِ عمل میں نکلیں۔

متیرہ کا کہنا ہے کہ ٹیلی ویژن چینلوں پر رنگا رنگ پروگراموں کے ساتھ جلتے اور مرتے ہوئے غزہ کی پکار بھی سنائی جائے۔ پاکستانی عوام سے ان کی اپیل ہے کہ فلسطینیوں کے حق میں دعا کریں۔ وہاں بچے پیاسے ہیں۔ علاج معالجے کو ترس رہے ہیں۔ بھوک سے تڑپ رہے ہیں اور انہیں امداد کے ساتھ ہماری دعاؤں کی بھی ضرورت ہے۔ اگر ہم ذہنی اور جسمانی طور پر ان کے لیے کچھ کرنا چاہیں تو بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ جاتے جاتے حضرت علی سے منسوب ایک خوب صورت جملہ یہاں نقل کررہا ہوں۔

فرماتے ہیں؛

یہ مت دیکھو کون کہہ رہا ہے، یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے۔

متیرہ کے بارے میں آپ کی رائے کچھ بھی ہو، لیکن اس کی بات ضرور سنیے کہ یہ مذہب، ثقافت یا فیشن اور اسٹائل کا نہیں بلکہ انسانیت کا مسئلہ ہے۔ متیرہ آپ کو بھی رمضان مبارک ہو اور فلسطینیوں کے حق میں دعا کرتے ہوئے کہوں گا کہ خدا تعالی آپ کو بھی مزید نیک عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔