پرنالہ وہیں گرے گا…

رئیس فاطمہ  ہفتہ 19 جولائی 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

چند دن قبل وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف کا ایک بیان اخبارات میں شہ سرخیوں کے ساتھ لگا، اور تمام ٹی وی چینلز نے بھی اسے نشر کیا۔ قابل احترام وزیر موصوف نے بڑے دکھی دل کے ساتھ اس حقیقت کا برملا اعتراف کیا، جسے پوری قوم بہت پہلے سے جانتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ’’پاکستان میں سارے کام اللہ کی مدد سے چل رہے ہیں‘‘ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ عوام نماز پڑھیں، توبہ و استغفار کریں، اور بارش کی دعا کریں کیونکہ بارش ہی بجلی کا بحران ختم کر سکتی ہے۔

یہ بات تو سچ ہے کہ پاکستان کو خدا ہی چلا رہا ہے۔ اگر کسی دہریے کو چند دن کے لیے پاکستان لایا جائے تو وہ دوسرے ہی دن خداوند تعالیٰ پر ایمان لے آئے گا۔ ویسے بھی مغربی ممالک سے آنے والے لوگ (سیاح نہیں۔ سیاحوں کے لیے اب یہ خطہ جہنم ہے) جب ملک کی انتہائی ابتر صورت حال دیکھتے ہیں۔ میٹروپولیٹن سٹی کراچی کی حالت زار دیکھتے ہیں تو وہ حیران ہو کر پوچھتے ہیں کہ کیا یہاں کوئی گورنمنٹ نہیں ہے جو یہ ملک اور اس کے شہر لاوارث لگتے ہیں۔

جب اسے یہ جواب ملتا ہے کہ گورنمنٹ تو ہمیشہ سے تھی، ہے اور رہے گی۔ لیکن کسی گورنمنٹ کو ملکی مسائل حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ تب وہ حیران ہو کر پوچھتا ہے کہ گورنمنٹ ہے لیکن کام نہیں کرتی تو ملک کیسے اور کیونکر چل رہا ہے؟ تو سیانے اسے بتاتے ہیں کہ اس ملک کو اللہ چلا رہا ہے۔ ورنہ بندوں نے تو اسے تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

سوال یہ ہے کہ ملک اللہ چلا رہا ہیں، زکوٰۃ خیرات صدقہ وغیرہ عوام دے رہے ہیں۔ مہنگائی کی مار عوام سہہ رہے ہیں۔ تو یہ استغفار عوام کو کرنی ہے، دعائیں عوام مانگیں گے!! اغواء عوام ہوں گے، تاوان عوام دیں گے، بھتہ عوام دیں گے، آٹھ سو روپے کلو گوشت عوام کے لیے بیچا جا رہا ہے، دودھ 84 روپے اور دہی 120 روپے کلو عوام کے لیے۔ ساتھ ساتھ نااہل حکمرانوں کو بھگتنا۔ ان کے جھوٹے وعدوں پہ اعتبار کر کے پریشان ہونا۔ سب کچھ عوام ہی کو کرنا ہے، تو پھر یہ نام نہاد حکمران جو مطلق العنان بادشاہوں سے کسی طرح بھی کم نہیں، یہ کس مرض کی دوا ہیں۔

ہر مسئلے کا ذمے دار سابقہ حکومتوں کو ٹھہرا کر یہ کس کو بے وقوف بنا رہے ہیں؟ روزمرہ کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں مکمل طور پر کنٹرول سے باہر ہو چکی ہیں۔ نہ کوئی گورنمنٹ نظر آتی ہے نہ اس کی رٹ۔ ذخیرہ اندوزوں سے لے کر خوردہ فروش تک سب من مانی کرتے ہیں۔ کیونکہ کسی پرائس کنٹرول کمیٹی کا وجود سرے سے نہیں ہے۔ اگر ہو گا بھی تو گھوسٹ اسکولوں کی طرح محض خانہ پری کے لیے کاغذات میں۔ لیکن ایک کام ہے جو حکومت بڑی تندہی سے کر رہی ہے، بالکل پچھلی حکومت کی طرح۔ وہ یہ کہ اپوزیشن کے منہ میں چاندی کا چمچہ دے کر پانچ سال کے لیے سلا دیا ہے۔ تمام تر توجہ وزیروں کو منانے اور ان کی منت سماجت میں گزر جاتا ہے۔ عوام کے لیے بھلا وقت کس حکومت کے پاس ہو گا؟ نہ پچھلی نہ موجودہ نہ آنے والی۔

ویسے بھی اگر اقتدار کی مسند پہ گاؤ تکیہ لگا کر بیٹھنے والے عوام الناس کی خوشحالی کے بارے میں سوچنے بیٹھ جائیں، تو پھر اپنے بیٹے بیٹیوں کو کاروباری ضروریات کون سمجھائے گا۔ جتنے دن یا جتنے سال کے لیے بھی تاج شاہی سر کی زینت بنتا ہے اس میں بہت کچھ بدل جاتا ہے، لکھ پتی، ارب پتی بن جاتا ہے۔ ایک چھوٹے سے مکان میں رہنے والا ہزار گز کے بنگلے میں منتقل ہو جاتا ہے کہ حکومتیں ہمیشہ اپنی ذات برادری کے لوگوں کو ہی نوازتی ہیں۔ اسی لیے سابقہ دور میں بلاوجہ لوگ اپنے اپنے ناموں میں ’’بھٹو‘‘ کا لاحقہ ٹانکنے لگے کہ لفظ ’’بھٹو‘‘ بکتا بہت ہے۔ مارکیٹ ویلیو بھی اب تک برقرار ہے۔ اسی لیے بلاول زرداری جیسے رہنما کے لیے ’’بھٹو‘‘ کا پارس پتھر نام میں جڑ دیا گیا۔ موجودہ حکومت میں بٹ، میر اور خواجہ ہاٹ کیک ہیں۔

کبھی کسی حکمران نے غور کرنے کی زحمت کی کہ یہ نوبت کیوں آئی کہ ایک وفاقی وزیر اپنی حکومت کی ناکامی کا اعتراف کرنے پہ مجبور ہے؟ بہت سامنے کی بات ہے کہ نااہل لوگوں کو تجربہ اور صلاحیت نہ ہونے کے باوجود ذات برادری اور پارٹی بنیادوں پر جب اداروں کا سربراہ بنایا جائے گا تو یہی نتیجہ نکلے گا۔ حکومتوں کے بدلتے ہی بڑے بڑے سرکاری علمی و ادبی، ثقافتی اداروں کے سربراہ باوجود اچھا کام کرنے کے فوراً تبدیل کر دیے جاتے ہیں۔

یہ بھی نہیں سوچا جاتا کہ وہ اس عہدے کے اہل ہیں بھی یا نہیں؟ مختلف اداروں میں پارٹی بنیادوں پر تقرری کے ساتھ ساتھ ایوارڈ حاصل کرنے والوں کی لسٹ بھی بن جاتی ہے۔ اس فہرست میں سراسر ناانصافی برتی جاتی ہے۔ کچھ لوگ ہر حکومت میں خود کو اس کا وفادار ثابت کر کے فائدے میں رہتے ہیں۔ وہ جو کہتے ہیں نا کہ ’’چپڑی اور دو دو‘‘ اس کا مشاہدہ ایسے ہی موقعوں پر کیا جاتا ہے۔ کسی حکومت میں مسلک کام آ جاتا ہے، کسی میں ذات برادری اور علاقہ اور کبھی لسانی تضادات بھی اپنا کام دکھاتے ہیں۔ یہی سب سے بڑی خرابی ہے۔

جب تک یہ سوچ نہیں بدلے گی تباہی ہمارا مقدر بنتی جائے گی۔ اور بن بھی رہی ہے۔ کبھی صلاحیت اور قابلیت کی قدر کی جاتی تھی، آج معاملہ بالکل برعکس ہے۔ باصلاحیت انسان کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ الٹی گنگا بہنے والا محاورہ اب سمجھ میں آیا ہے۔ سوجھ بوجھ سے عاری، کاہل اور ناکارہ لوگ آج ہر سرکاری ادارے میں محض سیاسی بنیادوں پہ صرف تنخواہیں لے رہے ہیں۔ باصلاحیت لوگ اب کہیں بھی قابل قبول نہیں، کیونکہ ذہین اور سنجیدہ لوگوں کی موجودگی نااہل افراد کی نااہلی کا پول کھول دیتی ہے۔ اس لیے ہر جگہ خوشامدی اور موقع پرست خواتین و حضرات جلوہ گر ہیں۔ قصیدہ خوانی زوروں پر ہے۔ غالب نے تنگ دستی سے عاجز آ کر بادشاہ کا قصیدہ لکھ تو دیا اور انعام کے حقدار بھی ٹھہرے۔ لیکن ان کے ضمیر کی خلش نے ان سے یہ شعر بھی کہلوا دیا:

بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے

یہ وہی کہہ سکتے تھے کوئی اور نہیں۔ بڑا کنبہ اور مالی حالت دگرگوں۔ کریں تو کیا کریں؟ کسی دوست نے مشورہ دیا کہ انا اور خودداری سے پیٹ نہیں بھرتا۔ بادشاہ کی خدمت میں قصیدہ لکھ کر پیش کرو تا کہ بھانجے اور بھائی کے بچوں کا پیٹ بھر سکو جو اب تمہاری ذمے داری ہیں۔

لیکن آج کے قصیدہ نگار محض اپنی گردنوں میں ایوارڈ کی تختیاں لگا کر خود کو اس عہد کا نامور دانشور، ادیب اور فنکار ثابت کرنے پہ تلے ہوئے ہیں۔ ایک حکومت جاتی ہے تو اپنے ساتھ اپنے اپنے پیٹی بند بھائی بہنوں کو بھی لے جاتی ہے۔ اور جب دوسری اس کی جگہ لیتی ہے تو نااہلوں کی فوج ظفر موج بھی ساتھ لاتی ہے۔ جو میڈیا پہ بیٹھ کر مخالفین کے لیے ایسی زبان استعمال کرتے ہیں جو مہذب افراد کو زیب نہیں دیتا۔ لیکن ریٹنگ ان ہی کی ہے جن کے لیے کسی نے کیا خوب کہا ہے:

لگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی‘ سو بگڑی تھی‘ خبر لیجے دہن بگڑا

جب کوئی منتخب وزیر اعظم یہ تہیہ کر لے گا کہ اسے نہ صرف اپنی امیج بہتر بنانی ہے بلکہ پارٹی کے وقار کو بھی بحال کرنا ہے تو اسے سب سے پہلے ذات برادری اور علاقائی سوچ سے باہر نکلنا ہو گا۔ باصلاحیت انسان اگر کسی دوسری پارٹی کا بھی ہے تو اس کی خدمات اور کام دیکھا جائے گا اور اگر وہ اس قابل ہے تو اسے اس کے عہدے سے برطرف کرکے کسی نااہل انسان کو محض سفارشی بنیادوں پر کسی بھی ادارے کا نہ تو سربراہ بنایا جائے گا نہ ہی اس کی پوسٹنگ کی جائے گی۔ اگر اس چھوٹی سی بات پہ عمل کر لیا جائے تو کسی حکمران کو یا وزیر کو پوری قوم کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا پڑے گا۔

خوشامدی وزرا اور رشتہ داروں کو اگر صدر اور وزیر اعظم خود سے دور رکھنے میں کامیاب ہو جائیں تو ادارے تباہ نہیں ہوں گے۔ جھوٹے وعدے کر کے حکومت شرمندہ نہیں ہو گی۔ لیکن ایسا ہونا ممکنات میں سے نہیں۔ بس خوش فہمیوں کے خوابوں میں زندہ رہیے۔ کیونکہ پنچوں کا حکم سر آنکھوں پر، لیکن پرنالہ وہیں گرے گا۔ بھٹو، میر، بٹ اور خواجہ حکومتیں بنائیں گے بھی اور گرائیں گے بھی کہ خوشامدی چھاتہ برداروں کی لاٹری نکل آئی ہے۔ جنھوں نے ٹڈی دل کی طرح کھیتوں اور کھلیانوں کو چاٹ ڈالا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔