مسلم حکمران اور نہتے فلسطینی

اسلم خان  ہفتہ 19 جولائی 2014
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

غزہ پر آگ برس رہی ہے، رحمتوں اور برکتوں کے مہینے رمضان المبارک میں نہتے فلسطینیوں کا خون پانی کی طرح بہہ رہا ہے، عالم اسلام کے کئی ایسے ممالک بھی ہیں جو حماس کی بربادی اور اسرائیل کی کامیابی کے لیے دعائیں کر رہے ہیں۔ انھیں اپنے ادنیٰ مفادات عزیز ہیں۔’’اے مسلم دُنیا کے حکمرانو، تم کہاں کھو گئے ہو، غزہ میں ہونے والے ظلم و ستم پر کیا تمہارے دل میں ٹیسیں نہیں اُٹھتیں۔ ہم اکثر سوال کرتے ہیں کہ مہذب مغربی دنیا کیوں خاموش ہے۔ مغربی ممالک کا کیا ذکر خود مسلمان ممالک اور عرب حکمرانوں کا کیا حال ہے اگر ہم  خود اپنا اور اپنے خاندان کی جان و مال کا تحفظ نہیں کر سکیں گے تو پھر دنیا ہماری کیوں پروا کرے گی۔

یہ ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردگان ہیں جو غزہ پر اسرائیلی حملوں کے بارے میں انکشاف کر رہے تھے کہ اسرائیلی جارحیت پر بعض عرب حکمران خوشی سے بغلیں بجا رہے ہیں۔ اگرچہ انھوں نے کسی مسلم ملک کا نام نہیں لیا کہ یہ سفارتی آداب کے منافی ہوتا۔

ترک وزیر اعظم نے اقوام متحدہ پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کو امن عالم کے لیے بنایا گیا تھا لیکن اس نے  امن عالم کے لیے کوئی کردار نہیں ادا کیا، اقوام متحدہ کا مقصد بڑی طاقتوں کے مذموم اور خفیہ مقاصد کی تکمیل رہ گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی 15 رکنی سلامتی کونسل میں ایک بھی مسلمان ملک موجود نہیں ہے، اس لیے فلسطینیوں پر جاری درندگی کے خلاف کوئی آواز اُٹھانے والا نہیں ہے۔ ویسے رجب طیب اردگان بھی اپنے ہم عصر عرب حکمرانوں سے کچھ مختلف نہیں ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ وہ بلند آہنگ سے زبانی کلامی دعوے کر رہے ہیں۔

وہ عمل کی دنیا کے آدمی ہیں، غاصب یہودیوں سے شدید نفرت کے اظہار کے ساتھ ساتھ وہ شاید واحد مسلمان حکمران ہیں جو باضابطہ اسرائیل کا سرکاری دورہ کر چکے ہیں۔ 2005ء میں انھوں نے اسرائیل سے دوطرفہ تعلقات کے اضافے تجارتی اور فوجی شعبوں میں تعلقات کو توسیع دینے اور مستحکم بنانے کے لیے اسرائیل کا دو روزہ دورہ کیا تھا۔ وہ اپنے ہمراہ سیکڑوں تاجروں کو بھی لے کر گئے تھے، اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم ایرل شیرون اور صدر موشے کتاسو (Moshe Katsav) سے دو طرفہ امور پر مذاکرات کیے اور نام نہاد ہولو کاسٹ کی یاد گار پر پھولوں کی چادر چڑھائی تھی۔

انھوں نے ایرل شرون کو یقین دلایا تھا کہ یہودی مخالف جذبات کو ترکی کے عوام انسانیت کے خلاف جرم اور ایران کے ایٹمی طاقت کے حصول کو نہ صرف اسرائیل بلکہ اقوام عالم کے لیے شدید خطرہ سمجھتے ہیں۔اسی طرح 2006ء میں اسرائیلی صدر شمعون پیرز نے ترک پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ترکی کو مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کا عظیم دوست قرار دیا تھا، اسی طرح شام اور اسرائیل کے درمیان روابط میں ترکی تمام سہولیات فراہم کرتا رہا ہے۔ 2007ء میں اسرائیلی صدر شمعون پیرز  نے ترکی کا تین روزہ دورہ کیا، انھیں دوبارہ ترک گرینڈ نیشنل اسمبلی سے خطاب کا شرف حاصل ہوا۔ 2008-09ء کے دوران دونوں ممالک میں تعلقات سرد مہری کا شکار رہے جن کو خفیہ سفارت کاری کے ذریعے گرم جوشی میں تبدیل کیا گیا۔

رجب طیب اردگان کے چند پاکستانی ممدوح انھیں دور جدید کا صلاح الدین ایوبی ثانی قرار دے رہے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے رجب طیب اردگان اپنے ووٹ بینک میں اضافے کے لیے نعرہ بازی کا روایتی کاروبار کر رہے ہیں کہ صدارتی انتخاب اگست 2014ء میں ہونے والا ہے ورنہ 12 سال سے برسر اقتدار ترک وزیر اعظم کی اسرائیل سے اچھی خاصی دوستی رہی۔ ترک فوج اربوں ڈالر مالیت کے اسرائیلی ہتھیاروں کی سب سے بڑی خریدار ہے۔ دونوں ممالک میں قربت کا یہ عالم ہے کہ اسرائیلیوں کو ترکی کی سیر کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں ہے، لاکھوں کی تعداد میں یہودی سیاح ہر سال ترکی کا رخ کرتے ہیں جس پر رجب طیب اردگان نے کہا تھا کہ اگر اسرائیلی سیاح ترکی نہ آئیں تو ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

غزہ پر8 جولائی4 201ء سے  صہیونی حکومت نے بمباری شروع کر رکھی ہے جس میں سیکڑوں شہید جب کہ  ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں، اس وحشت اور درندگی کا شکار ہونے و الوں میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ عالمی رائے عامہ سے کیا گلہ خود عالم اسلام مہر بلب، گم سم، دم سادھے ظلم و ستم کی انتہا کو دیکھ رہا ہے۔ شب گزشتہ میرے دوست طارق چوہدری شکوہ کناں تھے کہ عراق اور شام میں خلافت بحال کرنے والے ابوبکر بغدادی، قطر، سعودی عرب اور دیگر مسلم ریاستوں کی مدد سے بشار الاسد کا تختہ الٹنے کے لیے شام میں جمع ہونے والے عالمی جہاد کے ٹھیکیدار، لبنانی حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ، مصر سے تعلق رکھنے والے القاعدہ کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری چیچن، ازبک، تاجک اور نجانے کون کون سی قومیتوں سے تعلق رکھنے والے مجاہدین صف شکن کی بندوقوں کا رُخ اسرائیل کی طرف کیوں نہیں ہوتا؟ کیا حماس کے نہتے مجاہدین کی مدد ان رنگ برنگے مجاہدین اسلام پر فرض نہیں ہے۔

عرب ریاستوں میں تو حماس کی مکمل بربادی کے لیے دعائیں کی جا رہی ہیں کہ حماس کی قیادت کا نظریاتی تعلق اخوان المسلمون ہے۔  پاکستان، اردن، مصر، ترکی اور سعودی عرب کی مسلح افواج چند لمحوں میں فلسطینیوں کو اسرائیل کے چنگل سے آزاد کرانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ مسلم افواج کی تعداد محتاط اندازے کے مطابق 20 لاکھ ہے جن پر ایک سو ارب ڈالر سالانہ خرچ کیے جا رہے ہیں۔ صرف ہمسایہ مصر کے پاس 5 لاکھ فوج اور ایف 16 لڑاکا طیارے موجود ہیں۔ مصر میں حماس کی تباہی پر خوشیاں منائی جا رہی ہیں۔

روزنامہ الاہرام میں معروف دانشور عزی سمیع نے لکھا ’نیتن یاہو آپ کا شکریہ‘ دُعا ہے کہ خدا ہمیں آپ جیسے رہنما عطا فرمائے جو حماس کو مکمل تباہ و برباد کر سکیں، اب حماس کو سمجھ آ گئی ہو گی کہ وہ عربوں کی ہمدردیاں کھو چکی ہے اسی لیے مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے حماس اور اسرائیل میں جنگ بندی کرانے میں کوئی کردار ادا کرنے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ وہ حماس کو اخوان المسلمون کا مسلح بازو سمجھتے ہیں۔ جنرل السیسی اور اس کے حامی حکمران سکون سے حماس کی تباہی کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک حماس عرب ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ ایرانی لیڈر شپ کی ترجیحات بھی بدل رہی ہیں۔

وہ علاقائی تنازعات میں اسرائیل سے نہیں اُلجھنا چاہتے۔ ایرانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے غزہ میں ریاستی دہشت گردی کا معاملہ یہ کہہ کر نپٹا دیا کہ مغربی اقوام کو غزہ میں انسانی المیے سے بچنے کے لیے فوری کارروائی کرنی چاہیے۔ مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت پاکستان نے بھی بڑا محتاط رویہ اپنایا ہوا ہے۔ فلسطین کے لیے جہاد کے روایتی علمبرداروں نے بھی کوئی خاص گرم جوشی نہیں دکھائی۔ اندرونی مشکلات خلفشار، بلوچستان اور وزیرستان میں جاری فوجی کارروائی کی وجہ سے دباؤ کا شکار حکمران قبلہ اول کی آزادی کے ’مقدس‘ فریضے سے کب کا دستبردار ہو چکے۔

ترکی کے رجب طیب اردگان ہوں، اُن کے پاکستانی ہم منصب نواز شریف یا پھر خادم حرمین شریفین  شاہ عبداللہ سب اپنی اپنی دنیا میں مگن ہیں۔ رحمتوں اور برکتوں کے مہینے رمضان المبارک میں فلسطین پر آگ برس رہی ہے اور ہم اپنا اپنا راگ الاپے جا رہے ہیں۔ 53 مسلمان ریاستوں کی 20 لاکھ مسلح افواج میں ایک صلاح الدین ایوبی کا جانشین نہیں جو قبلہ اول بیت المقدس کی آزادی کے لیے میدان میں آئے، میدان بلا رہے ہیں لیکن لبیک کہنے والا کوئی نہیں، کوئی نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔