امریکا: برتن مانجھنے والا پاکستانی بنا کھرب پتی

محمد اختر  اتوار 23 ستمبر 2012
فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

کہتے ہیں کہ بعض اوقات انسانی صلاحیتیں اس وقت کھل کر سامنے آتی ہیں ، جب انسان ایک ماحول سے نکل کر دوسرے ماحول میں داخل ہوتا ہے۔

نئی چیزیں اور نئی دریافتیں اس پر سوچ اور فہم کے نئے در وا کرتی ہے۔پاکستانیوں کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ٹیلنٹڈ اور زہین قوم ہے لیکن اپنے وطن میں سہولیات کے فقدان اور عدم حوصلہ افزائی کے باعث یہ ٹیلنٹ اپنے وطن میں نکھرنے کے بجائے نئی زمینوں میں رنگ دکھلاتا ہے۔ایسا ہی ایک پاکستانی شاہد خان ہے۔اس کے ٹیلنٹ اور زہانت نے بھی پاکستان کے بجائے امریکا میں جادو دکھایا۔یوں پاکستانی قوم کے اس فرزند نے اپنی صلاحیتوں سے امریکا کو مالا مال کردیا۔ محنت اور قسمت ساتھ مل جائیں تو کامیابی یقینی طور پر قدم چومتی ہے۔یہ مقولہ بہت سے لوگوں کے ساتھ ساتھ شاہد خان پر بھی صادق آتا ہے۔

شاہد خان پاکستان میں جنم لینے والا ایک عام سا نوجوان تھا جو سولہ سال کی عمر میں امریکا پہنچا تاکہ وہاں کی یونیورسٹی میں انجینرنگ کی تعلیم حاصل کرسکے۔امریکا میں اس نے بہت معمولی درجے کے کاموں سے اپنی نئی زندگی کا آغاز کیا۔ مثال کے طورپر وہ ہوٹلوں میں برتن دھوتا، کہیں دیہاڑی پر پینٹ کا کام کرتا اور رات کے وقت کسی سستے ہوٹل میں اپنی نیند پوری کرتا۔شاہد خان نے محنت کو کبھی عار نہ سمجھا اور ہر قسم کا کام کیا۔ آخر کام کی لگن اور محنت نے اس کے دن بدل دیے۔

جی ہاں!امریکا میں آج وہی شاہد خان کھرب پتی بن چکا ہے اور اسکا ملک بھر میں چرچا ہے۔ اس کا چہرہ دنیا بھر میں ارب پتی اور کھرب پتی لوگوں کی معلومات شائع کرنے والے مشہور رسالے ’’فوربس‘‘ کے سرورق پر آچکا ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ اس نے اپنی محنت اور جانفشانی کے ذریعے وہی کمپنی خرید لی جس میں دس سال پہلے تک وہ ملازم کے طور پر کام کرتا تھا۔ شاہد خان کون ہے؟ آئیے آپ کو اس کے بارے میں کچھ بتاتے ہیں:

شاہد خان نے ارباناشیمپین میں واقع یونیورسٹی آف الی نوئس سے 1971 میں مکینیکل اینڈ انڈسٹریل انجینیرنگ سے بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ اس نے کام اور تعلیم دونوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ یونیورسٹی میں عرصہ تعلیم کے دوران ہی اس نے آٹوموبائل پارٹس مینو فیکچرنگ کمپنی فلیکس این گیٹFlex-N-Gate جوائن کی۔ اس نے جب گریجویشن مکمل کی تو کمپنی نے انجینرنگ ڈائریکٹر کے طور پر اس کی خدمات حاصل کرلیں۔ 1978ء میں اس نے بمپر ورکس Bumper Works نامی اپنی کمپنی کا آغاز کیا۔

کامیابی کی کہانی:

شاہد خان نے گاڑیوں کے بمپر تیار کرنیوالی امریکا کی مشہور کمپنی فلیکس این گیٹ کیسے خریدی یہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔1972ء میں کمپنی کے حقیقی مالک نے ،شاہد خان جو کہ کمپنی میں اس کے پسندیدہ انجینئر تھے، سے کہا کہ وہ ایک ٹکڑے پر مشتمل یعنی بے جوڑ بمپر تیار کرے۔مالک کا کہنا تھا کہ وہ بمپر ایسا ہونا چاہیے جو کہ آٹوموبائل انڈسٹری کو پسند آئے ۔ وہ ہلکا ، مضبوط اور سستا ہو۔شاہد خان نے ان خصوصیات کو مد نظر رکھتے ہوئے بمپر ڈیزائن کرنے پر کام شروع کردیا اور اس میں کامیابی حاصل کی۔

اس کے بعد شاہد خان 1978ء تک فلیکس این گیٹ میں ہی کام کرتا رہا جب اس نے اپنی کمپنی شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔اس مقصد کے لیے اس نے چھوٹا قرضہ لیا اور کچھ سرمایہ اپنی طرف سے لگایا اور اپنی کمپنی قائم کی۔اپنی محنت ، کوشش ، کام کی سوجھ بوجھ اور کاروبار کی لگن میں وہ کامیابی کی طرف بڑھنے لگا۔ وہ نئے نئے اور خوبصورت ڈیزائنوں کے بمپر تیار کرنے لگا۔یہ بمبر ہلکے اور بے جوڑ تھے اور ان میں بہت نفاست تھی۔اس نے تنہا یہ کام شروع کیا۔اس کے پاس ایک گیراج تھا اور اس نے محض ایک پریس مشین اور چند چیزوں کی مدد سے اکیلے یہ کام شروع کیا اور بہترین بمپر تیار کرنے لگا۔

اسے کمپنی شروع کیے ہوئے دوسال کا عرصہ ہوا تھا جب اس کی پرانی کمپنی فلیکس این گیٹ فروخت کے لیے مارکیٹ میں اوپن ہوئی۔یہ کمپنی شیمپئین اربانا میں واقع تھی اور شاہد خان بھی اسی شہر میں منتقل ہونا چاہتا تھا۔چنانچہ اس نے کمپنی خریدلی۔ وہ اس کا تنہا مالک بن گیا۔ آج یہ کمپنی ایک کارپوریشن بن چکی ہے جس میں ساڑھے دس ہزار افراد ملازمت کرتے ہیں اور اس کے کل 48پلانٹ ہیں جو الی نوئس ، انڈیانا ، مشی گن ، کینیڈا اور میکسیکو میں واقع ہیں۔اس کی سالانہ فروخت پانچ سو ملین ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔کمپنی کی اہم پراڈکٹس میں بمپرز کے علاوہ ٹریلر ہچز اور رننگ بورڈ بھی شامل ہیں جو کہ مختلف پک اپ ٹرکوں اور فوجی گاڑیوں میں استعمال ہوتے ہیں۔فلیکس این گیٹ کی پراڈکٹس کے خریداروں میں ڈیملر کرسلر ، جنرل موٹرز اور فورڈ سے لیکر ٹویوٹا ، ہونڈا اور دیگر گاڑیاں تیار کرنے والے ادارے شامل ہیں۔

کچھ عرصہ قبل نسان کمپنی نے اپنے لیے بمپر خود تیار کرنے کی کوشش کی تاہم آخرکار اسے بھی فلیکس این گیٹ کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ نسان نے کمپنی سے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ ان کے لیے بھی بمپر تیار کرے۔اپنی گاہک نئی کمپنی کو مطمئین کرنے کے لیے فلیکس این گیٹ نے اپنی صلاحیت میں مزید اضافہ کیا اور نت نئے ڈیزائن متعارف کرائے۔کمپنی کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی تیار کردہ مصنوعات کو ڈیزائن اور پائیداری کے حوالے سے ایک معیار سمجھا جاتا ہے۔اس وقت مارکیٹ میں تیار ہونے والے دوتہائی سے زیادہ پک اپ ٹرکوں اور فوجی گاڑیوں کے لیے بمپر فلیکس این گیٹ کی جانب سے ہی سپلائی کیے جاتے ہیں۔

شاہد خان کے خیالات:

شاہد خان کا کہنا ہے کہ ان کی کامیابی کی وجہ کام کے بارے میں ہوشیاری سے سوچ بچار کرنا ہے۔شاہد خان کا کہنا ہے کہ انھوں نے بہت چھوٹی سطح پر کام کیا اور کسی بھی چھوٹی کمپنی کے لیے اس کی بقاء کے لیے ضروری ہے کہ اسے تسلسل کے ساتھ منافع ہوتا رہے چاہے یہ کم ہی ہو۔وہ مزید کہتے ہیں کہ 1978ء میں اپنی کمپنی کے آغاز سے لیکر آج تک انھیں کبھی بھی نقصان نہیں ہوا اور مالی طورپر وہ ہمیشہ منافع میں رہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ان کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بمپرز کی 67فیصد مارکیٹ پر ان کی کمپنی کی اجارہ داری ہے جبکہ کروم پلیٹنگ میں ان کی کمپنی انڈسٹری میں 80 فیصد حصہ رکھتی ہے۔

حالیہ سالوں کے دوران ان کی کمپنی نے غیرمعمولی ترقی کی۔ مارکیٹ میں بدلتے ہوئے رجحانات کا مقابلہ کرنے کے لیے کمپنی نے اپنی مصنوعہ سازی میں تنوع کی طرف قدم بڑھایا اور پلاسٹک کے ساتھ ساتھ گاڑیوں میں استعمال ہونے والے دیگر پارٹس کی بھی تیاری شروع کردی۔تاہم کمپنی نے اپنی اصل مہارت یعنی بمپر سازی اور کروم پلیٹنگ کے میدان میں کسی قسم کی غفلت کا مظاہرہ نہ کیا۔ شاہد خان کا کہنا ہے کہ ان کی پروڈکٹس کی ڈیزائننگ اور کوالٹی میں اس تیزی سے تبدیلیاں آتی ہیں کہ انھیں کبھی اپنی مصنوعات کو پیٹنٹ کرانے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔وہ کہتے ہیں : ’’جتنی دیر میں کوئی پیٹنٹ منظور ہوتا ہے ، اتنی دیر میں ہمارا نیا ڈیزائن آجاتا ہے۔‘‘

شاہد خان کو ان کی خدمات کے عوض یونیورسٹی آف الی نوئس کی جانب سے کئی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے۔اپنی تمام کامیابیوں کے باوجود اسے اصل شہرت اس وقت ملی جب اس نے نومبر دو ہزار گیارہ میں امریکی فٹ بال ٹیم ’’جیکسن وائل جیگوارز‘‘ کو خریدا۔اس خریداری کے بعد شاہد خان کو نہ صرف امریکا بھر میں شہرت ملی بلکہ وہ پہلا نسلی اقلیت کا حامل فرد قرار پایا جس نے امریکا کی نیشنل فٹ بال لیگ میں شامل کسی ٹیم کو اپنی ملکیت بنایا۔شاہد خان نے اس ٹیم کو خریدنے کے بعد ایک بیان میں کہا کہ یہ اس کا بہت دیرینہ خواب تھا جس کی تعبیر پاکر وہ بہت خوش ہے۔اس کا کہنا تھا کہ اس کی شدید خواہش تھی کہ وہ نیشنل فٹ بال لیگ میں شامل کسی ٹیم کا مالک ہو۔ اب جیکسن وائل جیگوار کو خرید کر نہ صرف اس کا بلکہ اس کی فیملی کاخواب بھی پورا ہوگیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔