دبنگ مختار رانا کا خاموش انجام

نصرت جاوید  بدھ 23 جولائی 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

قارئین کی اکثریت ای میلوں کے ذریعے نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر بنائے اپنے ٹویٹر اور فیس بک اکائونٹس کے ذریعے میری تحریروں پر تبصرہ آرائی فرماتی ہے۔ ان کے تبصروں کے ذریعے خیالات کے بجائے جذبات اور وہ بھی شدید تر کا اظہار ہوتا ہے۔ میرا ’’ڈھیلا کریکٹر‘‘ ویسے بھی کچھ پارسا اور انقلابی لوگوں کے جذبات بھڑکانے کو کافی ہے۔ باقی آپ خود مجھ سے کہیں زیادہ سمجھ دار ہیں۔ اب تک اندازہ لگا لیا ہو گا کہ کچھ ’’قائدینِ انقلاب‘‘ کے ساتھ پنگا لینے کی بناء پر مجھے کیا کچھ سننے کو ملتا ہے۔

بہت محدود سہی مگر سنجیدہ قارئین کی اکثریت البتہ بڑے خلوص سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ میں اپنی تحریروں کو صرف ’’حال‘‘ تک محدود نہ رکھوں۔ ہماری سیاسی تاریخ کے وہ تمام واقعات جو بطور رپورٹر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے پوری تفصیلات کے ساتھ بیان کر دیا کروں۔ ان کی خواہش کا احترام سر آنکھوں پر۔ مگر ’’تاریخ‘‘ کالموں کے ذریعے نہیں لکھی جا سکتی۔ یہ کتابوں کا موضوع ہوا کرتی ہے جنھیں لکھنے کے لیے آپ کے اپنے صحافیانہ تجربات کافی نہیں۔ بہت تحقیق کی ضرورت ہوتی اور پھر تاریخی واقعات کا ’’نچوڑ‘‘ نکالنے والی مشقت۔ ذات کا رپورٹر اور بنیادی طور پر کاہل ہونے کی وجہ سے میں ان دونوں صلاحیتوں سے محروم ہوں۔ ’’ڈنگ ٹپا‘‘ کر گزارہ کرنا سہل ہے اور اب ویسے ہی عمر کا وہ مرحلہ شروع ہو چکا ہے جہاں آپ خود کو بدلنے کے قابل ہی نہیں رہتے۔

بہرحال بہت سارے سنجیدہ قارئین نے گلہ کیا ہے کہ میں نے مختار رانا کے بارے میں کچھ نہیں لکھا۔ وہ کئی برسوں سے پاکستان چھوڑ کر انگلستان میں گوشہ نشین ہو چکے تھے۔ گزشتہ ہفتے ان کا انتقال ہو گیا۔ ہمارے میڈیا نے ان کی موت کا سرسری ذکر کیا اور بس۔ میں صحافت کے علاوہ اور کسی دھندے کے لیے ناقابل ہونے کے باوجود اپنے میڈیا کو خود تنقیدی کی وحشت میں اکثر بے دریغ انداز میں لتاڑتا رہتا ہوں۔ مختار رانا کی موت کے سرسری ذکر کو مگر میڈیا کے گناہوں میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ 2014 تو بہت دیر کے بعد آیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ 1980 یا 90 کی دہائیوں میں باقاعدگی سے ہماری سیاست پر نگاہ رکھنے والے قارئین بھی مختار رانا مرحوم سے کوئی زیادہ آشنا نہیں رہے ہوں گے۔

فیصل آباد مختار رانا کا سیاسی Base اور قلعہ سمجھتا جاتا تھا۔ وہ اس شہر میں غریبوں اور مزدوروں کی بڑی دبنگ آواز بھی تسلیم کیے جاتے تھے۔ مگر 1970 کے شروع کے سالوں میں مجھے اس شہر کے سیاسی افراد سے کوئی زیادہ شناسائی نہیں تھی۔ میری ان سے پہلی ملاقات تو 1974 میں اس وقت ہوئی جب وہ لاہور کے میو اسپتال کی البرٹ وکٹوریہ وارڈ کے ایک کمرے میں قیدی کے طور پر رہ رہے تھے۔ انھیں ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے پہلے اور اب تک آخری ’’سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر‘‘ کے طور پر ایک فوجی عدالت سے بغاوت وغیرہ کے الزامات کے تحت سزا دلوائی تھی۔

1970کے انتخابات میں رانا صاحب، پورے پاکستان سے جس میں شیخ مجیب الرحمن کا مرحوم مشرقی پاکستان بھی شامل تھا دس افراد کی اس فہرست میں شامل تھے جنہوں نے ان انتخابات میں اپنے مخالفین کو بھاری بھرکم ووٹوں کی ریکارڈ تعداد کے ساتھ شکست دی تھی۔ فوجی عدالت سے ’’مجرم‘‘ ٹھہرائے جانے کے بعد وہ قومی اسمبلی کی نشست سے بھی محروم کر دیے گئے۔ ان کے بعد جو ضمنی انتخاب ہوا اس میں ان کی بہن نے رانا صاحب والی سیٹ کو واپس جیتنا چاہا۔ میدان مگر پیپلز پارٹی کے نامزد کردہ امیدوار کے ہاتھ رہا۔ میں ان کا نام ابھی بھول رہا ہوں۔ مگر مختار رانا کی سیٹ جیتنے والے کسی زمانے میں پنجابی کے معروف ناول نگار بھی مانے جاتے تھے۔

مختار رانا صاحب کو قید کے دوران دل کا عارضہ لاحق ہو گیا۔ بھٹو صاحب نے کچھ مشترکہ دوستوں کی وجہ سے نرمی دکھانے کا فیصلہ کیا اور رانا صاحب کو علاج کے لیے میو اسپتال منتقل کر دیا گیا۔ اسپتال میں ان کے کمرے کے باہر ایک بنچ پر دو سپاہی ہتھکڑی فرش پر رکھے پہرہ دیتے رہتے مگر ان سے ملنے کے لیے آنے والوں کو نہ تو روکتے نہ ان سے کوئی تفتیشی سوالات کرتے۔ طالب علم سیاست کے دوران میرے کراچی میں ایک قریبی دوست بنے تھے۔ وہ اکثر رانا صاحب سے ملنے لاہور آتے اور مجھے اپنے ساتھ ان کے پاس لے جاتے۔

رانا صاحب سے اپنی پہلی ملاقات سے پہلے میں نے بہت لوگوں سے سن رکھا تھا کہ وہ بڑے دبنگ قسم کے فرد ہیں۔ ’’کھیت جاگیرداروں اور کارخانے سرمایہ داروں سے لے لو‘‘ والے نعرے کے ساتھ اکثر ’’قبضہ‘‘ والے معرکے دکھاتے رہتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے جب مغربی پاکستان میں 1970کے انتخاب کے ذریعے واضح اکثریت حاصل کر لی تو چند انقلابی صحافیوں کے ساتھ انھوں نے میاں افتخار الدین کے بنائے پی پی ایل کے معروف اخباروں کو ’’حکومتی قبضے‘‘ سے چھڑانے کی تحریک میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ تحریک تو ناکام ہو گئی مگر صحافت کے ابتدائی دنوں میں کئی ماہ تک میں اس کے قصے سنتا رہا۔

اسپتال کے بستر پر صاف ستھرے اور باقاعدہ استری شدہ شلوار کُرتے میں لیٹے رانا صاحب مجھے بالکل دبنگ نظر نہ آئے۔ نہایت خاموشی مگر تہذیب کے ساتھ ملاقاتیوں کی گفتگو بڑے انہماک سے سنتے رہتے۔ مجھے ان سے ملوانے والے میرے ’’انقلابی‘‘ دوست مگر ہمیشہ اس بات پر اصرار کرتے کہ رانا صاحب خاموش اس لیے رہتے ہیں کہ اسپتال میں ان کا کمرہ ایجنسیاں Bug کرتی ہیں۔ سچی بات ہے کہ اس دوست کی بدولت مجھے پہلی بار علم ہوا کہ خفیہ ایجنسیاں کچھ آلات وغیرہ کے ذریعے مشکوک لوگوں کی گفتگو ریکارڈ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

میں اس اطلاع کی تصدیق تو نہ کر پایا۔ مگر یہ بات سن کر کافی مہینوں تک اپنی ذاتی گفتگو میں بہت محتاط ہو گیا۔ یہ بات بہت عرصے بعد سمجھ میں آئی کہ گفتگو ریکارڈ ہو بھی جائے تو اسے پوری طرح سن کر کوئی Doable تجزیہ کرنے کے لیے بہت سارے لوگ اور وقت درکار ہوتا ہے۔ ہماری کمزور ریاست کے پاس یہ صلاحیت باقی دوسرے شعبوں کی طرح کافی کمزور سطح پر جم کر رہ گئی ہے۔ ہمارے اکثر سیاستدان اور نامور صحافی مگر خود کو اہم سمجھتے ہوئے گفتگو سننے والی ریاستی صلاحیت پر ضرورت سے زیادہ بھروسہ کرتے ہوئے اکثر کافی مضحکہ خیز رویہ اختیار کر لیتے ہیں۔ میں ’’مکھیوں‘‘ کو اپنا پورا گُڑ کھلوانے کے بعد اب بقول شاہ حسین ان کی ’’بھنبھناہٹ‘‘ سے آزاد ہو چکا ہوں۔

رانا صاحب تو مجھے تھک ہار کر میو اسپتال کے ایک کمرہ میں گوشہ نشین نظر آئے۔ مگر میرے دوست کو کئی ماہ تک یہ شدید گمان رہا کہ روئیداد خان کے بھائی عبدالخالق خان جو پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر 1970میں مردان سے ہو کر قومی اسمبلی پہنچے تھے مگر بھٹو صاحب کے خلاف ’’باغیانہ‘‘ تقاریر کرتے رہتے تھے، معراج محمد خان جیسے دیگر ’’انقلابیوں‘‘ کے ساتھ مل کر مختار رانا کی قیادت میں پیپلز پارٹی کو ’’بھٹو اور ان کے جاگیر دار ساتھیوں‘‘ سے بہت جلد آزاد کروا لیں گے۔ یہ آزادی حاصل کر لینے کے بعد پارٹی ایک بار پھر ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کے نعرے کے ساتھ ملک میں سوشلسٹ انقلاب برپا کر دے گی۔ یہ سب مگر نہ ہو پایا۔ ہاں 5 جولائی 1977 ضرور ہو گیا۔ ضیاء الحق کی آمد اور رانا صاحب کی خاموشی سے انگلستان روانگی اور پھر مرتے دم تک گوشہ نشینی۔

رانا صاحب کا ذکر شاید میں آج بھی نہ کرتا۔ مگر ان کی موت نے مجھے ایک بار پھر کافی شدت کے ساتھ یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ہمارے ملک میں باغیانہ الفاظ، لب و لہجے اور دبنگ انداز کو اختیار کرنے والے Populist بالآخر انقلاب کیوں نہیں برپا کر پاتے۔ اس سوال پر مسلسل غور اس لیے بھی مجبوری بن رہا ہے کہ ان دنوں ایک نہیں دو ’’قائدین‘‘ -طاہر القادری اور عمران خان-  14 اگست 2014کے قریب قریب پاکستان میں انقلاب برپا کرنے یا ’’تبدیلی‘‘ لانے کو تلے بیٹھے ہیں۔ خدا انھیں اپنے ارادوں میں کامیاب کرے۔ مگر پتہ نہیں کیوں خوف محسوس ہو رہا ہے کہ بالآخر یہ دونوں انقلابی بھی ویسی گوشہ نشینی کا نشانہ نہ بن جائیں جو مختار رانا مرحوم کا مقدر بنی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔