پانچ سو روپے میں مسئلہ حل

نصرت جاوید  جمعرات 24 جولائی 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

غالب خوش نصیب تھا۔ اسے بیان کرنے کو مضامین غیب سے آجایا کرتے تھے۔ میرے جیسے رپورٹر سے کالم نگار بنے لوگوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔ صبح اُٹھتے ہی اخبارات کا ایک بھاری بھر کم پلندہ دیکھنا پڑتا ہے۔ وہاں سے کچھ نہ ملے تو ریموٹ کے ذریعے 24/7چینلوں کا تعاقب۔ اس سے بھی بات نہ بنے تو سوشل میڈیا۔ ابھی تک یہ سب کچھ کرلیا مگر ذہن میں کوئی خیال لپک کر نہیں دے رہا۔ غزہ کے بارے میں نوحہ گیری سے میں ویسے ہی پرہیز کرتا ہوں۔ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کا یوم انقلاب کافی دنوں تک تبصرہ آرائی کو اُکساتا رہا۔ وہ مگر اب بور کرنا شروع ہوگئے ہیں۔

بجائے سڑکوں پر آکر دمادم مست قلندر کی تاریخ دینے کے انھوں نے پڑھے لکھے، قابل مگر بے روزگار نوجوانوں سے درخواستیں مانگ لی ہیں۔ انقلاب برپا کرنے کے بعد وہ ان نوجوانوں کو ریاستی اداروں میں تعینات کردیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ اب تک ان کے ادارے کے پاس لاکھوں درخواستیں آچکی ہوں گی۔ قادری صاحب نے ہر ملازمت چونکہ میرٹ پر دینا ہے اور جسے ذمے داری سونپنا ہے اس کے کردار کی جانچ پڑتال بھی شدید ضروری ہے۔ اس لیے خدشہ ہے کہ ان درخواستوں کی چھانٹی، پھر Shortlistہوئے امیدواروں کے انٹرویوز اور بعدازاں ان کی صلاحیتوں سے پوری طرح فائدہ اٹھانے والے عہدے کی تلاش میں ایک طویل وقت لگ جائے گا۔

بطور کالم نگار ہم پیچیدہ پراسس کی الجھنوں میں گرفتار ہوجانے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ہمیں تو کسی پھڑپھڑاتے موضوع پر فوراً دو اڑھائی صفحات لکھنا ہوتے ہیں۔ وہ لکھاری خوش نصیب ہیں جنھیں اسلامی تاریخ پوری یاد ہے اور دین کا بھرپور فہم بھی۔ قلم اٹھاتے ہی جدید حوالوں کے ساتھ حلال وحرام کے درمیان فرق کو بیان کرتے ہوئے ہماری تربیت فرما دیتے ہیں۔ میں اس ضمن میں بالکل کورا ہوں۔ روزمرہّ سیاست کے علاوہ اور کسی موضوع پر نگاہ نہیں پڑتی اور اگر کبھی یوں ہو بھی جائے تو محدود علم کی وجہ سے اپنا مدعا بیان نہیں ہو پاتا۔

روزمرہّ سیاست پر ہی توجہ مرکوز رکھنا ہو تو 14اگست بھی آنے والی ہے۔ عمران خان اس روز دس لاکھ افراد کے ساتھ اسلام آباد آئیں گے۔ یہاں پہنچنے کے بعد ان کے ارادے کیا ہیں؟ مجھے خبر نہیں۔ نواز شریف کا استعفیٰ لے کر مڈٹرم انتخابات کروانا ہیں تو اس کے لیے اسلام آباد پہنچ کر عمران خان کو کئی روز تک دھرنا دینا ہوگا۔ حبس اس شہر میں ان دنوں ناقابل برداشت ہے۔ محکمہ موسمیات والوں کا دعویٰ ہے کہ اس سال کا مون سون دیر سے شروع ہوگا۔ جو بارشیں جولائی میں ہونا تھیں اب شاید اگست میں ہمیں نصیب ہوں۔

اگر وہ بارشیں واقعی ہوگئیں تو اسلام آباد کی تمام اہم شاہراہوں پر جو طویل اورگہرے کھڈے میٹروبس کے لیے کھودے گئے ہیں چھوٹی نہروں کی شکل اختیار کرلیں گے۔ ڈی چوک اور اس تک پہنچانے والے بلیو ایریا میں دھرنا دینے کے لیے شاید کشتیوں کی ضرورت پڑجائے۔ ایسا ہوگیا تو ٹیلی وژن اسکرینوں پر بڑی رونق لگ جائے گی۔ مگر یہ سب تو 14اگست کے بعد کی باتیں ہیں۔ اس وقت تک ذکر کس بات کا ہو؟ میری سمجھ میں بالکل نہیں آرہا۔

ہاں ایک ذاتی سی بات ہے۔ وہ آپ کے گوش گزار کردیتا ہوں۔ ذاتی سی زیادہ یہ شرمناک بات اس لیے بھی ہے کہ آج میں جو خود کو ایک پھنے خان صحافی سمجھتا ہوںاور ’’گڈ گورننس‘‘ کے ذکر سے اکثر آپ کے کان کھاتا رہتا ہوں اپنی زندگی میں پہلی بار پیسے دے کر کوئی کام کروایا ہے۔ لکھنا شاید مجھے لفظ رشوت چاہیے تھا مگر انتہائی ایمان داری سے میں اصرار کرتا ہوں کہ میں نے رشوت نہیں دی۔ اپنی سہولت کے لیے کچھ اضافی رقم خرچ کی ہے۔ اس رقم کو آپ رشوت نہیں Speed Moneyکہیں تو زیادہ مناسب ہوگا۔

ہوا یوں کہ آج سے چند روز پہلے میری بیوی کو نیا پاسپورٹ بنوانے کی ضرورت آن پڑی۔ وہ اپنے سارے کام خود کرتی ہے۔ یہ فریضہ بھی اس نے خود ہی سرانجام دیا۔ مگر اس پورے عمل کے دوران کافی حد تک لمبی قطاروں وغیرہ وغیرہ کے بارے میں گھر لوٹ کر بڑبڑاتی رہی۔ میں اس کی ہذیانی گفتگو کو بس سنتا رہا۔ اس کی تقریر کے دوران خیال آیا کہ شاید میرے پاسپورٹ کی معیاد بھی ختم ہوچکی ہے۔ میز کی دراز کھول کر اسے نکالا تو واقعی اس سال کی جنوری میں وہ معیاد ختم ہوچکی تھی۔ فوری طورپر مجھے کسی غیر ملکی سفر پر جانا تو نہیں ہے۔ مگر پچھلے دنوں سے خیال آرہا تھا کہ چند وہ ملک بھی اب دیکھ لیے جائیں جہاں جانے کی خواہش تو دل میں کئی برسوں سے پل رہی ہے مگر جانے کا اتفاق نہیں ہوپایا۔

اپنا پاسپورٹ نکالتے ہی میں نے بیگم صاحبہ کو اطلاع دی کہ مجھے بھی اس کی تجدید کرانا ہوگی۔ اپنے پاسپورٹ کی تجدید کے عمل سے اُکتائی محترمہ نے فوراً فیصلہ کردیا کہ چونکہ میں صحافی ہوتا ہوں اس لیے کوئی نہ کوئی جگاڑ لگا کر سرعت سے اپنا کام کروالوں گا۔ میں نے اس کے سامنے بڑھک لگا دی کہ میں ایک اصول پسند شہری ہوتے ہوئے اپنے پاسپورٹ کی تجدید کے سلسلے میں قطعی ایک عام آدمی کی طرح طے شدہ Processسے گزروں گا۔

آج صبح میں نے بسترسے جلد برآمد ہوکر تجدید پاسپورٹ کے عمل سے گزرنے کا ارادہ باندھ لیا۔ پاسپورٹ کی تجدید سے پہلے مگر اس کی فیس جمع کرانا ہوتی ہے۔ وہ جمع کروانے ڈرائیور کو ساتھ لے کر بینک پہنچا تو پاسپورٹ کی فیس وصول کرنے والے کائونٹر کے سامنے ایک طویل قطار نظر آئی۔ بہت اطمینان سے میں نے اس قطار کا جائزہ لے کر بالآخر طے کیا کہ اپنی باری آنے تک مجھے کم از کم 45منٹ انتظار کرنا ہوگا۔ وقت کا یہ ’’ضیاع‘‘ مجھے اچھا نہ لگا اور میں بینک سے باہر آگیا۔ میرے ڈرائیور نے کمال شفقت سے میرا فیصلہ سنا اور پھر پیش کش کی کہ اگر میں ٹھنڈی گاڑی میں ہی بیٹھا رہوں تو وہ زیادہ سے زیادہ دس منٹ میں میری فیس جمع کروادے گا۔

میں حیران ہوا کہ جو کام میں نہیں کرپایا وہ کیسے کرپائے گا تو وہ جواباً محض مسکرایا اور بینک کے اردگرد اسٹول لگائے بیٹھے لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سمجھایا کہ یہ لوگ یہی کام کروانے بیٹھے ہوئے ہیں۔ عام پاسورٹ کی تجدید کروانا ہو تو فیس 3000روپے ہوتی ہے۔25روپے بینک اپنی خدمت کے معاوضے کے نام پر چارج کرتے ہیں۔ مجھے بس 500روپے اضافی دینا تھے۔ میں نے ڈرائیور کو وہ دے دیے۔ یقین مانئے پورے 8منٹ بعد وہ بینک کی رسید لے کر واپس آگیا۔ اپنے کام کی ایسی Fast Track Deliveryوہ بھی صرف 500روپے اضافی خرچ کرنے کے بعد مجھے تو بہت سہل لگی۔ میں آیندہ بھی ایسی سہولتوں سے فائدہ اٹھانا چاہوں گا۔

ٹھوس اطلاع مگر میرے پاس یہ بھی آئی ہے کہ ذوالفقار چیمہ کے زمانے سے پاسپورٹ آفس کے اِرد گرد وہ اسٹولوں والے موجود نہیں رہے جو بینک کے اُردگرد میرے جیسے عام شہریوں کی مدد کے لیے گرم وسرد موسموں میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ معلوم یہ بھی ہوا کہ چیمہ صاحب کے موٹروے پولیس میں جانے کے بعد بھی پاسپورٹ آفیس میں سسٹم کافی سخت چل رہا ہے۔ آپ سے کیا پردہ؟ بینک میں فیس جمع کروانے کے بعد میں گھر لوٹ آیا ہوں۔ میں پاسپورٹ آفس کی قطار میں بھی کھڑا نہیں ہوپائوں گا۔ اپنی سہولت کے لیے کوئی نہ کوئی سفارش ڈھونڈنا پڑے گی۔ ’’گڈگورننس‘‘ گئی بھاڑ میں۔ مجھے تو اپنی راحت درکار ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔