مون سون میں کراچی کی حالت زار۔۔۔۔۔۔۔۔؟

عبداللطیف ابو شامل  جمعرات 24 جولائی 2014
سڑکیں اور نشیبی علاقے زیر آب آنے کا خدشہ ۔  فوٹو : فائل

سڑکیں اور نشیبی علاقے زیر آب آنے کا خدشہ ۔ فوٹو : فائل

 شہر ناپرساں کراچی جو ماضی میں شہروں کی دلہن، روشنیوں کا شہر اور نجانے کیا کیا کہلاتا تھا، بلاشبہ یہ شہر اس وقت بھی پاکستان کی معیشت میں سب سے اہم کردار ادا کررہا ہے، لیکن یہ بدنصیب شہر گزشتہ تین عشروں سے جس بدترین صورت حال کا شکار ہے اس کی مثال شاید ہی کہیں اور ملے گی۔ 

اب اس منی پاکستان کہلانے والے شہر کی مانگ اجڑ چکی ہے۔ شہری سسک سسک کر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ شہر کی اس حالت زار کا ذمے دار کون ہے؟ اس سوال کا جواب سب ہی جانتے ہیں۔ بدترین دہشت گردی، قتل و غارت گری، بھتا خوری، اغوا اور ڈاکے اس شہر پر مسلط ہیں۔ بارود سے اٹی ہوئی اس کی فضا نوحہ کناں ہے، لیکن۔۔۔۔

اس شہر کے لوگ تحمل و برداشت کھو چکے ہیں، لیکن انہوں نے اپنے یہ اوصاف اور زندہ دلی جیسا جوہر کیوں اور کیسے گنوا دیا، اس کے اسباب پر کوئی بات نہیں کرتا اور ان اسباب کا تدارک کوئی نہیں کرتا۔ موت شہریوں کے سروں پر منڈلا رہی ہے، بے روزگاری کے باعث اپنے مستقبل سے مایوس نوجوان چوری اور ڈکیتی کررہے ہیں اور دنیا کے دکھوں اور تکالیف سے وقتی نجات پانے کے لیے منشیات کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔ رہی سہی کسر صحت و صفائی کی ابتر صورت حال اور بنیادی سہولتوں کے فقدان نے پوری کردی ہے۔ پانی اور بجلی کے بدترین بحران نے شہریوں کو شدید اذیت میں مبتلا کردیا ہے۔ روز ایک نئی مصیبت ان کے سروں پر مسلط ہو جاتی ہے اور لوگ مختلف نفسیاتی عوارض کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔

مون سون کی بارشیں اب متوقع ہیں، لیکن شہر میں برساتی نالوں کی صفائی مکمل نہیں کی جاسکی ہے۔ شہر بھر زمینوں پر قبضوں کے ساتھ برساتی نالوں پر تجاوزات قائم ہیں۔ ضلعی بلدیاتی اداروں اور کنٹونمنٹ بورڈز کی جانب سے 40 فی صد کچرا اور ملبا ندی نالوں میں پھینکا جارہا ہے، مون سون کی بارشوں کے دوران سڑکیں اور نشیبی علاقے زیر آب آنے کا خدشہ ہے، جس سے خوف ناک تباہی پھیل سکتی ہے۔ شہر کے برساتی نالوں میں لیاری ندی اور ملیر ندی مکمل طور پر تباہی کا منظر پیش کررہی ہیں۔

شہر میں روزانہ 12 ہزار ٹن کچرے کا 40 فی صد لیاری، ملیر ندی اور دیگر برساتی نالوں میں ڈالا جارہا ہے۔ کچرا چننے والوں نے برساتی نالوں کے قریب ڈیرے بنالیے ہیں جو کچرے سے فروخت کے قابل چیزیں نکال کر دوسرا کچرا ان نالوں میں بہا دیتے ہیں۔ کراچی کے 13 بڑے نالوں کی صفائی بلدیہ عظمیٰ اور 345 چھوٹے نالوں کی صفائی 6 میونسپل کارپوریشنوں کے ذمے ہے۔ بڑے نالوں پر غیر قانونی طریقے سے نجی اور سرکاری عمارتیں بھی قائم کر لی گئی ہیں، جن سے پانی کا بہاؤ متاثر ہوتا ہے۔

دوسری طرف اگر نالوں کی صفائی کا مرحلہ آتا ہے تو یہ تعمیرات اس کام میں رکاوٹ ثابت ہوتی ہیں۔ سولجر بازار نالے پر سندھ سیکریٹریٹ اور دیگر عمارتیں قائم ہیں، اس نالے پر غیرقانونی طریقے سے چھت تعمیر کرکے پارکنگ ایریا بنائے جاچکے ہیں۔ اردو بازار کی دکانیں برساتی نالے پر قائم ہیں۔ شہر کے اہم ترین نالوں سولجر بازار، گجر، محمودآباد، اورنگی، سنگل، چکور، گولڈن، سٹی نالہ، پی ای سی ایچ ایس نالہ، گلاس ٹاور، نہر خیام کے اطراف سرکاری، نجی عمارتیں اور کچی آبادیاں قائم ہوچکی ہیں۔

بیش تر نالوں کے مختلف حصوں پر لینڈ مافیا نے تجارتی مقاصد کے لیے عمارتیں بنا دی ہیں، جب کہ کئی نالوں پر کچی آبادیاں قائم ہیں، جس کی وجہ سے بلدیاتی عملہ اور مشینری ان جگہوں پر صفائی سے قاصر ہے۔ ایک طرف قبضہ مافیا اور شہریوں کے غلط طرز عمل سے یہ مسئلہ بڑھا ہے اور دوسری جانب بلدیاتی اداروں کی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں غفلت اور چشم پوشی سے مختلف مسائل جنم لے رہے ہیں۔

گلشن اقبال ٹاؤن انتظامیہ نے چند سال پہلے گلشن 13 ڈی ٹو میں برساتی نالے کی لائن بچھائی جو لیاری ایکسپریس وے کے انڈر پاس کے قریب نامکمل چھوڑ دی گئی، جس سے لیاری ایکسپریس وے کی تنصیبات کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ قریبی کچی آبادی زیر آب آنے کا خطرہ ہے۔ بلدیاتی ادارے منصوبہ بندی اور آپس کے باہمی ربط سے عاری ہیں۔ شہر میں سیکڑوں برساتی لائنیں بچھائی جاچکی ہیں جس سے ایک علاقے کا مسئلہ حل جب کہ دوسرا علاقہ زیر آب آجاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ادارہ فراہمی و نکاسی آب کی غفلت اور لاپرواہی کے باعث شہر میں نکاسی آب کا بیش تر نظام برساتی نالوں سے منسلک کردیا گیا ہے جس سے برساتی نالوں میں گند اور مٹی جمع ہوجاتی ہے اور پانی کے دباؤ پر برساتی نالے بھر جاتے ہیں۔

اس مخدوش صورت حال میں مون سون میں یہ شہر کیا منظر پیش کر رہا ہوگا، یہ بات اب ہم سب ہی جانتے ہیں اور وہ جواب بھی جو اس صورت حال میں بلدیاتی اداروں کے سربراہ دہرائیں گے۔

دوسری طرف لوڈشیڈنگ نے کراچی کے باسیوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ موسم گرما میں اعلانیہ لوڈشیڈنگ ہی عذاب بن جاتی ہے، آٹھ آٹھ دس دس گھنٹے بجلی سے محروم رہنا پڑتا ہے، ایسے میں غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ بھی جاری ہے۔ ہماری زندگی بجلی سے جڑ گئی ہے۔ فریج، پنکھا، مائیکروویو اون، ٹی وی تمام گھریلو مصنوعات بجلی ہی سے چلتی ہیں۔ اگر بجلی نہ ہو، تو تمام نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ اور اس وقت کراچی میں کچھ ایسی ہی صورت حال ہے۔ گھٹتا بڑھتا وولٹیج بھی اذیت ناک ہے۔ اس کی وجہ سے الیکٹرک مصنوعات کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ کئی تو ناکارہ ہوجاتی ہیں۔ غریب عوام کو ان کی درستی پر خاصے پیسے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔

دوسری جانب متعلقہ بجلی کے ادارے کی جانب سے دعووں کا سلسلہ جاری ہے۔ شہریوں سے نت نئے وعدے کیے جارہے ہیں، مگر ماضی کے تجربات کی روشنی میں یہ بات حتمی ہے کہ ان میں سے کوئی وعدہ پورا نہیں ہوگا۔ سہولیات کو تو جانے دیں، الٹے اضافی بلز بھیجے جارہے ہیں، جن کی درستی کے لیے عوام کو شدید عذاب برداشت کرنا پڑتا ہے۔

گھنٹوں لمبی قطار میں کھڑے رہیں، اور باری آنے پر جواب ملے، جناب بل تو جمع کروانا پڑے گا۔ اب دس بارہ ہزار کمانے والے آدمی کہاں سے بھاری بل جمع کروائے؟ مگر مجبوری اِسی کا نام ہے۔ کسی نہ کسی طرح، ادھار لے کر بل بھرنا پڑتا ہے، ورنہ بجلی کاٹ دی جاتی ہے۔

لوڈشیڈنگ ایک انتہائی گمبھیر مسئلہ بن گیا ہے، جس نے شہریوں کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ اس کے سدباب کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے ورنہ یہ مسئلہ دہشت گردی سے زیادہ بڑا مسئلہ بن کے سامنے آجائے گا۔ اس لیے سنجیدگی برتنی ہوگی۔ رمضان جیسے مقدس ماہ میں بھی شہریوں کی زندگی اجیرن ہے ۔ بارشوں میں بجلی کی بندش مزید غضب ڈھائے گی۔ سحری اور افطار کے اوقات میں لوڈشیڈنگ نہ کرنے کے دعویٰ کا حشر ہم سب دیکھ رہے ہیں۔ حکومتی دعوے کبھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے اس لیے کہ انہیں وہ اہمیت ہی نہیں دی جاتی جس کا یہ تقاضا کرتے ہیں۔ دیکھتے ہیں، اب آگے عوام کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے۔

کراچی کے شہری بنیادی ضروریات اور سہولیات کی عدم فراہمی کا شکوہ کرتے کرتے تھک چکے ہیں، اور بلدیاتی انتخابات کے ذریعے اپنے نمائندوں کا چناؤ کر کے اپنے مسائل اور مشکلات سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ منتخب بلدیاتی نمائندے ہی شہری مسائل کے حل میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ افسر شاہی اور حکومت میں شامل بااثر شخصیات کے منظورِ نظر افراد شہری اداروں میں عہدوں پر فائز ہو کر عوام کو ریلیف دینے کے بجائے اپنے مفادات کو اہمیت دیتے ہیں۔ سندھ بھر میں شفاف بلدیاتی انتخابات کی ضرورت بڑھ گئی ہے اور اس سلسلے میں حکومت، الیکشن کمیشن اور دیگر متعلقہ اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔