خونی چاند، اسرائیل اور مسلمان

اوریا مقبول جان  جمعـء 25 جولائی 2014
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

’’یہ صرف ایک کتاب نہیں ہے جس کے مندرجات نیو یارک ٹائمز میں چھپے ہیں تو شور شروع ہو گیا ہے۔ کار لوٹا گیل (Carlotta Gall) کی یہ کتاب جس میں اس نے ایک افسانوی انداز سے پاکستان کی حکومت خصوصاً فوج کا تعلق اسامہ بن لادن کے ساتھ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ کوئٹہ کی گلیوں اور بازاروں میں جس طرح اُس نے طالبان کی ٹریننگ اور بھرتی کے افسانے تراشے ہیں، اس پر اس ملک کے شہروں اسلام آباد، لاہور اور کراچی کے دانشور تو شاید یقین کر لیں لیکن بلوچستان کے قبائلی معاشرے میں بسنے والے لوگ جہاں ذرا سی آمدورفت لوگوں کی آنکھوں سے پوشیدہ نہ رہتی ہو، جس معاشرے کے بارے میں آج بھی لوگ اعتماد سے کہتے ہیں کہ وہاں نہ قتل چھپ سکتا ہے اور نہ چوری، وہاں کے رہنے والے یہ کہانی پڑھیں یا تصویریں دیکھیں تو انھیں ہنسی آئے۔

لیکن اس کتاب کو یقین کی طرح پھیلانے والوں کی کمی نہیں، پوری دنیا کا میڈیا جن لوگوں کے کنٹرول میں ہے وہ یہ کہانی یہاںختم نہیں کریں گے۔ بلکہ یہ تو ایک آغاز ہے۔ یہ آغاز کیوں ہے۔ اس کا جواب ہر اُس شخص کو آسانی سے مل سکتا ہے۔جو گذشتہ دو یا تین سالوں سے اسرائیل اور امریکا میں موجود طاقتور ترین صہیونی لابی کے 2014 میں آنے والے دنوں کے خواب اور اس حوالے سے دنیا بھر میں پھیلائے جانے والے پراپیگنڈے کو جانتا ہو۔ اسرائیلی اور امریکی میڈیا ان آنے والے دنوں کی پیش گوئیوں سے بھرا پڑا ہے۔

ان پیش گوئیوں کا آغاز وہ یہودیوں کی مقدس کتاب تالمود سے کرتے ہیں۔ تالمود کے مطابق،’’جب چاند گرہن لگتا ہے تو یہ بنی اسرائیل کے لیے یہ ایک بُراشگون ہوتا ہے لیکن اگر چاند کا چہرہ ایسے سرخ ہو جائے جیسے خون تو سمجھو دنیا پر تلوار آر ہی ہے‘‘۔ دنیا بھر کے یہودی گذشتہ دو ہزار سالوں سے ان چاند گرہنوں کا مطالعہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ یہودیوں میں تصوف کی ایک بہت بڑی تحریک ہزاروں سال سے ہے جسے قبالہ کہتے ہیں۔ ان کے ہاں تصوف کا علم زبانی طور پر منتقل کیا جاتا رہا لیکن پھر وہاں تصوف کے لٹریچر نے جنم لیا اور تین کتابیں’’ باہیر‘‘ سفر راذیل حمالنح اور’’ ظہر‘‘ لکھیں گئیں ا ور آج بھی یہ اس سلسلۂ تصوف ’’ قبالہ‘‘ کی رہنما تصانیف مانی جاتی ہیں۔

حروفِ ابجد اور الفاظ کے اعداد نکالنے کا سلسلہ بھی ان کے ہاں رائج ہے بلکہ ہمارے ہاں بھی حروفِ ابجد بالکل وہی ہیں جو ان کے ہاں ہیں۔ یہودی علم نجوم سے دور رہتے ہیں لیکن چاند اور سورج کے گرہنوں کے دوران ہونے والی زمین پر تبدیلیوں کا مطالعہ اپنی مقدس کتابوں کی روشنی میں ضرور کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک تاریخ میں جب کبھی چار خونی چاند گرہن ایک ترتیب میں آئے ہوں تو پھر بنی اسرائیل کے لیئے ا یک ا یسی آفت کا آغاز ہوتاہے جس میں یقینی فتح پوشیدہ ہوتی ہے، اور آخر فتح ہو ہی جاتی ہے، اور ایساتاریخ میں بار بار ہوا ہے۔ اس سارے عمل کو وہ’’ ایلی‘‘ یعنی اللہ کی نشانیوں میں سے ایک واضح نشانی جانتے ہیں۔

خونی چاند گرہن، مکمل چاند گرہن کو کہا جاتا ہے جب چاند زمین کے سائے میں چھپ جانے کی وجہ سے بالکل سرخ رو ہو جاتا ہے۔ یہ چار مسلسل چاند گرہن گذشتہ پانچ سو سالوں میں صرف تین مرتبہ آئے ہیں۔ ان کی اہمیت کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ اس بات کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ یہ خونی چاند کسی نہ کسی یہودی مذہبی دن کے دوران ظہور پذیر ہوتے ہیں۔گذشتہ صدیوں میں یہ دو یہودی مذہبی دنوں میں مسلسل رونما ہوتے رہے ہیں، اور اب 2014میںدو دفعہ اور 2015 میں پھر دو دفعہ مسلسل انھی دنوں میں رونما ہو ں گے۔ گذشتہ پانچ سو سالوں کی تاریخ میں پہلی دفعہ 1492-93 میں ایسا ہوا اور بنی اسرائیل پر آفت آئی۔

اسپین کو ازا بیلا اور فرڈینڈ نے فتح کیا اور پھر یہودیوں پر ایک  افتاد ٹوٹ پڑی۔ قتل کیے گئے ، غلام بنالیے گئے، زبردستی عیسائی مذہب اس طرح قبول کرئوایا گیا کہ سٔور کھانا لازمی قرار دیا گیا اور ہفتہ کے دن کاروبار کرنا بھی۔ لیکن اسی دوران کو لمبس نے امریکا دریافت کر لیا جسے یہودی اپنے لیئے’’ ایلی‘‘ یعنی اللہ کی طرف سے ایک فتح کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ یہودی وہاں جا کر آباد ہوئے اور آج وہ اس کی سیاست، معیشت اور میڈیا پر قابض ہیں۔ دوسری دفعہ ایسے چار خونی چاند گرہن 1949-50 میں ظہور پذیر ہوئے۔ اسرائیل وجود میں آچکا تھا اور ڈیوڈ بن گوریان کی حکومت بن چکی تھی۔

اس حکومت کے خلاف سات عرب ممالک کی افواج متحد ہو کر حملہ آور ہو ئیں۔ اس وقت اسرائیل ایک نوزائیدہ ملک تھا اور مغرب سے یہودی ا ور قتلِ عام سے بھاگ کر یہودی یہاں آباد تھے۔اسرائیل کے پاس صرف ایک ٹینک تھا لیکن قوم پرستوں عربوں کے پاس دو سو ٹینک تھے۔ اسرائیلی یہ سمجھتے ہیں کہ ’’ ایلی‘‘ نے انھیں قوم پرست ، روس نواز عربوں پر فتح دی ۔ تیسری دفعہ یہ چار خونی چاند 1967-68 میں طلوع ہوئے۔ اس دوران مشہور عرب اسرائیل معرکہ تھا۔ ایک جانب قوم پرست اور کیمونسٹ نواز عرب تھے جنھیں روس کی پشت پناہی حاصل تھی۔

اسرائیل کی آ بادی 8لاکھ تھی اور عرب 5کروڑ۔ چار ملک مصر ، شام لبنان اور اردن نے حملہ کیا۔ روس نے دو ارب ڈالر کا اسلحہ فراہم کیا۔ یہ وہ جنگ تھی جس میں مصر کے سیکولر حکمران جمال عبدالناصر نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا۔’’ اے فرعون کے بیٹو! آج تمہارا موسیٰ کے  بیٹوںسے مقابلہ ہے۔ اپنی تاریخی شکست کا بدلہ چکا لو‘‘ ان تمام نہاد مسلمان اور قوم پرست سیکولرز نے دراصل اللہ کے دشمن کا نام لے کر اللہ کی غیرت کو للکارا تھا۔ دوسری جانب امریکا اسرائیل کی مدد کو آیا اور دو ہزار سال بعد یروشلم کا مقدس شہر یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا۔

گذشتہ دوسال سے یہودی ان آنے والے چار خونی چاند گرہنوں کا انتظار کر رہے  ہیں اور پورے اسرائیل کے معبدوں میں مستقل دعائیں اور دیوار گریہ پر عبادت ہو رہی ہے۔ ان میں پہلا خونی چاند گرہن 15۔اپریل2014کو لگے گا، اس دوران یہودیوں کا مشہور تہوار’’ یدش‘‘ جسے انگریزی زبان میں(Passover) کہتے ہیں وہ ہوگا۔ یہ سات دن تک چلتا ہے۔ اس دوران یہودی مخصوص روٹی پکاتے اورمعبد کے سامنے قربانی کرتے ہیں۔ دوسرا خونی چاند گرہن8اکتوبر 2014کو لگے گا اور اس دوران یہودیوں کا مشہور مذہبی دن سکوٹ ہو گا جسے انگریزی میں(Feast of Tabernacle) کہا جاتا ہے۔ اس تہوار کے آخر میں یوم کپور آتا ہے۔

یہ یہودیوں کی مصر سے صحرائے سینائی طرف روانگی اور پھر چالیس سال تک وہاں اللہ کے عذاب میں بھٹکنے کی یاد میں ہے۔ تیسرا خونی چاند 4۔اپریل2015کو طلوع ہو گا اور یہ ’’ یدش‘‘ کے دنوں میں ہوگا اور چوتھا خونی چاند28ستمبر2018کو ہوگا اور یہ سکوٹ کے دنوں میں ہوگا۔ پوری عالمی یہودی برادری یہ تصور کر رہی ہے ۔ کہ یہ اسرائیل کے لیئے کسی جنگ کا آغاز ہو گا جس کے آخر میں فتح ہوگی ۔ ان کے اخبارات ، رسائل اور میڈیا اس سارے عمل کو’’( Tragedy and then Triumph) کہتے ہیں۔ یعنی’’ غم وانددہ کے بعد کامیابی‘‘ اس سارے پس منظر میں دنیا بھر کا یہودی میڈیا بلکہ مغربی میڈیا جوان کے قبضے میں ہے، تمام عرب ممالک میں آنے والی عرب بہار کو مسلم امہ کی خوفناکی سے تعبیر کر رہے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ اب عرب دنیا پورے عالم کے لیے ایک خطرہ بن چکی ہے۔

اس دوران وہ یہ بھی پراپیگنڈا کر رہے ہیں کہ امریکا اب دنیا میں امن قائم کرنے کے قابل نہیں رہا اور اسرائیل کو خود آگے بڑھ کر اس عالمی دہشت گردی کو روکنا ہوگا۔مسلمانوں سے جنگ کے راستے  میں سب سے زیادہ کھٹکنے والی چیز پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہے۔ اس کے خلاف ایک منظم مہم کا آغاز بہت دیر سے شروع تھا لیکن اب آنے والے دنوں میں شدت لائی جائے گی۔ عربوں کی بے چینی سے فائدہ اٹھا کر حملوں کی تیاریاں ہیں۔ کیونکہ یہودیوں کی اکثریت یہ یقین کرتی ہے کہ اب ان کی عالمی حکومت قائم ہونے کے دن آگئے۔ یہ وہی حکومت ہے جسے سیّدالابنیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے دجاّل کے ظہور سے تعبیر کیا ہے۔

خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا’’ دّجال کا ظہور اس وقت ہوگا جب مساجد میں اس کا ذکر ختم ہو جائے گا‘‘ کیا ہم پھر  اس خطرے کا مقابلہ فرعون کی اولاد ، قریش کی قوم، سائرس اعظم کی نسل اورموئن جودڑو کے وارثوں کی حیثیت سے کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر شکست ہمارا مقدر۔ اس لیے کہ میرے اللہ کا وعدہ صرف اپنے بندوں کے ساتھ ہے رنگ نسل ، زبان  اور علاقے کے بندوں کے ساتھ نہیں۔‘‘(یہ کالم 22۔مارچ2014ء کو شایع ہوا)

اس کالم کی اشاعت کے بعد کتنے ہاتھ تھے جو میرے گریبان تک آگئے۔ کسی نے تو ہم پر ستی کا طعنہ دیا اور کسی نے مذہبی تعصب کا، کوئی دقیانوس، فرسودہ اور غیر حقیقی تجزیہ نگار ہونے کا لیبل لگاتا رہا۔ لیکن یہودیوں نے اپنی مذہبی علامتوں کے مطابق جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ جنگ ہم کو لڑنا ہی پڑے گی۔ یہ اس امت کا مقدرّ ہے۔ یہ ریلیوں، پلے کارڈوں اور ٹاک شوز کی جنگ نہیں ہوگی۔ یہی وہ معرکہ ہے جو اس د نیا میں حق و باطل کا آخری فیصلہ کر دے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔