اقتدار کے کھیل کے بارے میں اصل خبر

نصرت جاوید  جمعـء 25 جولائی 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

برسوں کی تحقیق کے بعد دُنیا بھر کے ماہرین نے اب سائنسی طور پر یہ حقیقت دریافت کرلی ہے کہ نئی چیزوں کو سیکھنے سے کہیں زیادہ مشکل ان خیالات کو بھلانا ہوتا ہے جو انسان کے ارتقاء کی بدولت فرسودہ ہو گئے ہوتے ہیں۔

Unlearning کی مشکلات کو بآسانی سمجھنا ہو تو ذرا فرصت میں تھوڑے غور کے ساتھ میرے جیسے پاکستانیوں کی انگریزی میں لکھی ہوئی تحریریں پڑھ لیں۔ آپ کو جلد پتہ چل جائے گا کہ بہت سارے فقرے جو بات کہنا چاہ رہے ہیں وہ درحقیقت اُردو میں سوچی گئی تھی اور لکھنے والے نے اس کا صرف انگریزی میں ترجمہ کر دیا۔ مادری زبان کے بجائے انگریزی میں اپنے مدعا بیان کرنے کی وجہ سے بھارتیوں کی لکھی انگریزی اب Hinglish کہلاتی ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ چین اور جاپان کے لوگوں کے ساتھ بھی ہوا کرتا ہے۔

Unlearning  کے حوالے سے میری مشکلات زبان و بیان کے حوالے سے نہیں بلکہ اس سوچ کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں جس کے ذریعے میں اپنے ملک کے سیاسی معاملات اور یہاں رچائے اقتدار کے کھیل کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہا ہوں۔ اوائل جوانی میں یہ بات ذہن میں بیٹھ گئی تھی کہ خلقِ خدا اجتماعی طور پر کچھ سیاسی فیصلے کرتی ہے۔ حکومتوں کا آنا جانا صرف اس اجتماعی سوچ کی بدولت ممکن ہوتا ہے۔ آج بڑے افسوس مگر ایمان داری کے ساتھ میں یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوں کہ میں خلقِ خدا کی نظر آنے والی ترجیحات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے ہاں کے سیاسی اُتار چڑھائو کا تجزیہ کرتے ہوئے اکثر غلط ثابت ہوا۔

اس حوالے سے پہلا دھچکا مجھے 1992ء میں سہنا پڑا۔ اس سال کے اپریل میں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی حکومت برطرف کر دی تو مجھے پورا یقین تھا کہ ماضی کے سپریم کورٹ کی طرح اس برطرفی کو بھی آئینی طور پر درست قرار دے دیا جائے گا۔ محمد خان جونیجو مرحوم کی حکومت ضیاء الحق نے مئی 1988ء میں برطرف کی تھی۔ مگر سپریم کورٹ نے اس برطرفی کے خلاف اپیل سننے کی جرأت و سرعت فضائی حادثے میں ضیاء الحق کی ہلاکت کے بعد ہی دکھائی۔

اس اپیل کی سماعت کے دوران بنچ پر بیٹھے چند معزز جج صاحبان کے ریمارکس سے امید بلکہ یہ بھی بندھ گئی کہ شاید جونیجو مرحوم کی حکومت اور اسمبلی کو بحال کر دیا جائے گا۔ ایسا مگر نہ ہو سکا۔ وسیم سجاد کی وساطت سے ان دنوں کے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کا ایک پیغام ججوں تک پہنچایا گیا۔ اس پیغام کے نتیجے میں بالآخر فیصلہ یہ آیا کہ ضیاء الحق کی طرف سے جونیجو مرحوم کی حکومت اور اسمبلی توڑنے کا فیصلہ تو غیر آئینی تھا مگر چونکہ ’’عوام‘‘ اب نئے انتخابات کے لیے تیار ہیں اس لیے وہ حکومت بحال نہیں کی جا رہی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو جب غلام اسحاق خان نے برطرف کیا تو سپریم کورٹ نے اسے بھی ایک جائز فیصلہ قرار دیا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ نواز شریف کی پہلی حکومت کی برطرفی کے بارے میں سپریم کورٹ اپنے ماضی والا رویہ اختیار کرے گی۔

جسٹس نسیم حسن شاہ مگر ان دنوں ہمارے چیف جسٹس ہوا کرتے تھے۔ انھوں نے نواز حکومت کی برطرفی کے خلاف اپیل کی سماعت فوری اور روزانہ بنیادوں پر شروع کر دی۔ اسی مقدمے کی بدولت نواز شریف کے چاہنے والے چند رپورٹروں کی وساطت سے ہمیں یہ بھی پتہ چلا کہ پاکستان میں خالد انور نام کا ایک جید وکیل بھی موجود ہے۔ خوب صورت انگریزی میں متاثر کن دلائل دے کر ججوں اور دُنیا کو حیران کر دیتا ہے۔ فوری سماعت کے بعد بالآخر نسیم حسن شاہ صاحب نے نواز حکومت کو بحال کر دیا۔ ایسا کرتے ہوئے انھوں نے جو ’’تاریخی‘‘ فیصلہ لکھا وہ آج بھی قومی اسمبلی کی عمارت میں دیواروں پر سنہری حروف میں کندہ ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ اس ’’تاریخی‘‘ فیصلے کے باوجود محترمہ بے نظیر کی دوسری حکومت کو ان ہی کے بنائے صدر لغاری نے برطرف کر دیا اور نواز شریف کی دوسری حکومت 12 اکتوبر 1999ء کے فوجی اقدام کی نذر ہو گئی۔ ’’تاریخی‘‘ فیصلہ بس قومی اسمبلی کی دیواروں پر کندہ ہی رہ گیا۔ کاش 2002ء کے بعد منتخب ہونے والی قومی اسمبلیوں کے کسی اسپیکر میں اتنی اخلاقی جرأت ہوتی کہ وہ اس ’’تاریخی‘‘ فیصلے کو پارلیمان کی دیواروں سے مٹانے کا فیصلہ کر ڈالتا اور ہمارے سیاسی رہنما شرمسار ہو کر کچھ سوچنے پر مجبور ہو جاتے۔

مجھ میں Unlearning کی صلاحیت نہ ہونے کی کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ نسیم حسن شاہ کی سپریم کورٹ نے نواز حکومت کو بحال کر دیا تو میں نے طے کر لیا کہ اب اس حکومت کا کچھ بھی بگاڑا نہیں جا سکتا۔ بطور گورنر پنجاب مرحوم چوہدری الطاف حسین مگر ڈٹ گئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے منظور وٹو کے ساتھ مل کر لاہور سے اسلام آباد تک ایک لانگ مارچ کا اعلان بھی کر دیا۔ وہ لانگ مارچ تو خیر کیا ہوتا۔ اچانک ایک ہیلی کاپٹر گیا جو محترمہ کو GHQ لے گیا۔ وہاں انھوں نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ سے ایک طویل ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد جنرل کاکڑ نواز شریف اور غلام اسحاق خان سے پے در پے ملاقاتیں کرتے رہے۔ بالآخر ان دونوں نے اپنے عہدوں سے استعفے دے کر نئے انتخابات کی راہ ہموار کر دی اور نئے انتخابات کی خاطر قائم مقام وزیر اعظم کے لیے معین قریشی کے نام پر اتفاق کیا۔

میں تو خیر ان دنوں ایک جونیئر رپورٹر تھا۔ میرے بہت ہی محترم بزرگوں کو بھی ان صاحب کے بارے میں کوئی خبر نہ تھی۔ بہت تگ و دو کے بعد معلوم ہوا تو صرف اتنا کہ موصوف کا تعلق قصور سے ہے۔ کبھی گورنمنٹ کالج لاہور کے طالب علم ہوا کرتے تھے۔ پھر امریکا چلے گئے اور ورلڈ بینک وغیرہ میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ میں کئی برسوں سے بڑی محنت کے باوجود آج تک یہ معلوم نہیں کر پایا کہ قائم مقام وزارت عظمیٰ کے لیے معین قریشی کا نام کہاں سے اور کن کن لوگوں کے ذریعے آیا اور اس نام میں ایسی کیا کشش تھی کہ غلام اسحاق خان، نواز شریف، محترمہ بے نظیر بھٹو اور جنرل وحید کاکڑ نے اس پر فوراً اتفاق کر لیا۔

معین قریشی کے اچانک نمودار ہونے کی بدولت میں نے سیکھا تو صرف اتنا کہ پاکستان جیسے غریب ملک میں اقتدار کے فیصلے نہ تو سڑکوں پر ہوتے ہیں نہ پارلیمان میں۔ میڈیا کا شور و غوغا بھی محض شور و غوغا ہی رہتا ہے۔ اصل فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں اور میرے جیسے ’’دو ٹکے کے صحافیوں‘‘ کو ان کی کوئی سن گن بھی نہیں ہوتی۔ معین قریشی کی وجہ سے اپنی ’’اوقات‘‘ دریافت کر لینے کے بعد مجھے 12 اکتوبر 1999ء کے بعد شوکت عزیز کی نموداری اور پھر وزارتِ خزانہ سے وزارتِ عظمیٰ تک سفر کے بارے میں کبھی حیرت نہ ہوئی۔

بس ان دونوں افراد کی اچانک نموداری نے اتنا ضرور سمجھا دیا کہ جو نظر آتا ہے بس اس پر اکتفا نہ کرو۔ اپنی آنکھیں اور کان ہمیشہ کھلے رکھو اور یہ جاننے کی مسلسل تڑپ کہ اقتدار کے اصل مراکز میں کیا کھچڑی پک رہی ہے۔ آنکھیں اور کان کھلے رکھنے کی وجہ سے مجھے کافی پہلے یہ بھی علم ہو گیا تھا کہ کسی زمانے میں پاکستان میں متعین برطانوی سفیر مارک لائل گرانٹ کے ذریعے جنرل مشرف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان کوئی سمجھوتہ کروایا جا رہا ہے۔

اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھنے کی اسی عادت کے باعث میں اب یہ لکھنے پر مجبور ہوں کہ آصف علی زرداری کے حالیہ دورئہ واشنگٹن کو بڑی سنجیدگی سے لیا جائے۔ کہیں نہ کہیں ایک بار پھر کوئی کھچڑی ضرور پک رہی ہے۔ کاش میں اس کھچڑی کی تفصیلات جان کر آپ کو اس حوالے سے کچھ بتانے کے قابل ہوتا۔ ہوں مگر دو ٹکے کا صحافی۔ اقتدار کے کھیل کے بارے میں اصل خبر مجھے کوئی کیوں دے گا؟!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔