(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - ’پروڈکٹ‘

اسامہ جمال  جمعـء 25 جولائی 2014
خدارا اپنی خواہشات بچوں پر مسلط نہ کریں۔ ان کو خاندان میں ناک اونچی کرنے کا مقصدِحیات نہیں بلکہ اِس معاشرے کا معمار اور ایک اچھا مسلمان بنائیں۔ فوٹو: فائل

خدارا اپنی خواہشات بچوں پر مسلط نہ کریں۔ ان کو خاندان میں ناک اونچی کرنے کا مقصدِحیات نہیں بلکہ اِس معاشرے کا معمار اور ایک اچھا مسلمان بنائیں۔ فوٹو: فائل

آجکل مختلف اشتہارات میں ایک پروڈکٹ کا مقابلہ دوسری سے کیا جاتا ہے تاکہ اپنی پروڈکٹ کی برتری اور خوصوصیات جتائیں اور دوسروں کی چھپائی جاسکیں خواہ اپنا پروڈکٹ کتنا ہی غیر معیاری اور عام سی کوالٹی کا ہی کیوں نہ ہو ۔

غالباً ہماری امی جان کی وقتوں میں اِس نوعیت کے اشتہارات کا رجحان کم یا بالکل بھی نھیں رہا تھا اِس بات کا خیال مجھے اِس لئے آتا ہے کہ ہمہ وقت، ہمہ تن، ہماری امی اپنے پروڈکٹ یعنی ہم بہن بھائیوں کی صرف، صرف اورصرف (یہاں تیسری دفع لکھا جانا اِس بات کا یقین کروانا ہے کہ اِس کے علاوہ اور دوسرا کوئی معاملہ کبھی ہوا ہی نہیں) خامیاں و ہڈدھرمیاں اور دوسروں کے پروڈکٹ کی خوبیاں گنوایا کرتی تھی ۔چچا کے بیٹے متین سے لے کر پھپھو کی بیٹی نسرین اور ناجانے کون کون سے پیدائشی دانشور ،ادیب، سیاستدان اور سائنسدانوں سے مقابلہ کیا جاتا رہا۔

اسکول، کالج، یونیورسٹی اور اب عملی زندگی میں آنے کے بعد بھی یہ سلسلہ بالکل  اُسی  جاری و ساری ہے ۔  یہ ہمارے معاشرے کا المیہ رہا ہے کہ ہم نے ہمیشہ اُن باتوں کو نظر انداز کیا ہے جن کو دوسرے ترقی یافتہ اور مہذب معاشروں میں بڑی اہمیت حاصل ہے، جیسے کہ اپنے بچوں کی بچپن سے ہی تعمیری کردار یعنی (character building) کرنا مگر افسوس کے ہمارے یہاں صرف حسد ، بغض اور احساسِ کمتری ہی build کیا جاتا ہے۔ بچپن ہی سے اِس احساس میں مبتلا کردیا جاتا ہے کہ باقی دنیا تم سے بہتر ہے تم ہی سب سے ذیادہ نالائق، کند ذہن اور کاہل ترین انسان ہو اور جذبہ خوداعتمادی (Self Confidence) کو اِتنے بُرے انداز میں مسمار کردیا جاتا ہے کہ دوبارہ کبھی کھڑا نہ ہوجاسکے یعنی ہم تو پیدا ہی قصائی اور پنکچر لگانے کے لئے ہوئے تھے، کیونکہ اکثر امی جان یہ کہہ کر ہمارے حصلے بلند کیا کرتی تھیں ’چھوڑ آتے ہیں ابھی اِسکونیچے موچی کے پاس، سب کے جوتے پولش کرے گا اب یہ‘۔  اب خالاکلثوم کے بیٹے کو ہی دیکھو اپنی کلاس میں اول آتا ہے اور اِس سال تو پورے سکول میں ٹاپ کیا ہے۔ کلاس میں اول آنے کا بھی کیا عجب احساس ہوتا ہوگا یہ سب ہم کو جنت کی باتیں لگتی تھیں۔

ہر سال اپنا نامۂِ اعمال (report card) ، والد اور والدہ کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ قول ضرور سنتے تھے ’دنیا کے معاملات میں ہمیشہ خود سے کمتر لوگوں کو دیکھو اور دین کے معملات میں ہمیشہ خود سے ذیادہ متقی شخص کو تو ہمیشہ مطمعین رہو گے‘ پھر اس کے بعد جو ہوتا تھایہاں اس کا ذکرکرنا مناسب نہیں ۔اب چاہے خاندان میں آنے جانے کی بات ہو یا پہننے اوڑھنے کا معاملہ ہو یا روز مرہ کے معمولات، اِن تمام صورتوں میں ہم امی جان کو اپنی پروڈکٹز دوسروں کی چمکیلی اور لوگوں میں مقبول پروڈکٹز زیادہ بہتر اور قابلِ اعتماد معلوم ہوتی تھیں نتیجتاً ہم کو پھر بھرپور طریقے سے ذلیل ہونے کا موقع ملتا تھا۔

آپا زرین کے بچے اپنی رپورٹ کارڈ اپنے ماتھوں پے چپکائے گومتے تھے اور ہم فقط اپنی الماری پر بھی نھیں چپکا سکتے تھے کیوں کہ اکثر رشتداروں کا آنا جانارہتا ہی تھا۔پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں اِس بات کا پرچار ہمیشہ کیا جاتا ہے، اب آپ ہاتھی کو کتنے ہی کوڑے کیوں نہ مار لیں وہ کبھی کسی بندر کی طرح جھٹ سے درخت کی شاخوں سے جھولتا ہوا اس کی سب سی اونچی شاخ پر نہیں بیٹھ سکتا کیونکہ یہ کام تو بندروں کو ہی ذیب دیتا ہے۔ دوسروں کے بنمانسوں سے اپنے گھر کے چوزے اور بلی وغیرہ کا مقابلہ کر کے چوزے کو مزید چوزا اور بلی کو بھیگی بنانے کی جگہ چوزے کو مستقبل کا خودار، ذمے داراور چاق و چوبند مرغا اور بلی کو شیر بنانے کا سوچیں۔

اختتام اِس با ت پرکہ خدارا اپنی خواہشات بچوں پر مسلط نہ کریں۔  ان کو خاندان میں ناک اونچی کرنے کا مقصدِحیات نہیں بلکہ اِس معاشرے کا معمار اور ایک اچھا مسلمان بنائیں ۔ اور ساتھ ساتھ  یہ دعا بھی ہے کہ  یہ بلاگ میری والدہ کی پہنچ سے دور رہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔