فی الحال خاموش رہنے ہی میں عافیت ہے

نصرت جاوید  جمعـء 25 جولائی 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

اسلام آباد میں مقدر کے سکندر ایسے کئی لوگ ہیں جن کے طرزِ زندگی کا ذرا قریب سے مشاہدہ کریں تو گماں ہوتا ہے کہ وہ پیسہ کماتے کماتے اب تھک چکے ہیں۔ قدرت کی فیاضیوں نے انھیں انتہائی مہمان نواز بھی بنا دیا ہے۔ مغرب کے بعد گھر کے دروازے کھلے رکھتے ہیں۔ کوئی خود چل کر ان کے ہاں نہ آئے تو شام کے 7:30 بجتے ہی اپنے دوستوں کو چیک کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ان کے دوستوں کی اکثریت ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو بہت اہم سول اور فوجی عہدوں سے ریٹائر ہو کر اب فارم ہائوسز میں تنہائی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

ان کے پاس ماضی کی بہت ساری کہانیاں ہوتی ہیں۔ مگر میزبان اور میرے جیسے عامیوں کو ان کے ’’شہاب نامے‘‘ سننے میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی۔ اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ اقتدار کے کھیل کو بہت قریب سے دیکھنے والے ان حضرات سے معلوم یہ کیا جائے کہ ’’کیا ہونے والا ہے‘‘۔ آج سے تقریباََ 5  برس پہلے تک ایک رپورٹر کی حیثیت میں ایسے لوگوں کی محفلوں میں بیٹھنے کی مجھے بہت تڑپ رہا کرتی تھی۔

مجھ کو یہ دریافت کرنے میں بہت دیر لگی کہ ماضی میں بہت طاقتور سمجھے جانے والے حضرات کے پاس اب کہانیاں تو بہت ہوتی ہیں مگر ’’خبر‘‘ نہیں۔ بس قیافے اور اندازے ہوتے ہیں اور زیادہ تر اس بات کا دُکھ کہ ’’ان کے زمانے میں‘‘ ریاستی امور اس ’’بچگانہ انداز‘‘ میں Handle ہوئے نظر نہیں آیا کرتے تھے جیسا ’’ان دنوں‘‘ ہو رہا ہے۔

بات چل نکلی ہے تو مجھے آپ کو یہ کہانی سنانے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ ستمبر 1999ء کی ایک شام راولپنڈی کے ایک جید سیاسی کارکن سید کبیر علی واسطی کے ہاں جنرل اسلم بیگ تشریف فرما تھے۔ واسطی صاحب نے مجھے اطلاع دی کہ وہ مجھے یاد فرما رہے ہیں۔ میرا جنرل صاحب سے کبھی کوئی ذاتی تعلق نہیں رہا تھا مگر واسطی صاحب کی خاطر فوراً حاضر ہو گیا۔ جنرل صاحب نے اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد بڑی شفقت کے ساتھ مجھ سے پوچھا کہ سیاسی محاذ پر کیا ہو رہا ہے۔ بڑی عاجزی اور ایمان داری کے ساتھ میں نے انھیں جواب دیا کہ خبروں کے اصل مراکز تک میرے جیسے شودر رپورٹر کی رسائی نہیں ہوا کرتی۔ ہم تو جنرل صاحب جیسے کرم فرمائوں کی باتیں سن کر اپنا ڈنگ ٹپاتے ہیں۔

ہاں ان دنوں میں جبلی طور پر یہ ضرور محسوس کر رہا ہوں کہ فوج نواز شریف صاحب کی حکومت کو ختم کرنا چاہ رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ نوبت مارشل لاء تک پہنچ جائے۔ میرا جواب سن کر جنرل بیگ صاحب نے بڑے اعتماد کے ساتھ مجھے اطلاع دی کہ پاکستانی فوج نے اب اس ملک میں مارشل لاء نہ لگانے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ ’’اب سیاست دان جانیں اور ان کا گند‘‘ میں لیکن جب اپنی بات پر ڈٹا رہا تو انھوں نے بڑے کھلے دل سے کہا کہ ہم دونوں کو اس موضوع پر کوئی شرط لگانا چاہیے۔ میرے حصے کی ’’شرطیں‘‘ چونکہ میرے والد مرحوم بہت لگا کر کافی مرتبہ ہار چکے ہیں اس لیے اس ضمن میں احتیاط ہی برتتا ہوں۔ محض مسکرا کر رہ گیا اور بالآخر 12 اکتوبر 1999ء ہو ہی گیا۔

اس طرح کے میرے پاس آپ کو سنانے کے بے شمار واقعات ہیں۔ مگر سچی بات یہ بھی ہے مجھے رپورٹر والا ’’شہاب نامہ‘‘ سناتے ہوئے شرم آتی ہے۔ شرم کے ساتھ ہی ساتھ یہ وہم بھی لاحق ہے کہ جب آدمی تھک ہار کر بڑھاپے میں ایک کونے میں بیٹھ جائے تو ہر وقت کہانیاں ہی سناتا رہتا ہے اور میں اپنا دل ابھی تک جوان رکھنے پر بضد ہوں۔

اسلام آباد کے مہربان میزبانوں کی تمہید مجھے باندھنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ ان دنوں ان کے دستر خوانوں پر آصف علی زرداری کا ’’مستقبل‘‘ بڑی شدت کے ساتھ زیر بحث ہے۔ یاد رہے کہ صرف چند ہی روز پہلے تک ایسے دستر خوانوں کی نظر میں آصف علی زرداری ’’ہسٹری‘‘ ہو چکے تھے۔ ان کی جماعت سندھ تک محدود ہو چکی تھی اور مستقبل صرف عمران خان کا نظر آ رہا تھا۔ مگر زرداری نے نواز شریف کو بادشاہ نہ بننے کا مشورہ دے کر انھیں چونکا دیا۔ بات صرف ان کے بادشاہ والے بیان تک محدود رہتی تو اسلام آباد کے فیاض میزبان اور ان کے مہمان سابق صدر کو بھول بھال جاتے۔ ستم مگر یہ بھی ہوا کہ آصف علی زرداری ’’اچانک‘‘ واشنگٹن پہنچ گئے۔

وہاں ایک پاکستانی نژاد تاجر رفعت محمود کے ہاں ان کی امریکی نائب صدر اور وہاں کی کانگریس کے کئی اہم اراکین سے ملاقاتیں ہو گئیں۔ ان ملاقاتوں میں کیا بات زیر بحث رہی اور ان کا دورانیہ کیا رہا؟ کسی کے پاس اس حوالے سے کوئی ٹھوس خبر نہیں۔ ہاں میڈیا اور انٹرنیٹ پر تصویریں ہیں جن میں آصف علی زرداری امریکا کے چند بڑے لوگوں کے ساتھ کافی دوستانہ اور بے تکلفانہ انداز میں گپ شپ لگاتے نظر آ رہے ہیں۔ زرداری صاحب کی واشنگٹن یاترا کے حوالے سے پیپلز پارٹی کی شہلا بی بی نے ایک چسکے دار کہانی بھی بیان کر دی جس کی اس جماعت کے سرکاری ترجمانوں نے فوراً تردید بھی کر دی ہے۔

ٹھوس حقائق سے مگر اسلام آباد کے فیاض میزبانوں اور ان کے مہمانوں کو کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ اللہ کے فضل سے ان کے اپنے ذہن بہت زرخیز ہیں۔ اپنے کشف کی برکتوں سے دور کی کوڑیاں ملا لیتے ہیں۔ ماحول افسانہ نگاری کا اس ملک میں ویسے بھی پوری طرح بن چکا ہے۔ قادری صاحب کو انقلاب لانا ہے اور عمران خان ملین مارچ کے ساتھ 14 اگست کو اسلام آباد پہنچ کر وسط مدتی انتخابات حاصل کرنے کا ارادہ باندھ چکے ہیں۔

ایسے حالات میں زرخیز ذہنوں کو ہماری رہ نمائی کرنا ہوتی ہے اور مستقبل کے بارے میں کوئی سیناریو گھڑ کر ہمیں حیران کرنا ہوتا ہے۔ بہر حال ایسے ہی چند زرخیز ذہنوں کی ’’تازہ خبر‘‘ یہ ہے کہ آصف علی زرداری ایک بار پھر ایوانِ صدر پر قبضہ کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ زرخیز ذہنوں میں اختلاف البتہ اس بات پر اب بھی موجود ہے کہ آصف علی زرداری اس ملک کے ایک بار پھر صدر، نواز شریف کو ’’بلیک میل‘‘ کرنے کے بعد بنیں گے یا کوئی او ر “Set Up” انھیں ایوانِ صدر تک پہنچائے گا۔

میں اس ضمن میں کوئی رائے دینے سے پہلے یہ وضاحت ضرور کرنا چاہتا ہوں کہ ذاتی طور پر مجھے ممنون حسین اچھے لگے ہیں۔ میں ان سے صرف دو بار ملا ہوں۔ آدمی مزے کے ہیں۔ خلیق بھی ہیں اور باتیں بڑی خوشگوار کرتے ہیں۔ ممنون حسین کی ان خوبیوں کے اعتراف کے باوجود میں آصف علی زرداری کی ایوانِ صدر واپسی سے بہت خوش ہوں گا۔ ان کی سیاست کا میں کوئی زیادہ مداح نہیں بلکہ اکثر اسے تنقید کا نشانہ بنائے رکھتا ہوں۔

ون آن ون ملاقاتوں میں میرا زرداری صاحب کے ساتھ رویہ سیاسی معاملات پر بحث کرتے ہوئے بلکہ کافی گستاخانہ ہو جاتا ہے۔ دوسرا گلہ مجھے ان سے یہ ہے کہ موصوف ’’خبر‘‘ کے معاملے میں اب بہت زیادہ کنجوس ہو چکے ہیں۔ کچھ سوالات ایسے ہیں جو میں دیوار سے کرتا رہوں تو شاید وہ بھی بول پڑے مگر یہ صاحب ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ ان سب ’’خامیوں‘‘ کے باوجود میں آصف علی زرداری کو بطور انسان بہت پسند کرتا ہوں۔

یہ سب بیان کرنے کے بعد ’’بُری خبر‘‘ میرے پاس یہ ہے کہ آصف علی زرداری اب اس ملک کے دوبارہ صدر کبھی نہیں بننا چاہیں گے۔ نواز شریف انھیں یہ عہدہ طشتری میں رکھ کر بھی پیش کریں تو وہ انکار کر دیں گے۔ موصوف نے اپنے ہاتھوں سے 18 ویں ترمیم کروا کر تمامتر اختیارات وزیر اعظم کے عہدے کے سپرد کر دیے تھے۔ 18 ویں ترمیم کے بعد وزیر اعظم تو دور کی بات ہے، PM آفس کے چند اہلکاروں کے ہاتھوں ان کے ساتھ جو ہوتا رہا اس کی کہانی آصف علی زرداری خود ہی سنا دیں تو زیادہ بہتر ہو گا یا اگر سلیمان فاروقی اپنی ’’فاروقی بیتی‘‘ لکھنے کا فیصلہ کر لیں۔ ہاں ’’کسی اور Set Up‘‘ کے حوالے سے آصف علی زرداری کے ممکنہ کردار اور حصہ بقدر جثہ وصول کرنے کی صلاحیت کے بارے میں فی الحال میں خاموش رہنے ہی میں عافیت محسوس کروں گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔