وہی اجڑی اور تاریک قبر

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 26 جولائی 2014

یہ تو ہونا ہی تھا جب معاشرے میں عدم مساوات، نا انصافی،ظلم و ستم ،غربت، افلاس، مہنگائی،بے اختیاری، بے روزگاری،عدم تحفظ، عزت نفس کی پامالی اورطبقاتی کشمکش جب ہر حد پارکرجائے گی تو پھر ڈاکے بھی پڑیں گے لوٹ مار بھی ہوگی اغواء بھی ہوں گے بھتے کی پرچیاں بھی ملیں گی دہشت گردی بھی ہوگی۔

انتہا پسندی بھی ہوگی جب ملک کی دولت پر چند لوگ قابض ہوجائیں گے جب ملکی وسائل اور اختیارات کے مالک عوام کے بجائے مخصوص افراد ہوجائیں گے اور باقی ساری آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی سسک سسک کر تڑپ تڑپ کر گذار رہی ہوگی تو پھر امیروکبیر،خو شحالی لوگ چین سے کیسے رہ سکیں گے کیونکہ ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے فطری طور پر سب لوگ یکساں مساوی اور آزاد پیدا ہوتے ہیں جب آپ سماج میں طبقات بنا دیتے ہیں اورکچھ لوگ زوروجبر سے باقی سب لوگوں کی زندگیوں کے مالک بن جاتے ہیں اور انہیں ایک ایک روٹی کے لیے ترسانا شروع کر دیتے ہیں تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ حقوق غصب کرنے والے چین سے جی سکیں کیونکہ اندرونی خلفشار انہیں بھی لپیٹ میں لے لیتا ہے جب آگ لگتی ہے تو وہ چاروں طرف پھیلتی ہے ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ مخصو ص لوگوں کو چھوڑ کر باقی سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے تو پھر اس صورتحال پر امیروں کا روناکس بات پر چیخنا چلاناکس لیے دہا ئیاں دینا اور رونا کس لیے۔

ظاہر ہے جو آپ بوئیں گے وہی تو کاٹیں گے جب آدمی بھوک سے مررہا ہو کئی کئی دنوں سے وہ اور اس کے پیارے فاقے کررہے ہوں یا تو وہ خو د کشی کریں گے یا پھر وہ ہی کچھ کریں گے جو ہورہاہے آپ ان مجرموں کو جتنا چاہیں برا بھلا کہہ لیں جتنا چاہیں ان کے خلاف بات کر کے اپنے دل کی بھڑاس نکال لیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کے خالق کون ہیں کیا یہ پیدائشی مجرم ہیں کیا یہ پیدا ہی جرم کرنے کے لیے ہوئے ہیں یااس سما ج نے انہیں مجرم بنایا ہے اگر ایسا ہے تو کیا پو را سماج قصور وار ہے یا وہ لو گ قصور وار ہیں جو سماج کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں۔ جو سماج کی ساری نا انصافیوں کے ذمے دار ہیں جو سماج کی ساری دولت پر جبراً قبضہ کیے ہوئے ہیں تو پھر مجرم وہ نہیں بلکہ اصل مجرم وہ ہیں جنہوں نے انہیں مجرم بننے پر مجبور کیاان کے لیے وہ حالات پیدا کیے کہ ان کے پاس جرم کر نے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں بچا۔

یہ بات تو طے ہے کہ کوئی بھی جرم نہیں کرنا چاہتا انسان جب پیدا ہوتا تو وہ فرشتہ ہوتاہے جب وہ بڑا ہوتا ہے تو اس کے حالات اس کی زندگی کا فیصلہ کرتے ہیں لہذا انسان کا کردار اس کے حالات کا محتا ج ہوتا ہے، اگر آپ اسے عزت کے ساتھ اس کی صلاحیتوں کے مطابق روزگار دے دیں سماج میں اسے عزت دے دیں اسے انصاف اور اختیار دے دیں تو وہ کبھی بھی جرم کی طرف راغب نہیں ہوگا۔ یاد رہے انسان پر سب سے شدید حملہ ناانصافی کا ہوتاہے جس سے اس کے اندر اس قدر تباہی پھیلتی ہے کہ تصور بھی محال ہے۔

ولیم جیمز کہتا ہے اللہ تعالیٰ ہمارے گنا ہ بخش سکتا ہے لیکن اعصابی نظام کبھی نہیں معا ف کرتا۔ جب چین کے ظالم جنگی رہنما اپنے قیدیوں کو اذیت دینا چاہتے تھے تو وہ ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر انہیں  ٹب میں پانی ڈال کر بٹھا دیتے تھے نلکے سے مسلسل قطرہ قطرہ پانی ٹپکتا رہتا تھا ٹپ ٹپ ٹپ قطرہ دن رات ٹپکتا رہتا تھا پانی کے یہ قطرات سر پر متواتر ٹپکنے سے ایسا معلوم ہونے لگتا تھا جیسے ہتھوڑے کی ضربیں سر پر پڑ رہی ہوں ۔اس طریق کا ر سے لوگوں کے ہوش و حواس زائل ہوجاتے تھے اذیت کا یہ ہی طریقہ ہسپانو ی اور ہٹلر کے جرمن کمیپوں میں بھی اختیار کیا گیا تھا۔

پریشانیاں ، ناانصافیاں ، الجھنیں ، قطرہ قطرہ پانی ٹپکنے کے مانند ہوتی ہیں۔ پر یشانیوں اور نا انصافیوں کی مسلسل ٹپ ٹپ انسان کو جنون ، جرم اور خو د کشی کی طرف دھکیل دے دیتی ہیں۔ شو پنہار کہتاہے انسان کی بدترین خاصیت دوسروں کی تکالیف سے مزا لینا ہے۔ میرے ملک کے کرپٹ سیاست دانوں ، جاگیرداروں ، وڈیروں ، سرداروں ، چودھریوں، سر مایہ داروں، بیو روکریٹس، جشن مناؤ قہقہے لگاؤکہ تم کا میاب ہوگئے ہو، ملک کے عوام جن سے تمہیں خطرہ تھا اب کسی کام کے نہیں رہے وہ اب فالج زدہ ہوچکے ہیں جو صرف دیکھ سکتے ہیں لیکن نہ تو بول سکتے ہیں اور نہ ہی کچھ کرسکتے ہیں وہ اپنی لاش اپنے کندھے پر اٹھائے پھررہے ہیں۔

جب تم اچھی طرح جشن مناچکو تو پھر کچھ دیر کے لیے اکیلے میں بیٹھ کر سو چنا کہ تم نے یہ کیا کچھ کردیا ہے کیا تمہیں کبھی بھی اپنے کرتو توں کا حساب کہیں بھی نہیں دینا ہے ۔کیا تمہاری پکڑ کبھی نہیں ہوگی ۔ ایک درویش بازار میں بیٹھا تھا بادشاہ کا گذر وہاں سے ہوا بادشاہ نے اس سے پوچھا کہ بھائی کیا کررہے تو درویش نے جواب دیا کہ بندوں کی اللہ سے صلح کروا رہا ہوں، اللہ تو مان رہا ہے مگر بندے نہیں مان رہے۔ کچھ دنوں بعد درویش قبرستان میں بیٹھا تھا کہ اتفاق سے با دشاہ وہاں آپہنچا بادشاہ نے پھر درویش سے پوچھا کیا کررہے ہو درویش نے کہا کہ اللہ کی بندوں سے صلح کروا رہا ہوں لیکن آج بندے تو مان رہے ہیں لیکن مگر اللہ نہیں مان رہا۔ اکثر ساری عمر بیت جاتی ہے لیکن ہمیں زندگی کے اصل فلسفے اور مقصد کے متعلق علم ہی نہیں ہوپاتا اورجب علم ہوتاہے تو زندگی کا آخری منظر سامنے ہوتا ہے۔

یہاں ایک سوال پیدا ہوتاہے کیا ہم ساری عمر زندگی کے اصل فلسفے اور مقصد کو سمجھنا ہی نہیں چاہتے یا پھر زندگی ہمیں سمجھا نے سے قاصر رہتی ہے یا پھر ہم سمجھ کر بھی سمجھ نہیں پاتے ۔ دونوں ہی صورتوں میں نقصان آدمی کوہی ہوتا ہے آندرے مالوردا اسے ان الفاظ میں کہتا ہے ’’ ہر و ہ چیز جو ہماری ذاتی خواہشوں اور آرزؤں سے ہم آہنگ ہو ہمیں درست نظر آتی ہے اور جو چیز اس کے برعکس ہو وہ ہمارے غصے کی آتش کو بھڑکانے کا سبب بنتی ہے۔‘‘

دنیا کے قبرستان ان لوگوں سے بھر ے پڑے ہیں جو اپنے آپ کو زمینی خدا اور فرعو ن سمجھے بیٹھے تھے جو یہ سمجھتے تھے کہ وہ تمام احتساب سے مبراہیں آج ان کی اجڑی اور تاریک قبریں وحشت کا نشان بنی ہوئی ہیں ۔ جہاں نہ کوئی آتا ہے اور نہ جاتا ہے یاد رکھو تمہیں بھی ایک روز وہیں جانا ہے تمہارا نصیب بھی وہی اجڑ ی اور تاریک قبرہوگی ۔ جہاں نہ کوئی آئے گا اور نہ جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔