(کھیل کود) - بہترین کرکٹ بہترین کھلاڑیوں کے بغیر ناممکن

فرمان نواز  ہفتہ 26 جولائی 2014
پاکستان کو دور رکھ کر بھارت نہ صرف اپنے پڑوسی کا اعتبارکھوئے گا بلکہ کروڑوں بھارتی شائقین کی حمایت بھی کھو دیگا جو پاکستانی ٹیم اور کھلاڑیوں سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں۔ فوٹو: رائٹرز

پاکستان کو دور رکھ کر بھارت نہ صرف اپنے پڑوسی کا اعتبارکھوئے گا بلکہ کروڑوں بھارتی شائقین کی حمایت بھی کھو دیگا جو پاکستانی ٹیم اور کھلاڑیوں سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں۔ فوٹو: رائٹرز

پاکستان اور بھارت کے درمیان ایسے بہت سے حال طلب مسائل ہیں جو سیاست کی نظر ہو گئے ہیں۔ پاکستانی کھلاڑیوں کی انڈین پریمئر لیگ (IPL) میں شمولیت کا مسئلہ ہو یا پاکستانی ٹیم کی ٹی20ورلڈ چیمپئنز کرکٹ لیگ میں شرکت، سب اِسی سیاست کی نظر ہو گئے ہیں۔

نجم سیٹھی نے بجا کہا ہے کہ پاکستانی کھلاڑیوں کی شرکت کا مسئلہ بھارتی حکومت کے کلئیرینس سے جڑا ہوا ہے۔نجم سیٹھی نے یہ موقف راجیو شوکلا اور سری نیواسن، جو کہ IPLاور BCCIکے سینئر آفیسرز ہیں، سے لاہور میں ملاقات کے بعد اپنایا تھا۔

حال ہی میں ٹی20ورلڈ چیمپئنز کرکٹ لیگ 2014 کے منتظمین نے پاکستان کی ٹی20چیمپئن لاہور لائنز کی ایونٹ میں شرکت کے لئے پاکستان کرکٹ بورڈ کو ہری جھنڈی دکھا دی ہے۔ ممبئی حملوں کے بعد سے بھارتی کرکٹ کے ناخداوؤں نے پاکستانی کھلاڑیوں کیلئے IPLاور چیمئین لیگ کے دروازے بند کر دئیے تھے۔ایسا لگتا ہے کہ یہ حملے دہشتگردوں  نے نہیں بلکہ پاکستانی کھلاڑیوں نے کئے ہوں۔ کھیل اور کھلاڑیوں کو مجرموں کے ساتھ کھڑا کرنے سے پہلے بھارتی حکمرانوں کو لاکھ بار سوچنا چاہئے تھا۔ اگر اُن کو کچھ پاکستانی کھلاڑیوں کے پروفیشنل کردار پر شک تھا تو اس کا خمیازہ اچھے کھلاڑی کیوں بھگتیں؟

شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ پاکستانی کھلاڑیوں کو کھیل سے باہر رکھ کر بھارت نے اپنا امیج خراب کیا ہے حالانکہ پاکستان نے ہمیشہ انڈین کرکٹ کو سپورٹ کیا ہے۔سعید اجمل کا کہنا  ہے کہ جب پاکستانی کوچ ، کمنٹیٹر اور امپائیر انڈیا جا سکتے ہیں تو پاکستانی کھلاڑیوں کو کیوں موقع نہیں دیا جارہا۔ اگر IPLایک بہترین T20ٹورنمنٹ چاہتی ہے تو اس کو بہترین کھلاڑی ٹورنمنٹ سے باہر نہیں رکھنے چاہئے۔ وسیم اکرم نے کہا کہ سیاست اور کھیل کو مکس کرنا کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔ اگر IPLعوام کو گراونڈ میں کھینچ لانا چاہتی ہے اور زیادہ فین چاہتی ہے تو اس کو پاکستانی کھلاڑی شامل کرنے ہی ہونگے کیونکہ لوگ T20لطف اندوز ہونے کے لیے دیکھتی ہے اور اِس طرز میں پاکستانی کھلاڑیوں سے زیادہ مہارت کوئی نہیں رکھتا۔شاہ رُخ خان نے بھی کہا تھا کہ پاکستانی کھلاڑیوں کو باہر رکھنا اُن کیلئے خود بھی ایک تکلیف دہ لمحہ تھا کیو نکہ ہم اچھی شہرت رکھتے ہیں اور سب کو بُلاتے ہیں۔

چیمپین لیگ کیلئے بھارتی دعوت نامہ ایک مثبت عمل ہے۔ اس کی تائید کرنی چاہئے لیکن اس سے یہ تاثر بھی اُبھر رہا ہے کہ کرکٹ پر بھارتی اجارہ داری قائم ہو چکی ہے۔ وہ جب چاہتے ہیں ہمیں شامل کر دیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں ہمیں دھتکار دیتے ہیں۔وہ بھارت جو پاکستان سے اچھے تعلقات کی مالا جپتا رہتا ہے ، وہ پاکستانی نوجوانوں کو کیا تاثر دینا چاہتا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ پاکستانی نوجوان اور کھلاڑی اس معاملے میں سخت گیر واقع نہیں ہوئے ورنہ بھارت کا یہ رویہ اُلٹا پاکستانی نوجوانوں کو انڈیا مخالف سوچ اپنانے پر مجبور کر سکتا ہے۔

بھارت کے وہ حلقے جو پاک بھارت تعلقات کے خواہاں ہیں اُن کو بھارتی حکمرانوں پر دباؤ ڈالنا چاہئے کہ کرکٹ کے متعلق بھارتی رویہ مستقبل کیلئے انتہائی خطرناک ہے۔ پاکستانی کھلاڑیوں میں اگر کچھ نے صرف احتجاجاً یہ  اعلان کر دیا  ہے کہ وہ بھارت کا دورہ نہیں کریں گے تو اُن کا یہ عمل پاکستانی نوجوانوں میں مقبول ہو سکتا ہے۔ سوشل میڈیا کے دور میں ایسی باتیں آگ لگا سکتی ہیں۔ایک کھلاڑی کا احتجاج پاکستانی نوجوانوں اور باقی کھلاڑیوں کیلئے آئیڈیل بن سکتا ہے۔صرف وقتی احتجاج بھی ایک چرچا شروع کر سکتا ہے جو کہ ایشیا میں کرکٹ کیلئے اچھا نہیں۔

سیاست، کھیل اور فنونِ لطیفہ کو الگ رکھ کر ہی ہم آگے جا سکتے ہیں اور ڈراؤنے خواب کو خوبصورت حقیقت میں بدلا جا سکتا ہے۔اگر کھیل کو بھی مذہبی یا سیاسی بنیادوں پر تقسیم کیا جانے لگا تو بھارتی فلم انڈسٹری کی یہ کوشش ،کہ انڈیا ایک سیکولر اور ہمہ گیر معاشرہ رکھتا ہے یا بن پائے ، رائیگاں چلی جائیں گی۔بھارتی مسلمان جو کہ ایک سیکولر معاشرے کی تشکیل کی یقین دہانی پر جیتے آئے ہیں ،  مایوسی کا شکار ہو جائیں گے۔ بھارت نہ صرف اپنے پڑوسی کا اعتبارکھوئے گا بلکہ کروڑوں بھارتی شائقین کی حمایت بھی کھو دیگا جو پاکستانی ٹیم اور کھلاڑیوں سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں کیونکہ ایک بات تو اٹل ہے کہ بہترین کرکٹ بہترین کھلاڑیوں کے بغیر ناممکن ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔