جناب مجید نظامی کو سلام وداع

اسلم خان  پير 28 جولائی 2014
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

پاکستان کا عاشق زار چلا گیا، ایک عہد تمام ہوا، صحافت کا بانکپن رخصت ہوا مکرم و محترم جناب مجید نظامی اُفق کے اس پار چلے گئے، وہ اس کالم نگار کے محسن تھے۔ نظامی صاحب تو چلے گئے ان کی یادوں کا لامتناہی سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آتا۔80ء کی دہائی کے آخری سالوں میں صحافت کے مرکزی دھارے میں شمولیت کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو انھوں نے فرمایا گنجائش نہیں ہے۔ عرض کی ‘کہتے ہیں کہ اچھے کارکنوں کی اخبار کو ہر وقت ضرورت ہوتی ہے یہ سن کر وہ مسکرائے اور اس وقت کے چیف نیوز ایڈیٹر وحید قیصر سے ٹیسٹ لینے کو کہا۔ ہمارے سینئر ایڈیٹر برادرم ایاز خان اُس وقت نوائے وقت میں سینئر پوزیشن پر پہنچ چکے تھے ان کی مدد سے ٹیسٹ کا کٹھن مرحلہ عبور کر کے سسٹم کا حصہ بن گیا۔

جناب مجید نظامی سے پہلا ٹاکرا چند ماہ بعد اس وقت ہوا جب خاکسار افغانستان کے ذاتی دورے سے واپس لوٹا اور  افغان وزیر اعظم انجینئر گلبدین حکمت یار سے ملاقات کی روداد سنائی تومیرے پیارے شاہ جی، عباس اطہر مرحوم نے یہ تمام روداد لکھنے کا حکم دیا کہ ایک معاصر روزنامے نے حکمت یار کا باضابطہ انٹرویو کیا تھا۔ جناب مجید نظامی نے یہ رپورتاژ لیڈ اسٹوری کے طور پر شایع کرنے کا حکم دیا جس پر رپورٹنگ کی اجارہ داری میں یہ ’مداخلت بے جا‘ کچھ بزرگوں کو ناگوار گزری اور جناب مجید نظامی کو بتایا گیا کہ عباس اطہر جماعت اسلامی کے حامیوں کا نوائے وقت پر قبضہ کرانا چاہتے ہیں۔ اگلے روز میری طلبی ہوگئی۔

جناب مجید نظامی نے سوال کیا، معاف کرنا تہاڈا جماعت اسلامی نال کی تعلق اے‘ یہ کالم نگار اس سوال کے لیے تیار نہیں تھا۔ نوائے وقت میں تعیناتی سے چند ماہ پہلے جناب مسعود اشعر، پرویز حمید، ہارون رشید، مقبول الرحیم مفتی اور عبدالکریم عابد کے ہمراہ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کا طویل انٹرویو کرنے والے سینئر بزرگوں کے ساتھ یہ مبتدی بھی شامل تھا جن کا تعارف انٹرویو کے آغاز پر دیا گیا تھا۔

نوائے وقت کے ادارتی صفحے پر یہ انٹرویو جوں کا توں تعارف سمیت شایع کیا گیا جس میں اس خاکسار کا نام بھی شامل تھا میں نے بصد احترام عرض کیا ’میرے جماعت اسلامی سے تعلق کے بارے میں نوائے وقت کے ادارتی صفحے پر تفصیل شایع ہو چکی ہے‘ زیر تربیت جونیئر سب ایڈیٹر کی اس جرات رندانہ پر قبلہ نظامی صاحب ششدر رہ گئے فرمایا ’معاف کرنا تہاڈا دماغ ٹھیک اے‘ تفصیلات کا علم ہونے پر چائے بسکٹوں سے تواضع کی جو غیر معمولی پذیرائی تھی جس کے بعد توجہ اور محنت سے کام کرنے کی ہدایت کر کے بڑے پیار و محبت سے رخصت کیا۔

اس واقعہ نے نوائے وقت کے گھٹے گھٹے ماحول پر چڑھے سارے خول توڑ دیے اور نوجوانوں کے دور کا آغاز ہوا پھر تین سال تک نوائے وقت کا نیوز روم ہماری چرا گاہ بنا رہا رپوٹنگ کی روایتی اجارہ داری کے بجائے نیوز روم اور نیوز ایڈیٹر کی بالادستی کا آغاز ہوا یہ خاکسار کی زندگی کا سنہرا دور تھا۔ جناب نواز شریف مرحوم غلام اسحق خاں کے ساتھ الجھے ہوئے تھے۔ اس وقت کے سپہ سالار جنرل وحید کاکڑ صدر اور وزیراعظم میں بیچ بچائو کی کوششیں کر رہے تھے کہ معاملہ صدر اور وزیر اعظم کے مستعفی ہونے تک پہنچ گیا۔

نواز شریف نے جناب نظامی سے رہنمائی کی درخواست کی توانھوں نے کہا کہ جنرل کاکڑ کو آپ سے استعفیٰ طلب کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ آپ انھیں برطرف کر دیں بعد ازاں معاہدے کے تحت مرحوم غلام اسحق خاں اور نواز شریف مستعفی ہو گئے، سیاسی بحران ختم ہو گیا۔ سپہ سالار سے مدیران کی ان ہی دنوں ہونے والی ملاقات کے آغاز پر جنرل کاکڑ نے اچانک استفسار کیا کہ آپ میں سے کس دلیر ایڈیٹر نے نواز شریف کو مجھے برطرف کرنے کا مشورہ دیا تھا۔

جناب نظامی صاحب بتایا کرتے تھے میں فوراً کھڑا ہو گیا ’جنرل صاحب میں نواز شریف نوں ایہہ مشورہ دتا سی‘ شاید جنرل وحید کاکڑ کو ایسی جرات انداز کی توقع نہیں‘ اس لیے پہلو بچا کر نکل گئے۔  آصف زرداری کے کہنے پر اس کالم نگار کو مقدمات میں اُلجھایا گیا۔برادرم فاروق فیصل خان سمیت ہمیں چھ ماہ زیر زمین رہنا پڑا ۔مرحوم اظہر سہیل ہمارے تعاقب میں تھے۔ جناب مجید نظامی امید اور روشنی بن کر نمودار ہوئے۔

برادرم جواد نظیر اور قبلہ شاہ صاحب نے انھیں حالات واقعات سے آگاہ کیا تو جناب نظامی صاحب نے ہماری مدد کرنے میں ذرا بھر توقف نہیں کیا، ضمانتوں کی توثیق کے بعد حاضر ہوا تو فرمایا ’معاف کرنا ہن تسیں بچے نیں ذرا دھیان کریا کرو‘ واضح رہے کہ نوائے وقت سے دو درجن اجتماعی استعفوں کی وجہ سے بزرگوارم اس خاکسار پر شدید ناراض تھے لیکن مشکل میں شجر سایہ دار بن کر ہمیں کڑی دھوپ سے بچا لیا۔جناب نواز شریف انھیں صدر تارڑ کی جگہ صدر پاکستان بنانا چاہتے تھے لیکن انھوں نے معذرت کر لی ورنہ صاحبان ِ حرف و قلم نے اقتدار کے ایوانوں میں رسائی کے لیے کیا کیا جتن نہیں کیے۔

بہت دنوں بعد انھوں نے اس کالم نگار کو بتایا کہ کس طرح انھوں نے منصب صدارت ٹھکرا کر ایسے فتنے کا دروازہ بند کیا جس نے جنوبی ایشیا میں وسیع تر کنفیڈریشن کا خواب دیکھنے والوں کی سازشوں کے تانے بانے اُدھیڑ کر رکھ دیے تھے کہ نظامی صاحب کے منصب صدارت قبول کرنے کی صورت میں ایک میڈیا گروپ کے مالک کی راہ ہموار ہو جاتی جو بھارت کے ساتھ امن کی آشائوں کی تکمیل کے لیے سازشوں کے جال بن رہے تھے۔ یہ نظامی صاحب کی نگاہ دور بین تھی جس نے دو دہائیوں کے فاصلے اور سات پردوں میں ملفوف سازش کو بھانپ لیا تھا۔

ہشت پہلو زاویوں کا مرکب سازشی ٹولہ برادرم سردار خان نیازی کی ناک رگڑنے کے لیے سازشوں کا جال پھیلائے ہوئے تھا ان کے حریفان چابک دست و تر زبان نے سارے رستے مسدود کر دیے تھے۔ خاکسار انھیں لے کر جناب مجید نظامی کی خدمت میں حاضر ہوا انھوں نے چند لمحوں میں معاملہ نمٹا دیا اس خاکسار کو ہر پنگے میں اُلجھنے سے بچنے کی مربیعانہ سرزنش کی۔ اسی طرح بریگیڈئیر صدیق سالک کا صاحبزادہ سرمد اپنی زود رنجی کی وجہ سے گھر سے اُٹھا لیا گیا۔

جنرل پرویز مشرف کی ایمرجنسی پلس جنرل عزیز خان کے نام پر شہرت پانے والے میجر جنرل عزیز آئی ایس آئی میں اہم منصب پر موجود تھے وہ ’بھتیجے‘ کو اپنے ماتحتوں کے چنگل سے چھڑانے میں ناکام ہوگئے تو اس کالم نگار نے جناب مجید نظامی کی بارگاہ میں حاضری دی انھوں نے میری موجودگی میں کسی اہم شخصیت کو فون پر کہا کہ بریگیڈئیر صدیق سالک ورگا پُتر ماں نے نیں جمنا تسیں ایدھا پُتر چک لیا اے‘ اور شام تک سرمد واپس اپنے گھر پہنچ گیا۔

مالی معاملات میں ان کی جزرسی اپنی مثال آپ تھی، نوائے وقت کے ملازمین جس کے شاکی رہے خود جناب نظامی نے سادہ زندگی گزاری البتہ ہمیشہ سوٹڈبوٹڈ اور ٹائی لگا کر دفتر آتے، دربار جماتے جہاں صرف ان کے معدود ے چند مصاحبین کو رسائی حاصل تھی جن میں یہ کالم نگار بھی شامل تھا جس پر خاکسار کو تادم آخر فخر رہے گا۔ شاہ جی کے جنازے پر مجھے تلاش کر کے ملے اور اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہنے لگے ’اسلم فکر نہ کریں‘ شاہ جی چلے گئے میں موجود آں‘ میں عباس (اطہر) دی تعزیت تیرے نال کرنا چاہندا ساں ان کا انداز دل ربائی میرے لیے بہت بڑا اعزاز تھا۔

خاندانی تنازعات نے انھیں شدید صدمے سے دوچار کیا تھا جسے انھوں نے بڑے وقار کے ساتھ برداشت کر لیا اس حوالے سے ان سے ہونے والی گفتگو امانت ہے لیکن وہ نوائے وقت کا نام چھیننے کے حوالے سے ہونے والی سازش سے پوری طرح آگاہ تھے۔ وہ اپنے ہم مرتبہ مدیران کرام کے رویوں سے بہت نالاں تھے جس کی تلخی ان کے لہجے سے جھلکتی تھی ۔چند ماہ پہلے ہونے والی آخری ملاقات میں اسلام آباد کے حالات کرید کرید کر پوچھتے رہے۔ خاکسار نے بتایا کہ بھارت کو پسندیدہ قوم اور کابل تک راہداری کی سہولت دینے پر فوج اور سیاسی حکومت میں پیدا ہونے والی خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی جا رہی ہے جناب نوا ز شریف ایسے لوگوں کے گھیرے میں پھنس چکے ہیں جو امن کی آشیا کی آڑ میں پاکستان کا نظریاتی تشخص تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

خدا گواہ ہے کہ نظامی صاحب بالکل خاموش رہے، سر ہلاتے رہے ایک لفظ نہ بولے مجھے نجانے کیسے خیال آیا کہ یہ شاید الوادعی ملاقات ہے عرض کی حضور اجازت دیں اور میرا سلام الوداع قبول کریں اس پر مسکراتے ہوئے کہا، ’دعا لئی تے آئیں گا  نا‘ ہمیں یک و تنہا اور لاوارث کر کے اُفق کے اس پار چلے گئے آج دوراہے پر کھڑا پاکستان نظریاتی تشخص کے بحران کا شکار ہے۔ اب کون ہے جو نظریاتی میدان میں ان کا جانشین ہو گا انتظار، فقط انتظار۔۔۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔