(پاکستان ایک نظر میں) - تذکرہ چاند رات کا

وقار احمد شیخ  پير 28 جولائی 2014
انتیسویں روزے کی افطار کے ساتھ ہی ترستی انکھیاں بادلوں کی اوٹ میں چھپے چاند کی تلاش میں آوارہ گردی شروع کردیتی ہیں۔ فوٹو فائل

انتیسویں روزے کی افطار کے ساتھ ہی ترستی انکھیاں بادلوں کی اوٹ میں چھپے چاند کی تلاش میں آوارہ گردی شروع کردیتی ہیں۔ فوٹو فائل

عید کی آمد ہو اور چاند رات کا تذکرہ نہ آئے، کیسے ہوسکتا ہے؟ پاکستان میں تو خواتین و حضرات، بچے کیا بوڑھے خاص کر منچلے نوجوان عید سے زیادہ چاند رات کے منتظر ہوتے ہیں۔ چاندنی راتوں میں چودھویں کے چاند کے تذکرے کو خاص مقام حاصل ہے، جس پر شعرا حضرات نے کافی ’’چاندماری‘‘ کی ہے لیکن ’چاند رات‘ کی تو ڈھب ہی نرالی ہے۔

انتیسویں روزے کی افطار کے ساتھ ہی ترستی انکھیاں بادلوں کی اوٹ میں چھپے چاند کی تلاش میں آوارہ گردی شروع کردیتی ہیں، اور موقع محل مناسب سمجھتے ہوئے منچلے نوجوان آسمان کے چاند کے ساتھ چھت اور بالکونی میں چاند کی تلاش میں سرگرداں ’’چاند چہروں‘‘ کا دیدار بھی کرلیتے ہیں۔ کچھ ظالم سماج کے ستائے جوڑے جو عرصے سے ایک دوسرے کے دیدار سے محروم ہوتے ہیں خاص کر اس رات کے بہانے چوبارے چڑھتے ہیں تاکہ محبوب کی جھلک دیکھ کر اپنی عید کا ساماں کرسکیں۔

تبھی تو ایسے شعر وجود میں آتے ہیں کہ؛

’’اِدھر سے چاند تم دیکھو، اُدھر سے چاند ہم دیکھیں ۔۔۔ نگاہیں یوں ٹکرائیں کہ ہماری عید ہوجائے‘‘۔

نامعلوم عید اور چاند رات سے متعلق شعروں میں خیال اور وزن کا تناسب کیوں نہیں پرکھاگیا، عید اور چاند رات سے متعلق شاعری ایک عرصے سے یونہی بے وزن گردش کررہی ہے اور نئے لکھنے والے اسی روایت کو آگے بڑھائے جارہے ہیں۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہے، تذکرہ تھا چاند رات کا جو چاند چہروں کے دیدار سے ہوتا بے وزن شاعری تک پہنچ گیا۔ باتوں باتوں میں یہ بات تو رہ ہی گئی کہ چاند رات کی محبت میں ایک عرصے سے ملک میں دو دو کیا بعض اوقات تین چاند راتیں بھی رکھ لی جاتی ہیں۔اب سال میں ایک بار تو آتی ہے چاند رات، اتنی محبوب اور دل پسند رات کو ایک ہی رات میں ختم کردینا کہاں کا انصاف ہوا۔بس چاند نظر آنے یا نہ آنے کا بہانہ کرکے چاند رات کو آگے کھسکا دیا جاتا ہے اور بلاوجہ اخباروں کی سرخیاں شور مچاتی ہیں کہ ملک میں ’’دو، دو عیدیں منائی گئیں‘‘۔

بھلا کوئی انصاف ہوا، محبت تو چاند رات کی تھی بلاوجہ ’’عید‘‘ قصوروار ٹھہری۔ ستم ظریفوں نے اس موقع کے لیے بھی کیا کیا نہ لطائف گھڑے ہیں،۔چاند کے نظر آتے ہی یا نہ آنے پر بھی ملک بھر میں ایس ایم ایس کی آوارہ گردی شروع ہوجاتی ہے، کوئی چاند کے نظر نہ آنے کو مولوی صاحبان کی بیگمات کے کپڑے نہ سلنے پر دوشی ٹھہراتا ہے تو کہیں سے دوسرا چٹکلہ چھوڑا جاتا ہے۔ گزشتہ کچھ سال کے اخبارات اٹھا کر دیکھیں تو ان دنوں کے ادارتی صفحات چاند کے مسئلے پر کالموں سے مزین نظر آئیں گے۔ ہم ٹھہرے ناقص العلم، اس لیے اس ’’سنگین‘‘ مسئلے سے نگاہیں چرا کر چاند رات کے تذکرے پر واپس آجاتے ہیں۔

فوٹو فائل

ہماری خواتین بھی خوب ہیں، پورا سال چاہے ڈھیروں شاپنگ کرتی آئی ہوں لیکن پھر بھی چھوٹی موٹی چیزیں دانستہ بھول جاتی ہیں تاکہ چاند نظر آتے ہی بازار جانے کا بہانہ میسر آسکے۔ کچھ حضرات تو سمجھتے ہیں کہ چاند رات آتی ہی شاپنگ کرنے کے لیے ہے، یہاں چاند نظر آیا اور بازاروں کا رش اپنے عروج پر پہنچ گیا۔ دکاندار حضرات بھی اسی موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ بازاروں میں جہاں تل دھرنے کی جگہ نہ ہو اور کپڑے، جیولری، جوتے کی دکانیں ’’مچھلی بازار‘‘ کا سماں پیش کررہی ہوں وہاں دکاندار اپنے عیب زدہ سامان گاہک کو تھما دیتے ہیں، اتنے رش میں خریدار کو اتنی تمیز ہی کہاں ہوتی ہے کہ وہ نقص پکڑ سکے، ہاں اگلے روز اپنا سر ضرور پکڑ لیتا ہے کہ مارکیٹ عید کے تین دن کیا ایک ہفتے کے لیے بند ہوجاتی ہے۔ دکاندار حضرات بھی پورے سال کی کمائی اس ایک ماہ میں کرکے’’تیرتھ یاترا‘‘ پر نکل پڑتے ہیں، اس قدر مشقت کے بعد آرام بھی تو حق بنتا ہے۔

حقیقی معنوں میں چاند رات کا لطف ہمارے فارغ منچلے نوجوان اٹھاتے ہیں جو خاص اس رات کے لیے اپنی صحیح سلامت بائیک کے سائیلنسر نکال کر سڑکوں پر زناٹے بھرتے بازاروں کا رخ کرتے ہیں، جہاں اپنی آنکھوں کی ’’پیاس‘‘ بجھانے کے بعد ساحل سمندر کا قصد کرتے ہیں۔ لیکن برا ہو دشمنانِ نوجواں کا، جنھوں نے کچھ سال سے سی ویو جانے والے راستوں پر ’پہرے‘ بٹھا رکھے ہیں اور اب چاند رات کو نوجوان ہی کیا دیگر شریف فیملیز بھی ساحل سمندر تک پہنچنے میں ناکام رہتی ہیں۔ اب یہ تفریح کو ترسے نوجوان اگر شہر کے دیگر علاقوں کا رخ نہ کریں تو اور کیا کریں؟ اور پھر اعتراض ہوتا ہے کہ ان نوجوانوں کو بزرگ شہریوں اور مریضوں کا خیال بھی نہیں کہ اپنی ’’پرشور‘‘ بائیک سے ان کی نیندیں خراب کرتے پھر رہے ہیں اور دیگر اخلاقیات کا جنازہ بھی نکالا جارہا ہے۔

ہم ناصح تو نہیں کہ ان نوجوانوں کو نصیحت کرتے پھریں لیکن سی ویو کے ’’پہرے داروں‘‘ سے ضرور کہیں گے کہ ان نوجوانوں کو ان کی تفریح سے محروم نہ کریں۔ ہوسکتا ہے یہ نوجوان ’’حسن سلوک‘‘ سے متاثر ہوکر انتقاماً اگلے سال اپنی بائیک سے سائیلنسر نکالنے کی روش کو ترک کردیں اور شہر کے دیگر حصوں کو اپنی شرپسندی کا نشانہ بنانے کے بجائے صرف سی ویو پر ہلڑ بازی کرکے خوش ہوجائیں۔

آخر اس شہر ناپرساں میں جہاں بدامنی اور دہشت گردی کا عفریت اپنے پنجے گاڑے موجود ہے، لوگ یاسیت کا شکار ہیں، چند گنی چنی خوشیاں جن لوگوں کو زندگی کا احساس دلاتی ہیں انھیں ان خوشیوں سے محروم کرنا چنداں مناسب نہیں۔ ہم صرف یہی کہیں گے خوش رہنا ہر انسان کا حق ہے لیکن اپنی خوشیوں کو دوسروں کے لیے آزار بنا دینا بھی مناسب نہیں۔ ایکسپریس کے تمام پڑھنے والوں کو ہماری طرف سے عید کی مبارک باد قبول ہو۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

وقار احمد شیخ

وقار احمد شیخ

بلاگر جامعہ کراچی سے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز اور گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ کالم نگاری کے علاوہ کہانیوں کی صنف میں بھی طبع آزمائی کرتے رہے ہیں۔ اپنے قلمی نام ’’شایان تمثیل‘‘ سے الگ پہچان رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔