علمائے امت اور غزہ کے مسلمان

اوریا مقبول جان  جمعرات 31 جولائی 2014
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

کسی بھی تجزیہ نگار‘ دانشور‘ سیاست دان یہاں تک کہ اس امت کے علماء تک کی گفتگو‘ تحریر یا تقریر ملاحظہ کریں جو ان دنوں فلسطین کے مسلمانوں پر اسرائیلی ظلم و تشدد اور بربریت کے جواب میں کی یا لکھی گئی ہو تو اس میں آپ کو ایک نکتہ مشترک ملے گا۔ ’’ہم عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہے ہیں‘‘۔ چوراہوں‘ سڑکوں‘ پریس کلبوں اور عالمی دفاتر کے سامنے پلے کارڈ اٹھائے‘ نعرے لگاتے اور موم بتیاں جلاتے لوگ نظر آئیں گے۔ یہ سب اس بات پر کسقدر مطمئن ہیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ ہم نے اپنا حصہ ڈال دیا۔

اب ہم دن بھر شاپنگ کریں‘ عیش و عشرت میں گم رہیں اور پھر رات کو مزے کی نیند سو جائیں‘ ہم مطمئن ہیں۔ یہ عالمی ضمیر ہے کیا چیز۔ کیا گزشتہ پندرہ سالوں میں ہر بڑے چھوٹے‘ بوڑھے جوان نے اس کا چہرہ نہیں دیکھا؟ گیارہ ستمبر کے بعد اسی عالمی ضمیر نے نیویارک میں اکٹھے ہو کر چالیس سے زیادہ ممالک کو یہ اختیار دیا تھا کہ ایک ایسے ملک پر ٹوٹ پڑیں جو وسائل کے اعتبار سے دنیا بھر میں سب سے کمزور ہے۔ اس کے پاس نہ رسد و رسائل کے ذرایع تھے اور نہ ٹیکنالوجی۔ لیکن اس کے باوجود بھی پہاڑوں‘ جنگلوں اور بیابانوںمیں آباد ان چرواہوں اور کسانوں کو انسانیت کا سب سے خطرناک دشمن قرار دیا گیا۔

دنیا کے یہ اڑتالیس غنڈے اس ملک پر چڑھ دوڑے۔ اس عالمی ضمیر کا نمایندہ پاکستانی وفد جب ملا محمد عمر کے پاس گیا تو اس نے اور بہت سی باتوں کے علاوہ ایک بات ایسی کی جو اب سچ ثابت ہوتی جا رہی ہے۔ اس نے کہا تھا ’’دیکھو یہ باری کی بات ہے‘ ہماری باری پہلے آ گئی ہے‘ کل تمہاری بھی آ جائے گی۔ ہمیں خاک ہونے کا ڈر نہیں کہ ہم مٹی کے گھر میں رہتے ہیں‘ مٹی پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں اور اس بات پر ہمارا ایمان ہے کہ ہم نے مٹی میں چلے جانا ہے۔ ان لوگوں کا کیا ہو گا جنہوں نے آسمان سے چھوتی عمارتیں تعمیر کر لی ہیں۔ آسائش کی زندگی اور تعیش کا سامان جمع کر لیا ہے۔ اللہ کا واسطہ باریاں مت لگاؤ‘‘۔ لیکن ہم سب نے اسی عالمی ضمیر کا ساتھ دیا۔

وہ سب جو آج غزہ کے ظلم پر چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ کوئی پڑوسی ان کا ساتھ نہیں دے رہا۔ انھوں نے اس عالمی ضمیر کا ساتھ دینے کے لیے اپنی سرزمین استعمال کرنے دی۔ میرے ملک سے امریکی طیارے ستاون ہزار دفعہ اڑے اور انھوں نے اسی طرح افغان مسلمانوں کے جسموں کے پرخچے اڑائے جس طرح آج غزہ میں اسرائیل کر رہا ہے۔ ایران نے نہ صرف بدترین خاموشی دکھائی بلکہ اس کے پاسداران کے سربراہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر امریکی حملے کے دوران ہمارے جوان شمالی اتحاد کے ساتھ شانہ بشانہ نہ لڑ رہے ہوتے تو یہ فتح ممکن نہ تھی۔

تاجکستان نے کابل کی طرف پیش قدمی کا راستہ دیا۔ عالمی ضمیر مطمئن ہوگیا۔ دنیا کے امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ افغانستان فتح کر لیا گیا۔ کیا اس کے بعد کسی اور کی باری نہیں آئی۔ شاید ہم بھول گئے۔ اس کے بعد عراق تھا۔ اس کے لیے تو کسی نے نیویارک میں موجود عالمی ضمیر کی علامت اقوام متحدہ سے اجازت لینے کی ضرورت تک محسوس نہ کی۔ امریکا اور اس کے اتحادی اپنی فوجی قوت اور میڈیا کے پراپیگنڈے کے زور پر عراق میں داخل ہوئے۔ کونسا پڑوسی تھا جس نے اس ظلم پر احتجاج کیا۔ سب نے اس عالمی ضمیر کے سامنے سر جھکائے بلکہ سجدہ ہائے تعظیمی کیے۔

شام‘ اردن‘ کویت‘ قطر‘ سعودی عرب اور ایران سب کے سب کئی سال عراق کے نہتے اور مظلوم انسانوں کے قتل عام کا تماشہ دیکھتے رہے۔ معاملہ یہاں تک رہتا تو بات سمجھ میں آتی تھی کہ ان کا ضمیر اس عالمی ضمیر نے خرید لیا ہے لیکن پھر ان دونوں ملکوں میں جب ان عالمی غنڈوں نے اپنی مرضی کے آئین تحریر کیے، اپنی نگرانی میں الیکشن کروائے اور اپنی کاسہ لیس حکومتیں قائم کیں تو ان تمام ممالک نے ان دونوں حکومتوں کو نہ صرف جائز تسلیم کیا بلکہ ان کے ہر ظلم پر بدترین خاموشی اختیار کی۔

یہ حکومتیں شہروں کے شہر اجاڑتی رہیں، لوگوں کو دہشت گرد، القاعدہ اور باغی کہہ کر قتل کرتی رہیں اور ان کے حکمرانوں کا تمام پڑوسی ملک اپنے ایوانوں میں استقبال کرتے رہے۔ وہ جن کے ہاتھ معصوم مسلمانوں کے خون سے رنگین تھے، وہ ریاض، تہران، اسلام آباد اور دمشق جیسے شہروں میں باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کرتے اور مشترکہ اعلامیہ جاری کرتے۔ اس سب کو میڈیا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی کامیابی قرار دیا۔ جان پلیجر Jon Plijer کی وہ مشہور ڈاکومنٹری ”war you have not seen” (جنگ جو آپ نے دیکھی نہیں) ایسے تمام چہروں کو بے نقاب کرتی ہے جو اس عالمی ضمیر اور عالمی پراپیگنڈے کے سامنے سربسجود تھے۔

مسلمانوں نے اپنے گزشتہ دس سالوں میں اس عالمی ضمیر کو ایک نکتہ سمجھا دیا کہ ہم بے حس ہیں، بے ضمیر ہیں اور تم جس کو بھی دہشت گرد اور انسانیت کے لیے خطرہ تصور کر کے ان کے گھر بار، خاندان اور آبادی سب کو تباہ کر دو، ہم خاموش رہیں گے۔ یہی وہ الفاظ ہیں جو آج اسرائیل اور اس کے حواری بول رہے ہیں۔ لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ ہم عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے ریلیاں نکالتے ہیں، پلے کارڈ اٹھاتے ہیں، یوم القدس مناتے ہیں، دنیا بھر کے ہر فرقے کے علماء اس عالمی ضمیر سے فیصلہ کروانے سڑکوں پر نکلتے تھے۔

کیا انھوں نے قرآن کی یہ آیت نہیں پڑھی تھی ’’اے پیغمبر! کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اس کلام پر بھی ایمان لائے جو تم پر نازل کیا گیا ہے اور اس پر بھی جو تم سے پہلے نازل کیا گیا، لیکن ان کی حالت یہ ہے کہ اپنا معاملہ فیصلے کے لیے طاغوت کے پاس لے جانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ اس کا کھل کر انکار کریں‘‘ (النسا 60)۔ تجزیہ نگار، دانشور، سیاست دان یہاں تک وہ علمائے کرام جنہوں نے اس آیت کو بار بار پڑھا ہوگا، اللہ کے اس حکم کو لوگوں کو سنایا ہو گا وہ بھی اپنا معاملہ اور اپنا فیصلہ طاغوت سے کروانا چاہتے ہیں اور کس قدر بھولے ہیں کہ یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ فیصلہ ان کے حق میں ہوگا۔

کیا یہ سب نہیں جانتے کہ یہ دور فتن ہے۔ کیا ان سب نے احادیث کی کتب میں فتن کے ابواب اور ان میں درج احادیث نہیں دیکھیں۔ لیکن کسقدر بدقسمتی ہے کہ اس امت کے حکمران اور ان کے مسلکی علماء عراق اور شام میں ایک دوسرے سے لڑنے کے لیے تلواریں نکالتے ہیں، جیش تیار کرتے ہیں، کوئی ایک حکومت کو بچانے کے لیے فتویٰ دیتا ہے تو دوسرا اس کو گرانے کے لیے۔ کسی کو اینٹوں اور سنگ مر مر کے مزارات کے تحفظ کے لیے جان دینی عزیز ہے تو دوسرے کو ان مزارات کو گرا کر اپنے جہاد کا جھنڈا بلند کرنا ہے۔ لیکن کیا ان ستاون اسلامی ممالک میں کسی ایک کے علماء میں یکسوئی نہیں کہ وہ اعلان کریں کہ نہتے فلسطینیوں کے ساتھ مل کر لڑنا فرض عین ہے۔

اس امت کی پچاس لاکھ سے زیادہ افواج ہیں، جو کیل کانٹے اور ایٹم بم سے لیس ہیں، کیا یہ ساری طاقت جو انھیں اللہ نے عطا کی ہے وہ قیامت کے دن ان سے حساب نہیں لے گا کہ تم نے اس امت کے مظلوم مسلمانوں کو ظلم سے نجات کے لیے صرف کی یا نہیں کی۔ جو جتنے بڑے منصب پر ہو گا اس کی اتنی ہی بڑی جواب دہی ہو گی۔ لیکن سب جانب خاموشی ہے، سکوت ہے، پلے کارڈ ہیں، بینرز ہیں، تبصرے ہیں، شاید یہی وہ زمانہ تھا جس کے بارے میں اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ ’’لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ جب ان میں پڑھے لکھے لوگ بھی یہ کہیں گے کہ یہ جہاد کا دور نہیں ہے۔ لہٰذا ایسا دور جن کو ملے وہ جہاد کا بہترین زمانہ ہو گا۔ صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیا کوئی مسلمان ایسا کہہ سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں! جن پر اللہ کی لعنت، فرشتوں کی لعنت اور تمام انسانوں کی لعنت ہو گی (السنن الواردۃ فی الفتن)

کیا ستاون اسلامی ممالک میں سے کوئی ایک ملک بھی ایسا ہے کہ جو اسلامی ممالک کو دعوت دے کہ آؤ اپنے فیصلے طاغوت سے نہیں خود کریں، خود اسرائیل کے خلاف جہاد کا اعلان کریں۔ کیا ہمارے تمام مسالک کے علمائے امت سب کو اس ایک نکتے پر جمع کر سکتے ہیں اس کا علاج ریلیاں نہیں جہاد ہے لیکن اس ایک لفظ جہاد کو منہ سے نکالنے پر ہمیں جس قدر شرمندگی ہوتی ہے، شاید اس سے کئی گناہ زیادہ ہمیں روز قیامت شرمندگی ہو گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔