رپورٹروں کو سیلبرٹی بننے کی بیماری

نصرت جاوید  جمعـء 1 اگست 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

ٹی وی کی آمد کے بعد صحافی اب Celebrity بننے کی ہر ممکن کوشش کیا کرتے ہیں۔ ہاں ایک زمانہ تھا جب سارا زور ’’نظریاتی‘‘ ہونے پر دیا جاتا تھا۔ ذاتی طور پر اگرچہ میرا ہمیشہ یہ مستقل خیال رہا کہ صحافی بس صحافی ہوا کرتا ہے۔

ویسے بھی ذات کا رپورٹر ہوتے ہوئے مجھے نظریات اور عقیدہ پرستی سے کہیں زیادہ خبر اور صرف خبر تلاش کرنے کا جنون رہا ہے اور جب آپ کے رزق کا سارا دارومدار صرف صحافت پر ہو تو آپ نوکریاں بھی بدلتے رہتے ہیں۔ وجہ اس کی بنیادی طور پر ’’نظریاتی‘‘ نہیں ہوتی۔ تنخواہ میں اضافہ اور بہتر منصب کی پیش کش نظریات سے کہیں زیادہ اہمیت کی حامل ہوا کرتی ہے۔

صرف ان دو وجوہات کی بنیاد پر 1986ء میں جب مجید نظامی صاحب کے ادارے نے ایک انگریزی روزنامے کا اجراء کیا تو میں نے اس کے اسلام آباد بیورو کا چیف ہونا پسند کر لیا۔ میری تنخواہ سابقہ ادارے کے مقابلے میں دگنی ہو گئی مگر میرے بے شمار سینئر بہی خواہوں کا اصرار تھا کہ میں نے یہ عہدہ حاصل کرتے ہوئے پیشہ وارانہ حوالے سے اپنی نمو کے تمام تر امکانات کو معدوم کر دیا ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ مجید صاحب اپنے کارکنوں کے معاملے میں بہت سخت گیر ہیں۔ ان کی اپنی شدید ’’نظریاتی ترجیحات‘‘ ہیں۔ وہ اپنے ادارے کے لوگوں کو اس سے دائیں بائیں نہیں ہونے دیتے۔

سخت گیر طبیعت کے ساتھ ہی ساتھ مجید صاحب کے بارے میں مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ چند سیاسی افراد ان کی مبینہ خود پسندی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے اخبارات کے لیے کام کرنے والوں کو اپنے ذاتی ملازموں میں شمار کرتے ہیں۔ ان کے بیانات اور تصاویر کو نمایاں طور پر شایع کرنا ہوتا ہے۔ ایک حوالے سے پروموشن وغیرہ۔ میں اپنے تمام بہی خواہوں کی باتیں خاموشی سے سنتا رہا۔ اسلام آباد بیورو جوائن کر چکا تھا۔ واپسی کا اب کوئی امکان ہی نہ تھا۔ حقیقت مگر یہ بھی رہی کہ ’’ان کی نوکری‘‘ کا پورا ایک سال گزرنے کے باوجود میری نہ تو کبھی مجید صاحب سے کوئی ملاقات ہوئی نہ ٹیلی فون پر بات چیت۔

بالآخر ایک دن ان کا فون آ ہی گیا۔ خان عبدالغفار خان کی وفات کی خبر سن کر اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی نے حکومتِ پاکستان کو اپنی آمد کے بارے میں فقط مطلع کیا۔ وزارتِ خارجہ کی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران اس وقت کے سیکریٹری خارجہ عبدالستار کو اس حوالے سے بڑی جلی کٹی سننے کو ملیں۔ بالآخر انھوں نے یہ کہہ کر جان چھڑائی کہ غفار خان مرحوم کا تحریک آزادی کے حوالے سے کانگریس کے ساتھ گہرا تعلق رہا ہے۔

بھارتی وزیر اعظم اس تاریخی نسبت کے حوالے سے ان کے ورثا کو پرسہ دینے آ رہے ہیں تو ہمیں اس پر اتنا سیخ پا نہیں ہونا چاہیے۔ میں نے وہ خبر لکھی اور سیکریٹری خارجہ کے ریمارکس ہوبہو چھاپ دیے۔ مجید صاحب ناراض تھے کہ ان کے ایک اخبار میں غفار خان اور راجیو گاندھی کے بارے میں ایسے فقرے کیوں چھپ گئے۔ میں نے ان کی بات خاموشی سے سنی اور جواباََ عرض کیا تو صرف اتنا کہ سیکریٹری خارجہ کے ریمارکس Quotes میں شایع ہوئے ہیں۔ یہ میرے خیالات نہیں حکومتِ پاکستان کی سوچ ہے جسے میں نے ایمانداری کے ساتھ صرف Reproduce  کیا ہے۔

آپ کو پسند نہیں آئے تو کوئی سخت اداریہ لکھ کر اپنے غصے کا اظہار کر دیجیے۔ میں جب ان سے بات کر رہا تھا تو اس وقت دفتر میں موجود تمام لوگوں کے چہروں پر خوف پھیلتا ہوا نظر آیا۔ میرے فون رکھنے کے بعد دو ایک نے جرأت کر کے یہ اعلان بھی کر دیا کہ مجھے ادارے سے فارغ کر دیا جائے گا۔ ایسا مگر ہرگز نہ ہوا۔ اس کے بعد دفتر ہی کے حوالے سے اپنے ایک صحافی دوست کے ساتھ ایک ناخوش گوار واقعہ بھی ہو گیا۔ مجید صاحب نے اپنے ہوٹل کے کمرے میں بستر پر بیٹھے ہوئے کچہری لگائی اور معاملہ رفع دفع ہو گیا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے خلاف 1989ء میں ایک تحریکِ عدم اعتماد قومی اسمبلی میں پیش ہوئی۔ اس وقت کے صدر اور آرمی چیف اس تحریک کے بھرپور پشت پناہ تھے۔ وہ تحریک کامیاب ہو جاتی تو وزیر اعظم غلام مصطفیٰ جتوئی مرحوم نے بن جانا تھا مگر اس تحریک کو زور دار بنانے کے لیے زیادہ تر مالی اور حکومتی وسائل نواز شریف کی پنجاب حکومت مہیا کر رہی تھی اور مجھے ہر شخص یہ بتاتا رہا کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ مجید صاحب کے بہت ہی زیادہ چہیتے بھتیجوں جیسے ہیں۔ لہذا بطور رپورٹر مجھے اس تحریک کو ’’کامیاب کروانا‘‘ چاہیے۔

بطور رپورٹر مجبوری میری مگر یہ تھی کہ دو دن تک مسلسل جاگنے اور لوگوں کا پیچھا کرنے کے بعد مجھے یقین ہو گیا تھا کہ یہ تحریک جب قومی اسمبلی میں ووٹنگ کے لیے پیش ہو گی تو ناکام ہو جائے گی۔ میں نے بڑی ’’احتیاط‘‘ کے ساتھ یہ خبر ٹھوس حوالے دے کر اپنے اخبار کو بھیج دی۔ وہ خبر روک لی گئی۔ کیونکہ جس دن وہ خبر چھپنا تھی اسی دن قومی اسمبلی میں اس تحریک پر ووٹنگ ہونا تھی۔ خبر روکنے والے افراد کو خدشہ تھا کہ مجید صاحب اس خبر کی اشاعت پسند نہ کریں گے۔

مجھے اطلاع ملی تو میں نے رات گیارہ بجے کے بعد مجید صاحب کو ان کے گھر فون کرنے کی جرأت کر ڈالی۔ وہ فون پر آئے۔ ناگواری سے میری داستان سنی اور بالآخر یہ کہہ کر فون بند کر دیا کہ ’’مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ آپ کے مدیر اپنے رپورٹر کی بات پر اعتبار کیوں نہیں کر رہے۔ آپ غلط خبریں دیتے ہیں تو اس ادارے کا اسلام آباد جیسا اہم بیورو آپ کے حوالے کیوں کر دیا گیا ہے؟‘‘ دوسرے دن وہ خبر چھپ گئی اور میں سچا بھی ثابت ہوا۔

پھر نواز شریف پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے۔ جب بھی ان کے اکیلے میں مجید صاحب سے ملاقات ہوتی تو میرا اور ہمارے شاہ جی عباس اطہر صاحب کا نام لے کر شکایتیں کرتے۔ شاہ جی نے اس معاملے میں جو فقرہ کہا میں اسے فی الحال لکھنا نہیں چاہتا۔ اپنے بارے میں یہ ضرور لکھ سکتا ہوں کہ مجید صاحب ہمیشہ نواز شریف کو جواب دیتے کہ راقم اسلام آباد میں ہوتا ہے۔ ان کی حکومت کو اگر اس سے کوئی شکایت ہے تو براہِ راست اس سے رابطہ کیا کریں۔

ہاں ہمارے درمیان کوئی ’’دوستی‘‘ کی راہ بنانے کے لیے کہ مجید صاحب نے نواز شریف صاحب کے دورئہ چین کے لیے ان کے ہمراہ جانے والے صحافیوں میں میرا نام بھی ڈلوا دیا۔ چین سے واپس آتے ہوئے وزیر اعظم نے جہاز میں قائم اپنے دفتر میں صحافیوں سے بات چیت کی۔ وہ ختم ہوئی اور صحافی اپنی نشستوں پر واپس جانے لگے تو نواز شریف صاحب نے میرا نام لے کر روک لیا۔ میں ان کے ساتھ تقریباََ 5 منٹ تک اکیلا بیٹھا ان کے شکوے سنتا رہا۔ بس یہ فقرہ کہہ کر اُٹھ آیا کہ ’’میرا کام خبر دینا ہے اور ان کا کام حکومت کرنا۔ میرا خیال ہے میں اپنا کام درست طریقے سے سر انجام دے رہا ہوں۔

ان کے اندازِ حکومت کے بارے میں البتہ کچھ کہہ نہیں سکتا۔‘‘ وزیر اعظم کو یہ بات کہہ کر باہر آیا تو یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا کہ مجید صاحب جہاز کے کوریڈور میں بے اطمینانی کے ساتھ کھڑے تھے۔ مجھے دیکھ کر فوراََ بولے ’’کیا ہوا‘‘۔ میں نے انھیں ساری بات اپنے الوادعی فقرے سمیت سنا دی۔ وہ زیر لب مسکرائے اور ٹھیٹھ لاہوری پنجابی میں اعلان کیا کہ میں اور نواز شریف صاحب دونوں بچوں کی طرح ’’ضدی‘‘ ہیں فہم و فراست ہم دونوں کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتی۔

کہانیوں کا ایک انبار ہے جو مجید صاحب کے حوالے سے میں بیان کر سکتا ہوں۔ کہنا مگر صرف اتنا ہے کہ ان کا ذاتی رویہ اور نظریاتی کٹرپن اپنی جگہ۔ زیادہ اہم بات یہ تھی کہ وہ ایک مکمل ایڈیٹر تھے۔ جبلی طور پر اس بات کا شدید احساس رکھنے والے ایڈیٹر کہ صحافتی اداروں کی اصل Product خبر ہوا کرتی ہے اور خبر صرف رپورٹر ہی لایا کرتے ہیں۔ میرے جیسے نظریاتی حوالوں سے راندئہ درگاہ رپورٹر کو انھوں نے اپنے ادارے میں 6 سال تک برداشت کیا تو صرف ایک مکمل ایڈیٹر ہوتے ہوئے۔ میری بدقسمتی کہ ہمارا شعبہ اب ایسے ایڈیٹروں سے دن بدن محروم ہوتا جا رہا ہے اور رپورٹروں کو بھی Celebrity بننے کی بیماری لاحق ہو چکی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔