(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - عورت ہو! اتنے بڑے فیصلے کیسے کر سکتی ہو؟

حاجرہ افتخار  اتوار 3 اگست 2014
تم عورت ہو اور تئم یہ کیسے سوچ سکتی ہو کہ تم مردوں کے برابر ہو، تم بھی وہ صلاحیتیں رکھتی ہو جن کا مالک تمہارا بھائی ہے۔ فوٹو: فائل

تم عورت ہو اور تئم یہ کیسے سوچ سکتی ہو کہ تم مردوں کے برابر ہو، تم بھی وہ صلاحیتیں رکھتی ہو جن کا مالک تمہارا بھائی ہے۔ فوٹو: فائل

مرد یا عورت ہونا انسان کے بس میں نہیں،  یہ تو ایک حقیقت ہے لیکن تم یہ کیسے سوچ سکتی ہو کہ تم مردوں کے برابر ہو، تم بھی وہ صلاحیتیں رکھتی ہو جن کا مالک تمہارا بھائی ہے۔ تم نہیں جانتی کہ تمہارا بھائی مرد ہے جس نے کما کر لانا ہے اور تم عورت ہو جسے برسوں سے بوجھ سمجھا جاتا تھا مگر جب تم پیدا ہوئی تو تمہارے دادا دادی نے کچھ بھی تو نہیں کہا تھا پھر تم کیوں اپنی ماں سے گلہ کرتی ہو کہ تمہارے پیدا ہونے پر مٹھائیاں کیوں نہیں بانٹی تھیں۔

اب امی کیسے بتائیں کہ ان کے اختیار میں کچھ نہیں تھا یہ تو بس سب نے تمہارے بھائی کے پیدا ہونے پر خود ہی آرڈر پر مٹھائی تیار کروائی تھیں۔ امی کو تو معلوم ہی نہیں تھا، مگر تم تو پیدا ہوئی چار بہنوں کے بعد، پھر بھی کسی نے کچھ نہیں کہا بس پھپھو جب آئیں تو تمہیں گود میں اٹھا کر یہی تو کہا تھا “بیٹا ہو جاتا تو جوڑی مکمل ہو جاتی” پھر جب امی کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو دادی نے کتنے حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا تھا “کوئی نہیں اﷲ پھر دے دے گا” اب اتنے حوصلے اور سمجھ والے خاندان میں پیدا ہوئی ہو پھر بھی ماں سے گلہ کرتی ہو کہ تمہیں شہر کے سب سے مہنگے اسکول میں کیوں نہیں داخل کروایا جب کہ امی کتنی دفعہ بتا چکی ہیں کہ تمہارے ابو کے وسائل اتنے نہیں کہ سب بچوں کو اتنے مہنگے اسکولوں میں پڑھاسکیں۔

ویسے بھی بھائی تو تعلیم کی طرف توجہ نہیں دیتا تھا، گلی کے بچوں کے ساتھ کھیلتا کودتا تھا جب کسی نے ابو کو بتایا کہ بچوں کو پڑھانا ہے تو اچھے اسکولوں میں بھیجو بچہ کچھ نہ کچھ بن کر ہی نکلتا ہے اور ایک تم ہو جو بیکار کی زد کرتی ہو اور سوچتی ہو پڑھ لکھ کر ابو کا سہارا بنو گی، پاگل لڑکی کیا تم نہیں جانتی کے بڑے تایا کو لڑکیوں کا باہر جانا ہرگز پسند نہیں، انھوں نے تو ابو سے کہہ بھی دیا ہے کہ وہ تمہیں اپنی بہو بنائیں گے،پھر کیسے ماں سے کہا تم نے کہ شادی نہیں کرنی اور وہ بھی اس لیے کہ تم بی ایس سی کر رہی ہو اور تمہارا تایا زاد صرف میٹرک پاس ہے۔

امی نے کیا سمجھایا تھا بھول گئی؟ لڑکوں کی تعلیم سے فرق نہیں پڑتا دیکھو نا کتنا اچھا کاروبار ہے تایا کا پھر وہ اکلوتا وارث، دو بہنوں کی شادیاں ہو گئی ہیں ایک رہ گئی اس کی بھی ہو جائے گی پھر تم ہی تو ہو گی، سارے عیش ملیں گے تمہیں۔ بس اب ضد چھوڑ بھی دو تمہاری انہی باتوں کی وجہ سے امی کی طبییعت خراب رہتی ہے۔پھر گھر کے حالات کا بھی تمہیں اندازہ ہے، بھائی کی نوکری چلی گئی اور ابو نے بھی تو ادھارپیسے لے کر ایجنٹ کو دیے تھے پر ویزا کیا خاک لگتا وہ آدمی ہی فراڈ نکلا بھائی کی کیا غلطی وہ تھوڑی جانتا تھا وہ تو اس کے دوست نے دھوکہ کیا۔ یہ سب تمہارے سامنے ہے اب ضد کرنے سے پہلے یہ یاد کر لیا کرو کہ تمہاری بہنیں کتنی خوش ہیں ان کی زندگیوں کے فیصلے بھی تو امی ابو نے ہی کیے تھے۔

باجی کو اﷲ نے تین بیٹیوں کے بعد بیٹا دیا ان کے شوہر کا کاروبار بھی تو دیکھو کتنا پھیل گیا، ان کی ساس کا رویہ نہیں دیکھتی اب تم،یہ تم جو بیوقوفی کی باتیں کرتی ہو کیا کہتی ہو وہ تو باجی نے اپنا زیور بیچ کر کاروبار میں پیسہ ڈال دیا تو کاروبار چل پڑا، اﷲ نے انہیں بیٹا دے دیا تو گھر والوں کا رویہ بدل گیا، یہی کہتی ہو نا ؟ یاد نہیں امی نے کیا کہا تھا کہ یہ سب ماں باپ کی دعائیں ہیں اور پھر ماں باپ جو اولاد کو پیدا کرتے ہیں، پال پوس کر جوان کرتے ہیں، انھوں نے عمر گزاری ہے وہ اولاد کا برا کیسے سوچ سکتے ہیں ؟ اگر تمہارے بھائی نے پسند کی شادی کر لی تو وہ اس لیے کہ وہ لڑکا ہے باہر نکلتا ہے طرح طرح کے لوگوں سے ملتا ہے اس کی ایک سوچ ہے تبھی تو امی ابو مان گئے تھے کیونکہ وہ جانتے ہیں بیٹا تو سمجھ دار ہے گھر کے بڑے فیصلے کر سکتا ہے تو بس اب تم بھی ضد ختم کرو اور امی ابو کی بات مان لو کیونکہ جب تمہارے سربراہان کو کوئی دقت نہیں تو تمہیں کیا اعتراض ہے؟

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

حاجرہ افتخار

حاجرہ افتخار

بی ایس ماس کمیونیکیشن کی طالبِ علم ہیں۔ لکھنا، پڑھنا اور ریسرچ کرنا ان کا شوق ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔