عید اور چائلڈ لیبر

ایم آئی خلیل  ہفتہ 2 اگست 2014

ملک بھر میں چائے کے ہوٹلوں پر کام کرنے والے ’’چھوٹے‘‘ جنھیں کہیں 30 روپے 40 روپے روزانہ ملتے ہیں۔ پنکچر کی دکان پر کام کرنے والا ’’چھوٹا‘‘ جسے عید کے دن بھی استاد کی مار زہرمار کرنا پڑتی ہے۔ ورکشاپ پر کام سیکھنے والا ’’کاکا‘‘ جسے عید کے موقعے پر بھی کسٹمرز کی جھڑکیاں تناول کرنی پڑتی ہیں۔

ایسے کم و بیش 60 تا 70 لاکھ چھوٹے چھوٹے یا ذرا بڑے بچے جنھیں ’’چائلڈ لیبر‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ ملک بھر کے ورکشاپوں، دکانوں، ہوٹلوں، ریڑھیوں، بازاروں، گھروں، بنگلوں، ہر جگہ بچے کام کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ عید کے موقعے پر بھی آپ نے دیکھا ہوگا کہ یہ بچے میلے کچیلے کپڑے پہنے اپنے کام میں مگن عید کی خوشیوں سے کہیں دور اور اس سے بھی دور۔ کہیں ہوٹلوں پر ٹیبل صاف کرتے ہوئے۔

بھاگ بھاگ کر پانی کا جگ بھر کر لاتے ہوئے۔دوڑ دوڑ کر گرم گرم چائے لاتے ہوئے۔ انتہائی انہماک کے ساتھ ننگے پیر یہ بچے پنکچر لگاتے ہوئے۔ اپنی عید کی خوشیوں کو تہہ و بالا کرکے دوسروں کی خوشیاں دوبالا کرتے ہوئے۔ اپنے غریب والدین کا ہاتھ بٹانے کی خاطر۔ غریب والدین جوکہ اس مہنگائی کے عالم میں گھر کا خرچ چلانے سے قاصر ہیں۔ وہ تعلیمی اخراجات اٹھانے سے قاصر ہیں۔ اس دور میں تعلیم کو بدستور مہنگا کیا جا رہا ہے۔

لہٰذا غریب اپنے بچوں کو ہنر سکھانے کو ترجیح دے رہا ہے کہ بچپن سے ہی کوئی ہنر سیکھ جائے گا جس کے لیے بغیر کسی معاوضہ لیے اپنے بچوں کو ورکشاپوں اور دیگر جگہ پر بھیجتے ہیں جہاں بچے صبح 6 بجے کہیں 7 بجے آتے ہیں اور رات 10 یا 12بجے تک چھٹی کرکے جاتے ہیں، کہیں ایک وقت کی روٹی دی جاتی ہے اس کے علاوہ چائے وغیرہ بھی دی جاتی ہے۔ ہر سال کی طرح یہ عید بھی ان کے مقدر میں خوشیاں لے کر نہ آسکی۔

انھوں نے اداس اداس عید منائی۔ ہر حکومت چائلڈ لیبر کے نام پر رقوم مختص کرتی ہے۔ ان کی فلاح و بہبود ان کی تعلیم پر اخراجات کے دعوے کرتی ہے لیکن ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ملک بھر میں ان بچوں کی تعداد بھی 10 تا 12 لاکھ بتائی جاتی ہے جنھیں اسٹریٹ چائلڈ کہا جاتا ہے۔ راقم الحروف ان بچوں کو ’’گلیوں کے تارے‘‘ قرار دیتے یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ ان تمام بچوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنا حکومت کا فرض اولین ہے۔

دوسرے چائلڈ لیبر اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ رات وہ چھت تلے بسر کرتے ہیں۔ انھیں اپنی ماں کے ہاتھ کی روٹی میسر آجاتی ہے۔ باپ کا سایہ سر پر ہوتا ہے۔ لیکن یہ بچے جوکہ والدین سے بچھڑ کر رہ گئے یا والدین فوت ہوچکے ہیں اب بے آسرا بے سہارا لاوارث ہوکر سڑکوں پر کھلے آسمان تلے زندگی بسر کر رہے ہیں۔

تعلیم اور صحت یہ دونوں شعبے کم ازکم کرپشن سے پاک ہونا چاہیے حکومت ہر سال بجٹ کے موقعے پر اربوں روپے مختص کرتی ہے اس کے علاوہ صوبائی حکومتیں بھی ہر سال اربوں روپے مختص کرتی ہیں، لیکن ان چائلڈ لیبرز کی تعلیم، صحت ان کی تربیت ان میں سے جو بچے سڑکوں پر زندگی بسر کر رہے ہیں ان کی شب بسری کے لیے چھت کا انتظام اور ان بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے دیگر اقدامات پر توجہ دینا نہ صرف حکومت کی ذمے داری ہے بلکہ معاشرے کی بھی ذمے داری ہے۔

ان بچوں نے تو ہر سال کی طرح اس سال بھی عید کی خوشی و لذت و سرشاری سے محروم رہے۔ 2001 کی بات سے راقم الحروف کو چائلڈ لیبر سے متعلق ایک سیمینار میں شرکت کا موقع ملا۔ وہاں افسران ، عہدیداران، سیاستدان، مقررین، معززین شہر اور دیگر تمام افراد کا مجمع موجود تھا۔ دھواں دھار تقاریر کا سلسلہ جاری تھا۔ ایسا معلوم دے رہا تھا کہ 2001 ختم نہیں ہوگا کہ تمام چائلڈ لیبرزکے مسائل حل ہوجائیں گے۔ تمام بچے تعلیم حاصل کرنے لگ جائیں گے۔ بڑی بڑی این جی اوز انھیں تعلیم یافتہ بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں گی۔ بڑے تنومند تاجر وصنعتکار اس کام میں ایسا ہاتھ بٹائیں گے کہ یہ مسئلہ مہینوں کے بجائے بس چند ہفتوں میں حل ہوجائے گا۔ اس وقت بتایا جارہا تھا کہ 40 لاکھ بچے ہیں جو اپنی عمر سے بڑھ کر کام پر مجبور ہیں۔

ان سے انتہائی سخت محنت و مشقت کا کام لیا جاتا ہے۔ معاوضہ بھی قطعاً صحیح ادا نہیں کیا جاتا۔ لیکن یہ یقین دلایا جاتا رہا کہ اب یہ تعداد ایک چوتھائی بھی نہ رہے گی۔ ان کے غریب والدین کے مسائل بھی حل ہوجائیں گے۔ لیکن ان گزرتے ہوئے برسوں میں وقت کے ساتھ تعداد بھی بڑھتی ہی چلی گئی۔ تعداد میں انتہائی کمی ایک طرف بلکہ انتہائی اضافہ ہوکر تعداد 70 سے بھی زیادہ بتائی جا رہی ہے۔

اس سال صوبائی حکومتوں نے اپنے بجٹ میں تعلیم کے لیے بڑی بڑی رقوم مختص کی ہیں کے پی کے کی حکومت نے اپنے کل بجٹ کا 27.4 فیصد رقم تعلیم کے لیے مختص کیے ہیں۔ یہ کل رقم 111 ارب روپے بنتی ہے۔ پنجاب حکومت نے اپنے بجٹ کا 26.1 فیصد مختص کیا ہے۔ سندھ کی حکومت نے اپنے کل بجٹ کا 22 فیصد تعلیم کے لیے مختص کیا ہے۔ وفاق نے اعلیٰ تعلیم پر اخراجات میں 2 فیصد اضافہ کیا ہے جب کہ پنجاب میں تعلیم پر اخراجات میں پہلے کی نسبت 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔

اسی طرح پنجاب نے افراط زر کے تناسب سے تعلیمی بجٹ میں اضافہ کیا ہے۔ پنجاب میں اسکول کی تعلیم کے لیے 15 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم پر اخراجات کے لیے پچھلے سال کے بجٹ میں 22 ارب روپے رکھے گئے تھے جس میں اضافہ کیا گیا ہے اب 24 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ کئی اعلیٰ تعلیمی ادارے لاہور میں مکمل کیے جا رہے ہیں جنوبی پنجاب میں جہاں غربت بھی بہت زیادہ ہے چائلڈ لیبر کا تناسب بھی پسماندہ علاقوں میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔ وہاں پر تعلیمی معیار بھی انتہائی پست ترین ہی رہتا ہے۔ اگر اسکول کالجز موجود ہیں تو خستہ حالی کا شکار ہیں پسماندہ علاقے جہاں وڈیرہ شاہی کی بالادستی ہوتی ہے۔

وہاں اسکولوں میں عموماً بڑے زمینداروں یا گاؤں علاقے کے بااثر افراد کے مال مویشی باندھ دیے جاتے ہیں۔ اسکول کی دیوار گرے ، چھت کا پلستر اکھڑے، کھڑکیاں دروازے کوئی اکھاڑ کر لے جائے۔ پنکھے کوئی اتار کر لے جائے، جو چیز جیسی ہے اس کی خستہ حالی میں مزید اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے، تعمیر و مرمت کے لیے فنڈز میسر نہیں۔ اگر میسر بھی کیا جاتا ہے تو اس کی بندربانٹ ایسی ہوچکی ہوتی ہے کہ اسکول کی تعمیر و مرمت کے لیے کچھ نہیں پڑتا۔ پنجاب حکومت اور دیگر صوبائی حکومتوں کو اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ پسماندہ اضلاع میں تعلیمی اخراجات اور صحت کے اخراجات میں اضافہ کیا جائے بلکہ یہ دونوں شعبے ایسے ہیں کہ ان پر وفاقی حکومت خرچ کرے یا صوبائی حکومتیں بجٹ مختص کریں تو ایک ایک پائی انتہائی محتاط طریقے سے خرچ کی جائے ان جگہوں اور مواقعے پر اخراجات کیے جائیں جہاں خرچ کی بہت سخت ضرورت ہو۔ خصوصاً سب سے پہلے پسماندہ علاقوں کو ترجیح دی جائے۔

چائلڈ لیبر کے لیے تعلیم پر اخراجات کے ساتھ ساتھ ان کی صحت و صفائی کی بھی اشد ضرورت ہے۔ یہ بچے جو صفائی کے انتہائی ناقص حالات میں کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ شدید بیمار، مریض اور بعض اوقات نحیف و کمزور ہونے کے باوجود سخت سے سخت کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ وفاقی حکومت نے صحت کے شعبے کے لیے 26 ارب 80 کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔ صحت کا شعبہ بھی تعلیم کی طرح صوبائی حکومتوں کے حوالے ہے، لیکن ملک بھر میں یہ شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے۔

ملک کے دیگر شہریوں کو بھی صحت کی معیاری سہولیات دستیاب نہیں ہیں تو ان غریب مفلوک الحال بیمار بچوں کا کون پرسان حال ہوگا۔ سب ہی جانتے ہیں بتایا جاتا ہے کہ ایجوکیشن ڈیولپمنٹ انڈکس کی فہرست میں 120 ممالک میں سے پاکستان کا رینک 113 ہے۔

پاکستان میں ناخواندہ بچوں کی تعداد کی شرح بہت زیادہ ہے۔ دنیا کے دیگر ملکوں کی نسبت یہاں پر چائلڈ لیبر کی تعداد بھی زیادہ ہے۔ اوپر چائلڈ لیبر سے متعلق سیمینار کا ذکر کیا گیا۔ اور مختلف حکومتی محکموں اور اداروں این جی اوز نے اپنے کارنامے بیان کیے۔ قابل ذکر بات یہ تھی کہ وہاں ایک بھی چائلڈ لیبر کا نمایندہ یا کوئی بچہ موجود نہیں تھا۔ ہم اس بات پر بھی صرف نظر نہیں کرسکتے بلکہ ان افراد اداروں یا این جی اوز کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے جو بھی اپنے طور ان بچوں کی فلاح و بہبود ، صحت و تعلیم سے متعلق کم یا زیادہ کام کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کے مسائل کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ حل ہو رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔