ڈی چوک یا ڈی ڈے

جاوید قاضی  ہفتہ 2 اگست 2014
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

باقی 12 دن، ماضی قریب کی سب سے بڑی ہلچل، جس نے حکومت کو واقعی ہلا دینا ہے۔ اس زلزلے کی ریکٹر اسکیل پر شدت کتنی ہوگی، حکومت سنبھل بھی سکے گی کہ نہیں، وہ بتانا قبل از وقت ہوگا۔ کوئی قیاس آرائی ہوگی یا پھر کوئی گماں کا ممکن ہونا ۔

اس پوری ہلچل میں یہ پہلی مرتبہ ہوگا کہ تین چھوٹے صوبوں کی تاریخی اعتبار سے پہچانی ہوئی قوتیں شامل نہیں ہوں گی۔ باقی سندھ سے بھی مخدوم شاہ محمود قریشی کے مریدوں کی ٹرینیں جا رہی ہیں، خیبر پختونخوا تو اسلام آباد کی دہلیز پر واقع ہے۔ میں نے پہلے بھی کہا ہوگا خلا کبھی خالی نہیں رہتے، وہ بھر جاتے ہیں۔ چائنا میں کسی زمانے میں چڑیا گندم کی پکی فصل کا دانا چگ لیتی تھیں، کاشتکاروں نے چڑیوں کو مارنا شروع کیا، خلا پیدا ہوا، پھر کیا ہوا،مکڑے آگئے اور قحط آگیا۔ حکمران جس سوچ کے حصار میں ہیں، اس نے بالآخر پیپلز پارٹی کو پنجاب بدر کیا تو اب ایک ایسی قوت پیدا ہوئی ہے جس نے یوں گماں ہوتا ہے حکمرانوں کو خاکم بدہن اب پنجاب بدر کردینا ہے۔ بے نظیر بھٹو اس حقیقت کو ’’لاہور کے وزیراعظم، لاڑکانہ کے وزیراعظم میں فرق کیوں‘‘ کہہ کر پیش کرتی تھیں۔

اب یہ دنگل ان دو پہلوانوں میں ہے جن کا تعلق ایک ہی گھرانے سے ہے۔ دونوں گرانڈ ٹرنک روڈ کے مکین ہیں۔ اب لاڑکانہ اور لاہور کا فرق ختم ہوا۔ وزیراعظم ایک ہی گھر سے ہوگا، عمران خان ہوگا یا میاں صاحب رہیں گے۔ دونوں لاہوری ہیں۔ ایک منڈا ہے جس میں سحر بھی ہے اور دوسرا تخت لاہور کی تاریخ سے تسلسل لیتا ہے۔ خادم پنجاب خادم شریفین کے شیدائی ہیں۔ منڈا مقتدر حلقوں کے قریب ہے۔ اب مقناطیس کی کشش ثقل کس طرف کھینچی جاتی ہے اس کا تعین ہوگا۔

اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، صرف یہ باقی ہے۔ باقی رہی بلی تو اس کے گلے میں گھنٹی باندھ دی گئی ہے۔ واہ واہ! حکمرانوں ۔ جلد بازی ہر سرمایہ دار کا اس پاکستان میں اب لاشعور ہے۔ ادھر عمران خان بھی چوکوں اور چھکوں سے بڑے نہیں ہوسکے۔ ہمیشہ ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے کھیلنے کو ترجیح دیتے ہیں کہ عوام کو نیند نہ آجائے اگر ٹیسٹ میچ کھیلیں گے۔ اب اس شہر میں 14 اگست کے دنگل کا چرچا ہر زباں پر ہے۔

کہتے ہیں لوہے کو لوہا کاٹتا ہے۔ اس دائیں بازو کی بڑھتی ہوئی طاقت کو اب دائیں بازو کی طاقت ہی جھٹکا دے سکتی ہے۔ باقی سیکولر، لبرل و اقلیتی و عورتوں کے حقوق کی انجمنیں تاریخ ہوئیں۔ اس کی ایک وجہ ان کے سیاسی نمایندگان کا اقتدار میں آکر کرپشن کرنا اور دوسری وجہ خود دائیں بازو کی قوتوں کا ان کو کمزور کرنا ہے ۔ اس مرتبہ ایک دائیں بازو کی قوت پر بھی کرپشن و بری حکمرانی کے الزامات ہیں تو دوسری دائیں بازو کی قیادت ذوالفقار علی بھٹو کی طرح اپنے آپ کو کرپشن سے پاک دکھاتی ہے۔ اور یہ بات لوگ سمجھتے ہیں کہ صحیح ہے، باقی دو چار اسکینڈل اس کی نجی زندگی سے اٹھا کر لوگوں کو مرعوب نہیں کیا جاسکتا۔

عمران خان کو غیر مقبول کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے وہ یہ کہ ان کو وزیراعظم بنا دیا جائے۔ اور جب چائے، دال، آٹے کی قیمتیں بڑھیں گی تو لوگوں کو عمران خان صاحب کے بارے میں پتہ چل جائے گا۔

لگتا ہے کرپشن کے بغیر حکومتیں نہیں چلا کرتیں۔ یہ ملک سب کو جاگیر کی صورت میں ملا اور سب نے جاگیریں بنائیں۔ یہ سارے جاگیردار کرپشن کی یا پھر انگریزوں کی دلالی سے بنے اور پھر انگریز کے جانے کے بعد یہ رتبہ اسٹیبلشمنٹ کو ملا۔ اسٹیبلشمنٹ نے کہا آؤ بھلے عوام کے نمایندہ بن کر، دھاندلی کرکے یا بغیر دھاندلی کرکے مگر وفاداریاں ہمیں دینا ہوں گی۔ بھٹو صاحب آئے عوام کے ووٹ پر مگر اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دیا، وہ بھول گئے آخر میں یہ بات۔ موجودہ حکمرانوں کا ماجرا بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔ رہا زرداری صاحب کا سوال وہ سمجھتے تھے اس حقیقت کو اور پانچ سال نکال گئے۔

کیا وجہ ہے عمران خان صاحب سعودی عرب نہیں جاتے۔ اور کیا وجہ ہے کہ میاں صاحب آتے جاتے ہیں؟ اگر ہمیں یہ بات سمجھ آجائے تو آدھی حقیقت ہم پر عیاں ہوجائے گی۔ بالکل وہی رویہ ہے جو 60 کی دہائی میں بھٹو صاحب کا تھا۔ یا خود 80 کی دہائی میں میاں صاحب کا۔

میں کچھ یقین سے کہتا ہوں ان کی پارٹی کے اندر دراڑیں پڑنا شروع ہوگئی ہوں گی۔ کیوں کہ لوگ ان کے پاس اس لیے آئے تھے کہ ان کی اقتدار پر دسترس مضبوط ہوگی۔ جب اقتدار کی ڈوریاں ہاتھ سے چھن جائیں تو پھر دوستیاں کاہے کی۔

14 اگست کو ہونے والا دنگل ان سارے حقائق پر ایک اور نقاب کشائی ہے۔ یہ پہلی مرتبہ ہے جمہوریت مسلسل سات سال پورے کرگئی، بہت ہوا۔ عوام کو ان سات سال کی کارکردگی نے کوما میں ڈال دیا ہے، لہٰذا سرجری ہوگی تو شور و غل نہیں ہوگا۔

اسٹیبلشمنٹ صرف دو لیڈروں سے ڈرتی تھی ایک بھٹو اور دوسری بے نظیر، اب ان کے سامنے باقی کوئی اور ڈرانے والا نہیں رہا۔ تکنیکی اعتبار سے مڈٹرم انتخابات ہو نہیں سکتے خواہ کتنی بھی حکومت ہل جائے۔ وہ تب ہوں گے جب ایوان میں حکومت اپنی اکثریت کھو بیٹھے۔ جب سب کچھ آئین کے مطابق دکھائی دے رہا ہے لیکن ہے نہیں، تو اس سے اچھے وقت اسٹیبلشمنٹ کے لیے اور کیا ہوں گے۔ حکمران پارٹی کے اندر بہت سے لوگوں نے اب فارورڈ بلاک بنانا ہے۔

تبدیلی یہ ہے کہ خود اسٹیبلشمنٹ اندر سے تبدیل ہو رہی ہے۔ وہ امریکا کے اور قریب ہو رہی ہے۔ اب انھوں نے ’’اسٹرٹیجک گہرائی‘‘ کو الوداع کہہ دیا۔ وہ بری حکمرانی کو بھی حد سے باہر نہیں جانے دیں گے جس سے ملک کی سالمیت کو خطرہ ہو اور یہاں کے شرفا کا انحصار بری حکمرانی پر ہے۔ وہ تب تک ہے جب تک ان کا سول چہرہ ان سے ٹکراؤ میں نہ آجائے۔ اس بات میں کوئی اخلاقی قدریں، بدنصیبی وغیرہ نہ ڈالے تو حقیقت کچھ اس طرح ہی ہے۔ آج اسٹیبلشمنٹ کا سول چہرہ عمران خان ہے۔ حکمران غلط حکمت عملی پر وہ خوب کھیلے۔

کیسا لگتا ہے آپ کو جب طالبان، ضیا الحق، سعودی سوچ اس ملک کی جمہوریت پر قابض ہوجائے اور اسٹیبلشمنٹ کو اپنے مفادات کو ان سے خطرہ محسوس ہو۔ حکمران وزارت خارجہ بھی اپنے پاس رکھ کر بیٹھ گئے لیکن خارجہ پالیسی تبدیل نہ کرسکے۔ یوں کہیے کہ جو کچھ بھی ہے خود اسٹیبلشمنٹ کی سوچ میں تبدیلی ہے۔ تو پورے خطے میں بھی بڑی تبدیلی آرہی ہے۔ امریکا اس ساری آتی ہوئی تبدیلی کو گہری نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔

واپس آتے ہیں 12 دن کے بعد ہونے والے دنگل پر، اس دنگل میں جو بھی حکومتی پہلو ہے وہ مشکل ہی ہے۔ اجازت دیں تو بھی مسئلہ، نہ دیں تو بھی۔ اور اگر کوئی چلا بیٹھے تو پھر بہت ہی بڑے بحران کا شکار ہوں گے اور اگر عمران خان کے مطالبات مان بھی لیں تو بھی عمران خان رکنے والے نہیں۔ پیپلز پارٹی بھی حکومت سے دور دور تو خود عوامی نیشنل پارٹی بھی۔ مولانا فضل الرحمن بھی۔ ان سارے مسئلوں میں سب سے چھوٹا مسئلہ حکومت کے لیے یہ ہوگا کہ وہ عمران خان کو جلسے کی اجازت دے دیں۔ لاہور کا واقعہ ہمیں حکمرانوں کی نفسیات کے بارے میں بہت سی آگاہی دیتا ہے۔ حکمران طاقت کا استعمال ضرور کریں گے اور اگر نہ بھی کریں گے تو کرنے والے کر جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔