دو راستے

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 2 اگست 2014

میں ایسے ملک میں رہتا ہوں جہاں کرپٹ سیاست دان جمہوریت کے نام پر اپنی جیبیں بھرتے ہیں جہاں ملا مذہب کے نام پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتے ہیں ۔ بزنس مین اپنے منافعے کی خاطر لوگوں کو زندہ درگورکرنے پر تلے بیٹھے رہتے ہیں ۔

تھانے بکتے ہیں جہاں ہر جائز کام ناجائز طریقے سے انجام پاتا ہے اور ہر ناجائز کام جائز طریقے سے ہوتا ہے ۔ رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا ، تابوتوں ، کمیشن ، رشوت کا کاروبار دن بدن ترقی کرتا جا رہا ہے، ہر دوسرا آدمی یہ سمجھتا ہے کہ اس پر جادو کر دیا گیا ہے۔ انسان خدا پر نہیں بلکہ جعلی پیروں ، عاملوں اور بنگالی بابا پر زیادہ یقین رکھتے ہیں ۔ شرافت، قابلیت ،تہذیب ،تعلیم ،ایمانداری کو ٹین ڈبے والا بھی نہیں پوچھتا ہے ۔ بے ایمانی کو ایمان کا درجہ حاصل ہے ، جاگیردار اپنی تسکین اور دھاک بٹھانے کی خاطر بے کس و بے بس مزارعوں کی معصوم بیٹیوں کی عزت تار تار کردیتے ہیں ۔

ہر بڑا آدمی قانون اور انصاف کو اپنی جیب میں رکھتا ہے ۔عقل سے پیدل ، تہذیب وتمدن سے عاری نرے جاہل عقل مندوں ، اہل دانش ، تعلیم یافتہ لوگوں کی زندگیوں کے فیصلے کرتے ہیں ، نوکری میرٹ اور صلاحیت پر نہیں بلکہ رشتے داری پر اور پیسوں میں ملتی ہے ، قانون سے بے خبر کرپٹ، راشی قانون سازی کرتے ہیں ۔ تعلیم کے نام پر جہالت پھیلانے کے لامحدود اختیارات حاصل ہیں ، توہم پرست لوگو ں کا جم غفیر ہے ۔ ہر سانحے کے بعد حکومت کے سوا سب اپنی اپنی ذمے داری قبول کرلیتے ہیں ۔

دنیا بھر میں بے ایمانی سمیت تمام خرابیوں اور برائیوں کی کوئی نہ کوئی ایک حد ہے اگر آپ کو کسی ملک میں ہر حد پارہوتی ہوئی ملے تو فوراً سمجھ لیں کہ وہ پاکستان ہے ہمارے ہاں جس کے پاس جتنا بڑا عہدہ یا مر تبہ یا اختیار ہے وہ اتنا ہی بڑا بے ایمان اور بے حس ہے ہمارے ہاں نیک، شریف ، دیانتدار، ایماندار لوگ اتنی کم تعداد میں پائے جاتے ہیں کہ انھیںشمار کرتے ہوئے شرم آجاتی ہے۔ سر ندامت سے اٹھ نہیں پاتا اپنی نظروں میں آپ اس قدر گر جاتے ہیں کہ پھر دوبارہ کھڑا نہیں ہوپاتے ایسی بانجھ اور بنجر قوم آپ کو اور کہیں نہیں ملے گی۔

ہمارے ملک کے ہر کرتا دھرتا و اعلیٰ سر کاری و پبلک عہدیداروں کی قبروں کے کتبے پر یہ ضرور لکھا ہونا چاہیے کہ یہ اس شخص کی قبر ہے جس سے برے آدمی محبت کرتے تھے اور نیک اور شریف آدمی اس سے ڈرتے تھے اور اس کی بے ایمانی کرپشن ، لوٹ مار اور بے حسی کی ہمسری ممکن ہی نہیں ہے ۔

شیکسپیئر نے کہا تھا ’’دوزخ خالی پڑی ہے سارے شیطان زمین پر ہیں ‘‘ ہم سالہا سال اس خوش فہمی میں مبتلا رہے کہ ہمارے سارے مسائل برائیاں ، خرابیاں غیر ملکیوں نے ایک سازش کے تحت پھیلائی ہیں ہمیں اس حد تک لگنے لگ گیا تھاکہ ساری دنیا ہماری دشمن بن چکی ہے ہم دن رات دنیا بھر کو کوستے رہتے ہیں برا بھلا کہتے رہتے تھے ہمیں ہر ملکی مسئلے کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ نظر آتا تھا اصل میں سارا مسئلہ ہی ہماری سوچ کا تھا۔

ہم اپنا قصور اور اپنی غلطیوں کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں تھے اصل میں ہم اپنے دشمن خود نکلے ۔ ہم نے اپنی درگت ایسی بنائی کہ اللہ کی پناہ ۔ ایک پروفیسر نے اپنی کلاس کا آغاز کرتے ہوئے ایک گلاس اٹھایا جس کے اندر کچھ پانی موجود تھا اس نے وہ گلاس بلند کر دیا تاکہ تمام طلباء اس کو دیکھ لیں پھر اس نے طالب علموں سے سوال کیا تمہارے خیال میں اس گلاس کا وزن کیاہوگا، 50گرام یا 100گرام یا125 گرام طلبہ اپنے اپنے اندازے سے جواب دینے لگے۔

میں خود بھی صحیح وزن نہیں بتا سکتا جب تک کہ میں اس کا وزن نہ کرلوں پروفیسر نے جواب دیا مگر میراسوال یہ ہے کہ اگر میں اس گلاس کو چند منٹوں تک یوںہی اٹھائے رہوں تو کیا ہوگا۔ کچھ نہیں ہوگا،طالب علموں نے جواب دیا۔ ٹھیک ہے اب یہ بتاؤ کہ اگر میں اس گلاس کو ایک گھنٹے تک یوں ہی اٹھائے رہوں تو پھر کیا ہوگا۔ آپ کے بازو میں درد شروع ہو جائے گا، ایک طالب علم نے جواب دیا۔ تم نے بالکل ٹھیک کہا، پروفیسر نے تائیدی لہجے میں کہا۔ اب یہ بتاؤ کہ اس گلاس کو میں دن بھر اسی طرح تھامے رہوں تو کیا ہوگا۔ آپ کا بازو سن ہوسکتاہے، ایک طالب علم نے جواب دیا۔ آپ کا پٹھا اکڑ سکتا ہے دوسرے نے کہا ۔آپ پر فالج کا حملہ ہو نہ ہو لیکن آپ کو اسپتال تو لازماً جانا پڑے گا، ایک طالب علم نے جملہ کسا اور پوری کلاس قہقہے لگانے لگی۔

بہت اچھا ،پروفیسر نے برا نہ مناتے ہوئے کہا۔ پروفیسر نے ایک اور سوال کیا کہ کیا اس تمام دوران میں گلاس کا وزن تبدیل ہوا۔ نہیں، طالب علموں نے جواب دیا تو پھر بازو میں درد اور پٹھا اکڑنے کا سبب کیا تھا ۔طالب علم پروفیسر کا سوال سن کر چکرا گئے ، اس کا سبب تھا گلاس کا مسلسل اٹھائے رکھنا، پروفیسر نے کہا۔ ہماری زندگی کے مسائل بھی کچھ اسی قسم کے ہوتے ہیں آپ انھیں اپنے ذہن پر چند منٹ سوار رکھیں تو وہ ٹھیک ٹھاک لگتے ہیں اگر آپ انھیں زیادہ دیر تک سوچتے رہیں تو وہ سر کا درد بن جائیں گے انھیں اور زیادہ دیر تک تھامیں رہیں تو وہ آپ کو فالج زدہ کردیں گے اور آپ کچھ کرنے کے قابل نہیں رہیں گے ۔

یہی کچھ حال ہمارا ہوا ہے غربت ، افلاس ، بے روزگاری ، مہنگائی ، لوڈشیڈنگ ، دہشت گردی ، نے ہمارا بھرکس نکال دیا ہے۔ آج ہم جتنی عفریت کا سامنا کر رہے ہیں وہ سب کی سب ہماری اپنی ہی فخریہ پیشکش ہیں ۔عظیم فلسفی اپیکٹیٹس متنبہ کرتا ہے کہ ’’ ہمیں اپنے جسم سے ورم ، پھوڑے اور رسولیاں دور کرنے کی نسبت اپنے ذہن سے غلط خیالات خارج کر نے کی زیادہ فکر و کوشش کرنی چاہیے ۔‘‘میرے ہم وطنوں ذراآنکھیں اچھی طرح سے کھول کر دیکھیں آپ کا دشمن کہیں نہیں چھپا ہوا ہے بلکہ آپ کے سامنے ہے بس اسے پہچاننے کی ضرورت ہے ۔ یہ غربت ، افلاس ، فاقے ، بیماریاں ، برائیاں ، خرابیاں آپ کا مقدر نہیں بلکہ آپ پر زبردستی تھوپی گئی ہیں ،آپ کا دشمن آپ کا ہم مذہب ، ہم نسل ، ہم زبان ہی ہے ۔

آپ کے پاس واضح طور پر دو راستے موجود ہیں یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کونسا راستہ چنتے ہیں ایک راستہ تو یہ ہے کہ آپ یہ سب کچھ ہوتے ہوئے دیکھتے رہیں اور خدا کا شکر ادا کرتے رہیں کہ ہم فالج زدہ ہیں تو کیا ہوا زندہ تو ہیں سانس تو چل رہی ہے ۔اوردوسرا راستہ یہ ہے کہ اٹھ کھڑے ہوں اور اپنے مرض کو اپنے اندر سے جڑ سے اکھاڑ پھینکیں اور خوشحالی اور اختیار چھین لیں اور جنہوں نے آپ کو فالج زدہ کیا تھا انھیں فالج زدہ کردیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔