- ممکنہ آئینی ترمیم کا مسودہ عام کرنے سے متعلق درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ
- ملتان ٹیسٹ؛ آغا سلمان اور عامر جمال کی مزاحمت جاری
- ملتان ٹیسٹ؛ ابرار احمد کی دوسرے ٹیسٹ میچ میں شرکت بھی مشکوک
- سوشل میڈیا ایکٹوسٹ آغا شیخ سرور کو 15 اکتوبرتک بازیاب کروانے کا حکم
- سابق سپرنٹنڈنٹ جیل اڈیالہ کی گرفتاری سامنے آنے پر درخواست خارج
- شنگھائی تعاون تنظیم سربراہی اجلاس؛ راولپنڈی میں 8 روز کیلئے دفعہ 144 نافذ
- کوئٹہ سے اندرون ملک ٹرین سروس ڈیڑھ ماہ بعد بحال
- ملتان ٹیسٹ؛ پاکستانی بالرز کیلئے ڈراؤنا خواب بن گیا
- روس اور چین کے وزیراعظم آئندہ ہفتے پاکستان کا دورہ کریں گے
- وزیراعظم کی دکی میں کان کنوں پردہشت گرد حملے کی مذمت
- دورہ آسٹریلیا؛ قومی ٹیم کا اعلان نئی سلیکشن کمیٹی کرے گی
- قائد اعظم یونیورسٹی میں طلبا گروپوں میں تصادم، طلبا زخمی
- سمندری طوفان ملٹن سے فلوریڈا میں تباہی، 10 افراد ہلاک، 30 لاکھ بجلی سے محروم
- کم کھانے اور زندگی کے دورانیے کے درمیان اہم تعلق کا انکشاف
- امریکی ریسٹورانٹ کا 75 ویں سالگرہ منانے کا انوکھا انداز
- شدید شمسی طوفان زمین کی جانب گامزن، ماہرین کا انتباہ
- درخت لگائیں، آلودگی مٹائیں،ثواب کمائیں
- خالقِ کائنات سے محبّت۔۔۔ !
- لاہور؛ ای چالاننگ میں سینچری مکمل کرنے والی گاڑی کو دھر لیا گیا، بھاری جرمانہ عائد
- لاہور؛ لوئر مال کے علاقے میں کم سن بچے سے گولی چلنے پر ماں قتل
سابق ملازمہ نے سعودی شاہی خاندان کی باتوں سے پردہ اٹھادیا
ریاض: مغربی میڈیا سعودی شاہی خاندان کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات پر مبنی رپورٹس جا بجا تیار کرتا رہتا ہے اور اسی نوعیت کی ایک تازہ کتاب میں الزام لگایا گیا ہے کہ شاہی خاندان کے افراد اپنے غیر ملکی گھریلو ملازمین کے ساتھ نتہائی براسلوک کرتے ہیں اور آواز اٹھانے والوں کو مذہبی پولیس کے حوالے کردیتے ہیں۔
یہ کتاب “Behind Palace Walls” 51 سالہ خاتون کے گارشیا نے لکھی ہے۔ گارشیا کا تعلق جنوبی افریقہ سے ہے اور ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے چار ماہ کے لیے ایک سعودی شہزادی کے ہاں ملازمت کے دوران غیر ملکی گھریلو ملازمین کے ساتھ بدترین سلوک دیکھا اور جب اس کے خلاف آواز اٹھائی تو اسے فوراً جہاز میں بٹھا کر ملک سے نکال دیا گیا۔
گارشیا کا کہنا ہے کہ وہ نوجوان سعودی شہزادی کے محل میں دو فلپائنی اور دو ملاوی کی خواتین ملازماؤں کی سربراہ تھی۔ اس نے بتایا کہ شہزادی بات بات پر بگڑ جاتی تھی اور اکثر ملازم خواتین کو تشدد کا نشانہ بناتی، ان کے کمروں میں اودھم مچا کر توڑ پھوڑ کرتی اور خطرناک دھمکیاں بھی دیتی۔ گارشیا نے ریاض کو مشرق وسطیٰ کا سب سے زیادہ قدامت پسند شہر قرار دیا ہے دوبارہ کبھی وہاں نہ جانے کا عزم ظاہر کیا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔