انکل قلم کیوں نہیں تھام لیتے؟؟

شیریں حیدر  ہفتہ 2 اگست 2014
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

اتنے عرصے کے بعد انکل شیخ کودیکھ کر بڑی خوش گوار حیرت ہوئی… انکل ہمارے والد صاحب کی نسل کے بزرگوں سے ہیں، صرف ان دونوں کی آپس کی دوستی نے ہی ہمیں عمر کے کئی سالوں میں تفریق ہی نہ ہونے دی کہ انکل سے ہماری کوئی رشتہ داری نہیں ہے… تب سمجھ میں آیا جب ذات پات کے معانی و مطالب ہم پر واضح ہوئے۔ پانی پیتے ہوئے انکل نے سوال کیا کہ ہماری عید کیسی گزری تھی۔

’’ ہم نے تو عید منائی ہی نہیں انکل… ‘‘ میں نے انھیں بتاتے ہوئے دل میں کسک بھی محسوس کی کہ انکل کو علم تھا کہ یہ ابا جی کی وفات کے بعد پہلی عید تھی، رواج کے مطابق یہ عید ہمیں خوشیوں کے ساتھ نہیں منانا تھی۔

’’ ہیں… ‘‘ انکل کی حیرت دیدنی تھی، ’’ عید نہیں منائی تم لوگوں نے … مگر کیوں ؟؟ کیا کوئی احتجاج وغیرہ کر رہے تھے؟ ‘‘ انکل بلا کے بذلہ سنج ہیں اور میں کئی بار کہتی ہوں کہ اگر وہ قلم تھام لیں تو تہلکہ مچا دیں مگر اس وقت مجھے ان کا طنز سے پوچھا گیا سوال زہر میں بجھے تیر کی مانند لگا۔

’’ انکل… ‘‘ میں نے دل میں آنے والے غصے پر قابو پانے کی کوشش کی، ’’ آپ کو نہیں معلوم کہ ابا جی کو دنیا سے گئے ہوئے ابھی فقط چھ ماہ ہوئے ہیں، ہمارے دلوں میں ان کی جدائی کا زخم تازہ ہے…‘‘
’’ یہ تو بہت اچھی بات ہے بیٹا! ‘‘ انکل نے نرمی سے کہا، ’’ دلوں میں جدائی کا زخم تازہ رہے تو ہی آپ جانے والے کو کوئی نہ کوئی تحفے تحائف بھیجتے ہیں… تم نے بھی بھیجے ہوں گے یقینا اور باقی خاندان نے بھی؟ ‘‘

’’ جی انکل… وہ تو ہم ہر روز بھیجتے ہیں! ‘‘ میں نے ان کا مقصد جانتے ہوئے کہا، ’’ اور ماشاء اللہ رمضان کریم میں تو ہم نے خصوصی طور پر نہ صرف ان کے لیے دعائیں کیں بلکہ ان کے ایصال ثواب کے لیے بہت سے قرآن مجید پڑھے گئے!!‘‘
’’ ماشاء اللہ… ‘‘ انکل نے فوراً کہا، ’’ بس جانے والے کو یہی چاہیے تم لوگوں سے… اور تو میرا یار تم لوگوں سے کچھ نہیں لے کر گیا اور نہ ہی کچھ اور چاہتا ہے…‘‘ جانے والا اپنے پیاروں کا جہاں ہی تو ویران کر جاتا ہے اور انکل کہہ رہے تھے کہ وہ ہمارا کچھ نہیں لے کر گئے تھے، صبر آنا بھی مشکل لگتا ہے۔

’’ اس کا مطلب ہے کہ پچھلے چھ ماہ سے تو تم لوگوں کے خاندان پر جمود ہی طاری ہے… کوئی خوشی کا موقع نہیں آیا ہو گا اور نہ ہی مستقبل قریب میں کچھ ایسا پلان کیا گیا ہوگا؟ ‘‘ انکل نے عام سے انداز میں خاص سوال کیا۔
’’ایسی تو کوئی بات نہیں انکل… میری بیٹی کی شادی ہوئی ہے… بھائی جان کے بیٹے کی منگنی… سالگرہ، پارٹیاں ، دعوتیں… یہ سب کچھ تو چل ہی رہا ہے اور ابھی ایک ہفتے کے بعد خاندان میں ایک قریبی شادی ہے اور دو ہفتے کے بعد ایک اور… ‘‘

’’ ہوں … ‘‘ انکل نے لمبی سی ہوں کی، ’’ حیرت ہے کہ تم لوگوں نے چھ ماہ میں اتنا کچھ کر لیا اور اب ساتویں ماہ میں مزید دو شادیاں … لگتا ہے کہ سادگی اور خاموشی سے ہی کی گئی ہوں گی؟ ‘‘
’’ نہیں انکل… ‘‘ میں نے کہا، ’’ دھوم دھام سے، پورے ارمانوں کے ساتھ اور جیسے کہ عام طور پر سب کچھ ہوتا ہے… آپ کو دعوت نہیں ملی کیا؟ ‘‘ میں نے حیرت سے سوال کیا۔
’’ ملی تھی دعوت بیٹا، بس اپنے خاندان میں کوئی نہ کوئی مصروفیت چل رہی ہوتی ہے اور تمہاری آنٹی تو اب بالکل بستر کی ہو کر رہ گئی ہیں!!‘‘ انکل اور میرے ابا جی ماشاء اللہ ہم عمر بھی تھے اور دونوں کی صحت ایک جیسی، کسی کی محتاجی نہ کسی پر بوجھ…

’’ اوہو… اب کیسی صحت ہے ان کی انکل؟‘‘ میں نے آنٹی کی صحت کا پوچھا۔
’’ اسی طرح ہے بیٹا جیسی تم نے دس سال پہلے بھی دیکھی ہو گی مگر اب مزید کمزور ہو گئی ہے… ‘‘ انکل نے کہا، ’’ تو بیٹا… عید تم لوگوں نے چھ ماہ کے بعد بھی نہیں منائی مگر اس عرصے میں شادیاں، منگنیاں اور سالگرہ کرتے رہے… یہ تضاد کیوں ؟ ‘‘
’’ انکل سالگرہ تو بس ایک چھوٹی سی خوشی؎ ہوتی ہے… اور پھر سال میں ایک ہی بار تو آتی ہے، اسی طرح شادیوں اور منگنیوں کے وقت بظاہر تو ہم مقرر کرتے ہیں مگر حقیقتا یہ سب اوقات اللہ تعالی کی طرف سے مقرر ہوتے ہیں!‘‘ میں نے بظاہر بڑی دلیل کے ساتھ بات کی تھی۔

’’ اچھا… ؟ ‘‘ انکل نے معنی خیز سی اچھا کی، ’’ سالگرہ سال میں ایک بار آتی ہے اور عید الفطر کتنے بار آتی ہے بیٹا؟ ‘‘
’’ ایک بار… ‘‘ میں نے آہستگی سے کہا۔
’’ منگنیوں اور شادیوں کا وقت تو اللہ تعالی مقرر کرتا ہے… تم نے کہا ہے… موت کا وقت کون مقرر کرتا ہے؟ ‘‘ انکل کا اگلا سوال مجھے بوکھلا دینے والا تھا۔

’’ جی انکل سمجھ گئی… ‘‘ میں نے کہا، ’’ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں، ہمیں عید منانی چاہیے تھی! ‘‘
تم لوگوں نے عید کے دن کیا نہیں کیا؟ کیا کھایا پیا نہیں، صاف یا نئے لباس نہیں پہنے، عید کی نماز نہیں پڑھی، دن بھر باپ کے ایصال ثواب کے لیے قرآن پاک کی تلاوت کرتے رہے ہو؟ ‘‘
’’ نہیں انکل… ‘‘ میں بوکھلا گئی، ’’ کھایا پیا، لباس بھی صاف اور نئے پہنے، عید کی نماز بھی مردوں نے پڑھی اور اس روز تو بمشکل معمول کی نمازیں پڑھنے کو وقت ملا کہ مہمانداری اتنی زیادہ تھی! ‘‘
’’ پھر کیا ایسا نہیں کیا کہ تم کہہ رہی ہو کہ تم لوگوں نے عید نہیں منائی؟ ‘‘ انکل نے سوال کیا جس کے جواب میں ، میں ان کا منہ دیکھنے لگی، جب کوئی جواب نہ ہو تو میرے ساتھ یونہی ہوتا ہے…

’’ ہم دل سے خوش نہیں تھے انکل… ‘‘ میں نے اپنے جواب کی بلی تھیلے سے باہر نکالی تو انکل کی ہنسی رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔
’’ بھئی تم سب لوگوں نے ٹیلی فونوں کے فری پیکیج کے ذریعے چاند رات اور عید کی مبارک باد کے پیغامات سیکڑوں لوگوں کو بھیجے ہوں گے… نئے کپڑے بھی پہنے ہوں گے… دن بھر ٹھونس ٹھونس کر کھایا بھی ہو گا… مگر پھر بھی دعویٰ ہے کہ عید نہیں منائی… کتنا بڑا کفران نعمت کا عمل ہے کہ رمضان کے روزے رکھنے والوں کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے انعام اور تحفے کے طور پر عید سعید کا دن دیا جائے اور اسے ہم نہ منائیں … منا بھی لیں اور کہیں کہ منایا نہیں… جو چیزیں اور مواقع ہم خود ترتیب دیتے ہیں، ان میں کتنی سادگی رکھی جا سکتی ہے کتنی نہیں… انھیں تو کہو کہ امر ربی ہے اور موت کو امر ربی نہ سمجھو… چھ ماہ قبل میرا یار گیا، کسی روز میں بھی چلا جاؤں گا اور تم بھی، ہم سب اس دنیا میں آتے وقت اس عہد کا تعویذ گلے میں باندھ کر آتے ہیں کہ ہمیں لوٹ کر اپنے رب کے پاس آنا ہے، اپنے وقت مقرر پر!!‘‘ انکل نے حسب عادت دلیل کے ساتھ بات کی۔

’’ جی انکل… ‘‘
’’ مجھے تو لگتا ہے کہ ایسا کہنا کہ ہم عید نہیں منا رہے… اللہ تعالی کو پسند نہیں ہو گا! ‘‘ انکل کہہ کر رکے، ’’ سفر میں قصر نماز کی سہولت کو تو ہم فوراً قبول کر لیتے ہیں مگر اس طرح کے مواقع پر ہم بھول جاتے ہیں، پہلے بارش کی دعائیں مانگتے ہیں اور جب بارش برس برس کر ہماری حکومتوں کی ناکامیو ں کے پول کھولتی ہے …پھر کہتے ہیں کہ رحمت زحمت بن گئی ہے… ہم نے مذہب کو مذاق بنا رکھا ہے، جو بات پسند ہے اسے اپنا لو اور جو مشکل ہے اسے ٹالو!! میں خوش ہوا تھا یہ سن کر بیٹا کہ تم نے عید نہیں منائی… مگر دکھ ہوا یہ جان کر کہ تم لوگوں نے عید منائی بھی مگر اس ذات کی ناشکری میں… ‘‘
’’ آپ خوش کیوں ہوئے تھے انکل یہ سن کر کہ ہم نے عید نہیں منائی؟ ‘‘

’’ میں سمجھا کہ تم نے اپنی عید پر صرف ہونے والی رقم ان مستحقین کو بھجوا دی ہو گی جو اپنے گھر بار چھوڑ کراس وقت بے گھر کھلے آسمان تلے پڑے ہماری طرف دیکھ رہے ہیں… یا شاید تم نے احتجاجاً عید نہیں منائی ہو گی اسرائیلیوں کے مظالم کے خلاف… ان ہزاروں شہیدوں کے سوگ میں جن کے لواحقین پورا رمضان عید کی خریداری کی بجائے ان کے لیے کفن خریدتے رہے… مگر ہم سب ایسے ہی ہیں بیٹا!! اپنی اپنی غرض کے بندے، اپنے اپنے دکھوں کو روتے پیٹتے، اپنی محرومیوں پر بلبلاتے ، اپنے جانیوالوں کو روتے ہوئے… ‘‘

’’ درست کہہ رہے ہیں انکل… ‘‘ میں نے افسوس بھرے لہجے میں کہا، دل ہی دل میں سوچاکہ ہم نے اس طرف تو سوچا ہی نہیں، اپنی ذات کے حصار سے نکلے ہی نہیں، اپنا غم نظر آتا ہے اور سب سے بڑا نظر آتا ہے، دوسرے کی تکلیف ہمیں کیوں نہیں محسوس ہوتی، کس طرح کے مسلمان ہیں ہم؟ ہمارے تو سارے تہوار ہی ایسے ہیں جن میں اخوت اور یگانگت کا درس ملتا ہے۔

اپنی خوشیوں کو تج کر بھی دوسرے کی خوشی کا خیال رکھنے کا امر ہے، کیوں ہم خود غرض ہو گئے ہیں کہ ہمیں، میں اور میرا سے آگے کچھ سوجھتا ہی نہیں… کاش!!!! ہم نے عید اس لیے نہ منائی ہوتی کہ ہم ہمارے دلوں میں ان فلسطینیوں کا غم تازہ تھا جو ہر روز سیکڑوں کے حساب سے شہید ہو رہے ہیں، کاش ہم اپنی عید کی خوشیوں میں کسی نہ کسی طرح ان آئی ڈی پیز کو بھی شامل کر لیتے جنھوں نے گزشتہ برس کی عید اپنے گھروں پر منائی ہو گی اور اس سال وہ کھلے آسمان تلے ہماری نظر کرم کے محتاج پڑے ہیں… ہجرت کر کے آئے ہیں تو کیا ہم انصار نہیں بن سکتے تھے… میرے پاس کوئی سوال بچا تھا نہ جواب… میں خالی نظروں سے انکل کو دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ انکل قلم کیوں نہیں پکڑ لیتے؟؟؟؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔